تاریخ انقلابات عالم پر ایک نظر

(امکانات، انقلاب محمدی کے تناظر میں)

غزالہ اطہر ، حیدرآباد

تبدیلیاں انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ مختلف مراحل میں مختلف قسم کی تبدیلیاں کائنات کی فطرت ہے۔ سیاسی، سماجی و نظریاتی تبدیلیاں دنیا کے مختلف حصوں میں ہمیشہ آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی، یہ ایک ناگزیر عنصر ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ مختلف قسم کے انقلابات سے بھری پڑی ہے اور جو انقلابات دنیا میں آئے ہیں ان میں نہ ہی پورے کامیاب رہے اور نہ ہی پورے ناکام۔ لیکن تاریخ انسانی پوری کوشش و جدوجہد سے عبارت ہے خواہ کوشش کا جو بھی رخ رہا ہو۔ کوشش ایک مثبت پہلو ہے۔ انقلابات فرد کی سطح پر بھی آتے ہیں اور اجتماعی سطح پر بھی، ان کی حیثیت علاقائی بھی ہوتی ہے اور قومی و بین الاقوامی بھی، ان کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ دنیا میں انقلابات کی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو وہ کچھ اس طرح ہو گی۔
انقلابات کی تاریخ میں ایک انقلاب زراعت کے متعلق آیا تھا۔ جو تقریبا دس ہزار سال قبل مسیح کے درمیان آیا تھا جس میں لوگ دریاؤں کے کنارے بس جاتے تھے۔ اس انقلاب کے ذریعے سے سماجی ترقی حاصل ہوئی۔ لوگ فارمنگ کے نئے ذرائع تلاش کرنے لگے، نئی ٹکنالوجی کو حاصل کرنے کا رحجان بڑھا۔
کمرشیل انقلاب بھی اس دنیا کی تاریخ کا ایک اہم عنوان ہے۔ یہ یورپ میں برپا ہوا اور 100 سے 1300 سال قبل مسیح کے درمیان واقع ہوا۔ اس انقلاب کے ذریعے دنیا میں مادیت کی طرف دوڑنے بھاگنے کی خواہش پیدا کی گئی شہروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کی تعداد میں بھی بڑھوتری ہوئی۔ اس انقلاب میں بھی کیپٹلزم کو فروغ ملا۔ بینکنگ سسٹم میں ترقی ہوئی، طاقت کو فروغ دینے والے ذرائع پر بھی غور کیا جانے لگا۔ بینکنگ کے نظام میں نئے تجربات کیے گئے اور ان کو اس کے ایک مستقل حصے کے طور پر شامل کیا گیا۔ تجارت کو بڑھانے کے عوامل پر بھی تحقیق کی گئی۔
اسی طرح دنیا میں ایک انقلاب سائنٹفک ریولیشن Scientific Revolutionکے نام سے بھی آیا جو یورپ میں  1500 سے 1600 کے درمیان برپا ہوا تھا جس کو سائنس کی دنیا میں نشاة ثانیہ کہا جاتا ہے۔ جہاں سائنسی تجربات اس کے طریقے کار اور عوامل پر بہت بحث کی گئی۔ پرانے آئیڈیاز اور تھیوریس پر سوال اٹھایا گیا اور بالخصوص ہیلیوسنٹرک تھیوری پر تحقیق کی گئی کہ سورج اس کائنات کا مرکز ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف سائنسی علوم پر بھی بات کی گئی کہ جہاں نئی تبدیلی کی ضرورت ہو وہ لائی جاسکے اس طرح یہ انقلاب رونما ہوا۔
صنعتی انقلاب: یہ انقلاب شروع تو برطانیہ سے ہوا تھا لیکن بڑھتے بڑھتے پورے یورپ اور امریکہ تک پہنچ گیا۔ یہ 1750 سے 1800 کے درمیان واقع ہوا۔ اس کے جو اثرات سوسائٹی پر پڑے اس کے اہم نکات یہ تھے:
* لوگ شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے اور شہروں کی تعداد بڑھنے لگی، بہتر معیار زندگی کے لیے دوڑ دھوپ بڑھ گئی
* حمل و نقل کے ذرائع میں بہتری آئی
* کیپٹلزم کو فروغ ملا
* طاقت کو حاصل کرنے کے نئے ذرائع ڈھونڈے جانے لگے۔ ساتھ ہی اس کا بھی تذکرہ ہو جائے تو مناسب ہو گا کہ ایک انقلاب 1912سے 1949 کے درمیان چین میں بھی آیا تھا۔ اس طر ح چین کا بحیثیت ریاست قیام عمل میں آیا۔ اس انقلاب کے بعد وہاں کی حکومت نے اپنے ہی عوام کے حقوق کو تنگ کردیا تھا پھر کمیونسٹوں اور قومیت کے ماننے والوں کے درمیان ایک سول وار چلنے لگی تھی۔ سیاسی آزادی محدود کردی گئی تھی، کسی بھی انسان کی زندگی کے متعلق اہم فیصلے کرنے کا حق کمیونسٹ حکومت کو حاصل ہو گیا۔ اس طرح کمیونسٹ بڑی طاقت بن گئی لیکن ان کی لڑائی نیشنلسٹوں کے ساتھ باقی ہی رہی ۔
انقلاب روس جسے بالشویک انقلاب، اکتوبر انقلاب یا سویت انقلاب بھی کہا جاتا ہے، عالمی تاریخ کا پہلا کامیاب سوشلسٹ انقلاب تھا جو کلاسیکی مارکسزم سطور پر استوار ہوا۔ اسے روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے برپا کیا تھا جس کے نتیجے میں یونائیٹڈ سوشلسٹ سوویت یونین (USSR) کی بنیاد رکھی گئی۔
جنگ زدہ سامراجی روس میں 1917 میں انقلاب نے بادشاہت کا تختہ پلٹ دیا۔ عدم استحکام کا ایک دور آیا اور بالشویکوں نے اکتوبر انقلاب میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ترقی ہوئی کرتی کمیونسٹ پارٹی جلد ہی معاہدہ بریسٹ-لٹووسک کے ذریعہ بڑی علاقائی مراعات کے ساتھ جنگ سے دستبردار ہو گئی۔ اس انقلاب کے نتیجے میں پہلے مرتبہ محنت کشوں اور مظلوموں کی حکومت قائم ہوئی جس نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
بالکل اسی طرح ایک انقلاب 1959 کیوبا میں بھی برپا ہوا۔ اس انقلاب کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ ایک کمیونسٹ ریاست بنادی گئی۔ فیڈل کاسٹرو اس کا بانی تھا۔ اس انقلاب کے ذریعے سے اس نے تجارت اور صنعت کے شعبے پر پورا کنٹرول حاصل کیا اور کمیونزم کو برتری دلائی۔
اس کے علاوہ فرانس اور ایران میں بھی انقلابات آئے۔ فرانس میں جمہوریت اور ایران اسلامی جمہوریہ ایران کہلایا۔ ایران کے انقلاب (1979) کے بعد وہاں اسلام کو بحیثیت سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔
   انقلابات کے حوالے سے بات اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ’’انقلاب محمدیؐ‘‘ کا ذکر نہ کیا جائے۔ یہ وہ انقلاب تھا جس نے دلوں کو مسخر کیا تھا، جہاں بیابان میں رہنے والے وقت کے امام بن گئے تھے، جہاں ہر قسم کی طبقاتی تقسیم کو ختم کردیا گیا اعلی و ارفع کے پیمانے بدل دیے گئے۔ جہاں سوسائٹی کے دبے ہوئے لوگوں کو بھی عزت و توقیر بخشی گئی۔ ان کو باوقار مقام دیا گیا۔ جہاں لوگوں کو بتوں کی گندگیوں سے نکال کر زندگی کی اعلی اقدار دی گئیں اور لوگوں کو ان کے حقیقی مقصد حیات سے آشنا کرایا گیا۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کی تعلیم دی گئی، غریبوں اور سماج کے پچھڑے ہوئے طبقات کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ نظام عدل و قسط کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کوئی اونچ نیچ ذات پات، حسب نسب کا فرق باقی نہ رہا۔
اس انقلاب کے ذریعے سے معشیت کو فروغ ملا، لوگوں کو ایک نیا پائیدار سیاسی نظام ملا۔ زندگی گزارنے کی شان دار اقدار ملیں غرض کہ زندگی کا ایک واضح رخ متعین کیا گیا۔ اس انقلاب نے انسانی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ زندگیاں بدل گئیں۔
ان انقلابات کی روشنی میں مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیا جائے اور بالخصوص اسلام کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بات یقینی ہے کہ اسلام کے نور کو ہمیشہ روشن رہنا ہے۔ اس چراغ کے لیے یہ طے ہے کہ وہ کبھی نہیں بجھے گا بس اپنے حصے کی شمع روشن کیے جانا ہے۔ صلیبی طاقتیں آج بھی اپنے عروج پر ہیں اور ساری دنیا کے ذہنوں کو انہوں نے مرعوب کر رکھا ہے۔ اپنا کلچر، اپنی شناخت، اپنی اقدار کو تک لوگوں نے مغربیت میں ڈھال لیا ہے۔ ان کا مروجہ تعلیمی نظام فوقیت پایا۔ غرض ان کا ہی ڈنکا بجنے لگاہے لیکن مستقبل کی آنکھ دیکھتی ہے اور امکان یہ ہے کہ حرکت ہوگی اور بالضرور ہوگی، زمانہ کروٹ لے گا، جس طرح جسم میں حرکت ہوتی ہے اور وہ کروٹ لیتا ہے بالکل اسی طرح تبدیلیاں برپا ہوتی ہیں اور انقلاب آتے ہیں۔ تاریخ انسانی میں انقلابات کا سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود تاریخ انسانی۔ روز اول سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے اگرچہ رفتار کبھی دھیمی اور کبھی تیز ہوتی رہی۔ کبھی انقلاب ترقی معکوس کے مراحل بھی پیش آئے اور کبھی جمود کے ادوار بھی مشاہدے میں آتے رہے ہیں ۔اسلام کو نئے وسائل و ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے، افکار و نظریات کو پیش کیا جانا وقت کا تقاضا ہے۔
دنیا اس وقت ایک دفاعی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے سامنے ایک بہترین نظریہ اور ایک بہترین حل پیش کیا جائے تو امکان بلکہ یقین ہے کہ مستقبل اسلام کا ہوگا ۔یہاں اس نکتے کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جس نے دین کو اپنی کال کوٹھریوں میں بند کردیا ہے انہوں نے اس کو بہت نقصان پہنچایا ہے، دوسرا وہ جو سیکولرازم کا حامی ہے ان سے تو کوئی امید نہیں ہے، تیسرا وہ ہے جس کو قرآن نے ”راست باز لوگوں“ کے نام سے یاد کیا ہے اور کہا کہ یہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں ۔انہوں نے حکمت و موعظت کے اصول اپنائے جن کے ذریعے سے ایک خوشگوار تبدیلی آرہی ہے اور سعید روحیں اس میں داخل ہورہی ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے۔دوسری طرف جہاں غیر مسلم دنیا ساری اقوام کو اپنے زیر نگیں کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، وہ کہتے تھے کہ جسموں پر ہماری حکومت ہے تو دلوں اور دماغوں کو بھی ہمارے زیر نگیں ہونا چاہیے، ان پر بھی ایک بوکھلاہٹ طاری ہے، وہ اپنا شکنجہ مزید سخت تر کرنے کے لیے کوشاں ہیں، براہ راست بھی اور اپنے زر خرید غلاموں کے ذریعے بھی۔ ایک کشمکش سی برپا ہے۔مسلم ممالک اور مسلمانوں پر اپنے منصوبوں کو لاگو کرنے کے لیے ان صلیبی، سامراجی و صیہونی طاقتوں نے بہت قوتیں لگادی ہیں اور ان کی کوشش مستقل جاری ہے۔ لیکن مخالفین کی یہ سرگرمیاں دفاعی جنگ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ صلیبی، صیہونی و سامراجی طاقتیں اس وقت ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہیں اور مسلمان قافلہ سخت جان کی طرح پامردی سے مقابلہ کررہے ہیں اور مستقبل امید افزا ہے۔ صرف یہ کہ کوششوں کو صحیح رخ دیا جائے اور ایک مستقل کوشش کی جائے۔
’’والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا‘‘ (سورہ عنکبوت)
  اور پھر نوید مل ہی جائے گی۔
’’یریدون لیطفؤا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ‘‘(سورہ صف)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023