تاریخ کا مطالعہ تعصب کا چشمہ اتار کر کیا جائے

بھارت میں مسلم حکمرانوں کا دور مذہبی رواداری اور محبت و انسیت کی قابل تعریف مثال تھا

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

سید صباح الدین عبدالرحمن ایک غیر جانب دار متوازن مورخ اور دانشور جن کی تحریریں عظیم علمی سرمایہ
سید صباح الدین عبدالرحمن (1911-1987)  کی ولادت بہار کے ایک گاؤں دیسنہ میں ہوئی۔ انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے، ایم اے کیا اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی استفادہ کیا۔ سید صباح الدین عبد الرحمن بیسویں صدی کے نامور مؤرخ اور مفکر و دانشور ہیں۔  درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جس موضوع پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا۔ ان کی تحریریں علم و دانش سے مملو ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں بھارت کی تاریخ نگاری پر خصوصی توجہ دی ہے۔ سید صباح الدین عبدالرحمن نے بھارت کی تاریخ و تہذیب کے ان گوشوں کو اجاگر کیا ہے جن کے متعلق بعض مؤرخین یا نام نہاد مصنفین نے غیر شائستہ باتیں کہی ہیں۔ بھارت کے مسلم حکم رانوں کی بابت شکوک و شبہات کو رفع کرنے میں ان کا یہ علمی ورثہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
صباح الدین عبدالرحمن کی وابستگی دارالمصنفین سے 1935 میں ہوئی، اس کے بعد جو علمی اور تاریخی کام انہوں نے کیا وہ ہمیشہ جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں جن مباحث کو اٹھایا اور جن چیزوں کو پیش کیا ہے اس میں اجتماعیت اور ہم آہنگی کا پہلو نمایاں ہے۔ ان کی تحریروں میں بھارتی تہذیب و تمدن اور یہاں کے رکھ رکھاؤ کی بو آتی ہے۔ سلامتی، امن اور بقائے باہم کے ساتھ ساتھ سماجی نفرتوں اور عداوتوں کے خاتمے کے لیے بھی ان کا علمی سرمایہ گراں قدر ہے۔ بھارت کی شناخت اور امتیاز بھی یہی ہے کہ یہاں کی رنگا رنگی اور تعدد و تنوع برقرار رہے۔ انسانی حقوق و رشتوں کا باہم احترام باقی رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی سید صباح الدین عبد الرحمن کی خدمات جلیلہ کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سید صباح الدین عبد الرحمن کا پورا علمی سرمایہ قابل قدر اور لائق مطالعہ ہے لیکن بھارت کے عہد ماضی میں مسلمان حکم رانوں کی مذہبی رواداری کے عنوان سے تین جلدوں میں جو کام کیا ہے اس کی موجودہ بھارت میں بڑی ضرورت ہے۔ ان تینوں جلدوں میں جن مباحث کو پیش کیا گیا ہے ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم حکم رانوں نے بھارت میں رواداری، باہمی احترام کا عملی مظاہرہ کیا۔ دینی، فکری، علمی، تہذیبی اور تاریخی ہر اعتبار سے مسلم حکم رانوں کا کردار نہایت نرم اور روادارانہ رہا ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم چیزوں کا صحیح تجزیہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے مسائل الجھ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہم سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس تناظر میں معروف مؤرخ سید صباح الدین عبدالرحمن کی کتابوں میں مغل حکم رانوں کے عہد کی چیزوں اور ان کی رواداری کے واقعات کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے تب اندازہ ہوگا کہ مغل حکم رانوں یا دیگر مسلم حکم رانوں نے بھارت کی تہذیبی شناخت اور یہاں کے امتیاز کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ سید صباح الدین عبدالرحمن اپنی معروف کتاب بھارت کے عہد ماضی میں مسلم حکم رانوں کی رواداری کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں:
’’مغلوں نے یہاں آ کر اپنے پاؤں جمانے کی خاطر قدم قدم پر اپنا خون بہایا اور یہاں کے لوگوں کا بھی خون بہا لیکن جب وہ یہاں جم گئے تو پھر اس کا مطالعہ اس طرح کرنا چاہیے کہ انہوں نے علاقوں کی تسخیر کے بعد یہاں کے لوگوں کے دلوں کی تسخیر کن کن طریقوں سے کی۔ انہوں نے بھارت کو جنت نشاں بنانے کی خاطر یہاں کے لوگوں کی دل جوئی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، انہوں نے ایک اچھی حکومت قائم کرنے کی خاطر یہاں کے لوگوں سے ہر طرح کا میل جول بڑھایا، ان کے رسم و رواج میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی، ان کے پرسنل لاء کو برقرار رکھا، ان کی معاشرتی زندگی میں کوئی خلل نہیں ڈالا، ملک کے نظم ونسق میں ان کو اپنا شریک کار بنایا، ان کو بڑے بڑے عہدے دیے، مسلمانوں نے اگر کہیں شورش یا بغاوت کی تو ان کے کچلنے کے لیے ہندو فوجی سرداروں اور منصب داروں کو بھیجنے میں تامل نہیں کیا۔ شادی بیاہ کے ذریعے سے رشتے بھی قائم کیے۔ اکبر نے ہندوؤں کے مذہبی علوم میں سے وید، مہابھارت، رامائن اور اپنشد وغیرہ میں پوری دل چسپی لی، ہندوؤں و مسلمانوں کے مذہبی خیالات میں اشتراک پیدا کرنے کی بھی کوشش کی، ان کے روایتی قصے کہانیوں کو اپنی زبانوں میں منتقل کیا اور آگے چل کر تو اپنی مذہبی زبان عربی اور سرکاری زبان فارسی کو چھوڑ کر ایک ایسی زبان اختیار کرلی جس کو ہندو و مسلمان دونوں بولنے لگے۔ یہاں رہ کر مسلمانوں نے ہندوؤں سے کس کس طرح میل جول بڑھایا، یہاں کے تمدن کو کس کس طرح سنوارا اور یہاں کے ذہنی اور مذہبی خیالات میں کیا تبدیلیاں پیدا کیں، یہ بھارت کی تاریخ اور تہذیب میں بڑی رنگا رنگی ہے اور یہی اس کی اصل خوبی ہے۔ اگر کوئی یہ ثابت کرنا چاہے کہ بھارتی تمدن کے معنی ہندوؤں کا تمدن ہے تو بھارت کی تاریخ کے ساتھ خیانت ہوگی۔‘‘
ان خیالات اور نظریات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سید صباح الدین عبدالرحمن کی کتب جو بھارت کی تاریخ و تہذیب پر تدوین کی گئی ہیں وہ  بھارتی ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔ ان کتابوں کی ہر ہر سطر میں حب الوطنی اور ملک و قوم سے وفا داری عیاں ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ بھارت میں مسلم حکم رانوں نے یہاں آکر کسی بھی نوعیت سے یہاں کی ہندو آبادی کے ساتھ کوئی زیادتی یا بھید بھاؤ کا رویہ اختیار نہیں کیا، جیسا کہ عہد حاضر میں کچھ عناصر اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ کا مطالعہ جب بھی کیا جائے گا تو کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل اس وقت کے سیاسی، سماجی و معاشی حالات سے واقفیت پیدا کرنا ضروری ہو گا۔ گویا سیاق و سباق اور مالہ و ما علیہ کا علم ہو تب جا کر صحیح معنوں میں کوئی مثبت یا منفی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ آج ہمارے ملک بھارت میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ان کے کارناموں کو منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ عوام میں ان کے لیے نفرت پیدا کی جا رہی ہے جو یقیناً ایک غیر سنجیدہ اور قابل تردید اقدام ہے۔ جو لوگ مخصوص فائدوں کے لیے ایسا کر رہے ہیں، انہیں یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کی سچی، صحیح اور مکمل تاریخ بتائیں نہ کہ آدھی ادھوری؟ اس سے بھارت کی جمہوری اور آئینی قدریں کمزور ہوں گی جو ہم سب کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ بھارت اسی وقت بھارت رہ سکتا ہے جب کہ یہاں کا نظام کسی خاص دھرم کی ترویج و اشاعت کا سبب نہ بنے۔ جب بھارت میں مخصوص نظریات کی سرپرستی حکومتی سطح پر ہونے لگے گی تو پھر اس کی روح داغ دار ہوجائے گی۔ سید صباح الدین عبدالرحمن تاریخ کے معروف اسکالر ہیں ان کا تجزیہ ہم نے متذکرہ اقتباس میں ملاحظہ کیا اس کا بھی یہی لب لباب ہے ۔
سید صباح الدین عبدالرحمن اپنی کتاب کے دیباچہ میں جو باتیں نقل کی ہیں ان کا انطباق من و عن موجودہ حالات پر ہوتا ہے۔
’بھارت کے اندر کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو یہ تحریک چلانا چاہتی ہیں کہ مسلمان اگر واقعی ملک کے وفادار ہیں تو وہ اپنا اسلامی نام بدل کر ہندوانہ نام رکھیں، عربی پڑھنا چھوڑ دیں، اپنی زبان کے لیے ہندی رسم الخط اختیار کریں، مکہ و مدینہ کو اپنے ذہن سے نکال دیں، ہندوؤں کے تہوار کو قومی تہوار سمجھیں، ہندوؤں کی تیرتھ گاہوں کو قومی تیرتھ گاہیں سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ تنظیمیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو اونچے اونچے عہدے نہ دیے جائیں، تجارتی کاروبار میں ان کو بڑھنے نہ دیا جائے، جہاں ان کی تجارتی اور اقتصادی حالت اچھی ہو وہاں بلوے فساد کرکے ان کو پریشان حال رکھا جائے۔‘ یہ اقتباس سید صباح الدین عبدالرحمن نے 1983 میں لکھا تھا لیکن اس اقتباس کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت بھی بھارت میں اس طرح کی چیزیں پائی جاتی تھیں۔ اگر ہم موجودہ وقت میں بھارت کے حالات کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جو نظریات سامنے آرہے ہیں ان سے بھارت کی شبیہ داغ دار ہو رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ 1983 میں ملک کا سیاسی منظر نامہ بڑا حساس تھا۔ اسی تناظر میں یہ بات سید صباح الدین عبدالرحمن نے لکھی ہے۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے "بھارت کے عہد ماضی میں مذہبی رواداری پائی جاتی ہے۔ عہد ماضی سے مراد وہ دور ہے جب اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت تھی، وہ یہاں آئے تو ان کو یہاں کے ایسے باشندوں سے سابقہ پڑا جو ان کے ہم مذہب نہ تھے۔ اس کے باوجود دونوں میں ربط و انس کی اعلی ترین مثالیں ملتی ہیں۔ تاریخ کے مواد کچے ہوتے ہیں، وہ دلوں کو توڑنے اور جوڑنے دونوں کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ کسی ملک کے کسی دور کی صرف خوں ریزی اور ہولناکی کی داستانیں جمع کر دی جائیں تو اس کی تاریخ یقیناً قصائی کی دکان ہوجائے گی، لیکن اسی عہد میں ایسے بہت کچھ مواد ملیں گے جن سے مہر و محبت کی داستانیں، دلجوئی اور دل نوازی کی حکایتیں قلم بند کی جائیں تو اس عہد کی تاریخ دل آزار ہونے کے بجائے دل نواز بن جائے گی۔‘
سید صباح الدین عبدالرحمن کے تاریخی سرمایہ کی جہاں علمی و فکری حیثیت مسلم ہے، اسی طرح ان کے اس ورثہ سے جو پیغام ملتا ہے وہ یہ کہ بھارت کی رگ رگ میں انسان دوستی، رواداری، ادیان و مذاہب کا احترام پایا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے حاملین صرف عوام ہی نہیں تھی بلکہ اقتدار پر براجمان یہاں کے مسلم حکم راں بھی تھے، جنہیں آج بدقسمتی سے سب و شتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے تمام روادارانہ اقدامات کو پس پشت ڈال کر دانستہ طور پر حقیقت سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ اس لیے بھارت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت تعصب و جانب داری کی عینک ہٹانی ہوگی تبھی جاکر حقیقت کا ادراک ہوپائے گا۔
سید صباح الدین عبدالرحمن نے تاریخ نگاری سے سماجی ہم آہنگی اور مشترکہ اقدار کو زندہ کرنے کا کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے تحریری سرمایہ سے دانش گاہوں اور تحقیقی مراکز و اداروں میں بھر پور استفادہ کیا جا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تاریخ کے مطالعہ سے معاشرے میں رائج بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا، سچ اور جھوٹ میں فرق واضح ہوجاتا ہے، کتنے افراد اپنی آراء سے  محض اس لیے رجوع کرتے ہیں کہ انہیں حقیقت کا علم  ہوگیا۔ سید صباح الدین عبدالرحمن نے بھی بھارت کے مسلم حکم رانوں کی تاریخ کو پیش کرکے نہ صرف علمی حلقوں کی تشنگی دور کی ہے بلکہ ان افراد کے لیے بھی بڑا بیش قیمت تحفہ پیش کیا ہے جو بھارت کے مسلم حکم رانوں کے حوالے سے کسی بھی طرح کی غلط فہمی یا شکوک وشبہات کا شکار ہیں۔
***

 

***

 ’’بھارت کے عہد ماضی میں مذہبی رواداری پائی جاتی ہے۔ عہد ماضی سے مراد وہ دور ہے جب اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت تھی، وہ یہاں آئے تو ان کو یہاں کے ایسے باشندوں سے سابقہ پڑا جو ان کے ہم مذہب نہ تھے۔ اس کے باوجود دونوں میں ربط و انس کی اعلی ترین مثالیں ملتی ہیں۔ تاریخ کے مواد کچے ہوتے ہیں، وہ دلوں کو توڑنے اور جوڑنے دونوں کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ کسی ملک کے کسی دور کی صرف خوں ریزی اور ہولناکی کی داستانیں جمع کر دی جائیں تو اس کی تاریخ یقیناً قصائی کی دکان ہوجائے گی، لیکن اسی عہد میں ایسے بہت کچھ مواد ملیں گے جن سے مہر و محبت کی داستانیں، دلجوئی اور دل نوازی کی حکایتیں قلم بند کی جائیں تو اس عہد کی تاریخ دل آزار ہونے کے بجائے دل نواز بن جائے گی۔‘ ‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023