ترقیاتی ماڈل یا مودانی ماڈل؟

دولت سبھوں کے پاس ہو اور متوازن ہو۔یہ ضروری ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

افراط زر 9 ماہ کی سب سے اونچی سطح پر۔معیشت چند لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے
بھارت میں تھوک مہنگائی پچھلے دسمبر میں 0.73فیصد ہوگئی ہے جو 9 ماہ کی سب سے اونچی سطح پر ہے۔ اس مہنگائی میں تیزی، اشیائے خوردنی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ خوردنی شرح مہنگائی دسمبر کے مقابلے میں 4.69فیصد سے بڑھ کر 5.39فیصد ہوگئی ہے۔ یومیہ اشیائے ضروریہ کی شرح مہنگائی 4.76فیصد سے بڑھ کر 5.78فیصد پر آگئی ہے۔ ایندھن اور بجلی کی تھوک مہنگائی 4.61فیصد سے 2.4فیصد ہوگئیہے۔اس کے ساتھ تیار شدہ شدہ اشیا کی شرح مہنگائی 0.64فیصد سے کم ہوکر 0.79فیصد ہوگئی ۔ اس سے قبل 12جنوری 2024کو حکومت نے خردہ مہنگائی کا ڈاٹا شائع کیا تھا جس کے مطابق ملک کی ریٹیل مہنگائی دسمبر میں بڑھ کر 5.69فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ یہ مہنگائی کے چار مہینوں کی سب سے اونچی سطح ہے کیونکہ ستمبر میں مہنگائی کی شرح 5.02فیصد رہی تھی۔ وہیں نومبر میں 5.55فیصد اور اکتوبر میں 4.87فیصد رہی تھی۔ خوردنی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ نومبر کی طرح دسمبر میں بھی سبزیوں کی مہنگائی میں بے حد اضافہ دیکھنے کوملا ہے ۔ نومبر میں سبزیوں کی مہنگائی بڑھ کر17.7فیصد سے 27.64فیصد ہوگئی ہے۔ دوسری طرف ایندھن اور بجلی کی مہنگائی 0.99فیصد ہوگئی ہے۔ جو نومبر میں 0.77 فیصد تھی۔ اس طر ح خوردنی شرح مہنگائی 8.70فیصد سے بڑھ کر 9.53فیصد ہوگئی اور دیہی شرح مہنگائی 5.85فیصد سے بڑھ کر 5.93فیصد ہوگئی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی شہری شرح مہنگائی 5.26فیصد سے بڑھ کر 5.46فیصد ہوگئی۔ آر بی آئی نے خردہ شرح مہنگائی کو چار فیصد پر رکھنے کی حد متعین کی ہے کیونکہ اس کی مہنگائی کا رینج 2.6فیصد کا ہے ۔ گزشتہ ماہ مانیٹری پالیسی کی میٹنگ میں آر بی آئی نے فائنانشیل ایئر 2024کے لیے خردہ مہنگائی کے اندازہ کو 5.40فیصد پر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ مہنگائی کا راست تعلق قوت خرید سے ہے۔ مثلاً شرح مہنگائی چھ فیصد ہے تو حاصل شدہ 100روپے کی قیمت محض 94روپے ہی ہوگی۔ اور مہنگائی کا بڑھنا اور کم ہونا پیداوار کی طلب اور ترسیل(Demand And Supply) پر ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کے پاس پیسے ہوں گے تو وہ زیادہ خرید پائیں گے۔زیادہ اشیا کی خریداری سے ان کی طلب بڑھے گی اور طلب کے مطابق سپلائی نہ ہونے پر اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی۔
آج ملک میں مہنگائی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور یہ سب مصائب غریب عوام کو ہی جھیلنا پڑتا ہے ۔ پھر بھی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم وشو گرو بننے جارہے ہیں اور 2028سے پہلے ہی ہم دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے اور ہماری معیشت کا حجم پانچ ٹریلین ڈالر ہوجائے گا، جبکہ مہنگائی کی آگ سے ملک کی بڑی آبادی جھلس رہی ہے۔ حکومت جملہ بازی اور سیاسی کرتب بازی کے ذریعہ عوام الناس سے جینے کی اشیا کو بھی دور کرتی جارہی ہے۔ ملک میں خوردنی اشیا کے ذخیروں کو گوداموں میں بھر بھر کر مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ کیا جاتا ہے تو کبھی موسمی تغیرات کی وجہ سے اشیائے خوردنی بازار تک کم پہنچنے سے بھی سامان مہنگے ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دہائی سے ہی کم اجرت پر ملازمت کرنے والے ملازمین اور مزدور پیشہ افراد کی ساری کمائی مہنگائی کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہے۔ اس طرح مہنگائی کے دور میں اجناس کی قیمتیں عوامی دسترس سے دور ہوجاتی ہیں جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ سبزیوں کی اونچی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ اب تو تیل، دال اور اناج کی قیمتیں بھی سبقت کررہی ہیں۔ آج مہنگائی ملک کو کھوکھلا کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ عوام و خواص سب پریشان ہیں۔
اب تو 2023گزر چکا ہے لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ 2024کیسا رہے گا؟ ملک میں خوشحالی آئے گی یا نہیں؟ہمارے پاکٹ میں پیسہ ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ جب پیسہ پاس ہوتا ہے تو وقت اچھا گزرتا ہے۔ ملک میں لوگ معاشی طور پر پریشان ہیں۔ معاشی اور سماجی عدم مساوات ملک میں بہت زیادہ ہے۔ جس طرح مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس لحاظ سے آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے۔ فی کس اوسط آمدنی پہلے سے کم تھی۔ بے روزگاری میں بھی کسی طرح کی کمی نہیں آئی۔اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے نئے لیبر قانون کے ذریعے مزدوروں کے جسم سے ہر قطرہ خون چوس لینے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ 2023میں معاشی شعبہ میں ایسی کوئی خبر نہیں آئی جس سے شہریوں کی زندگی میں خوشحالی آئے۔ ملک کی جی ڈی پی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2023-24کی دوسری سہ ماہی میں قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی)بڑھ کر 7.6فیصد ہوچکی ہے۔ جس میں حکومت کی معاشی پالیسی کا رول ہوسکتا ہے۔ مگر بھارت کی جی ڈی پی کا محض ۵۷ فیصد حصہ private final consumption expenditureکا ہے جسے ہم نے اپنے یومیہ ضروریات کے سامان اور خدمات پر خرچ کیا ہے۔ 2022-23کے مقابلے میں اس میں صرف 3فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دراصل ملک کی جی ڈی پی کا 55 سے لے کر 58 فیصد حصہ محض private finalconsumption expenditure سے بن رہا ہے۔ اس لیے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ جب تک عام لوگوں کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ رہے گا اور لوگ اسے حسب ضرورت خرچ بھی کریں گے تبھی معاشی حالت میں بہتری آئے گی۔ ہمارے ملک میں کئی سالوں سے اس میں کسی طرح کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اور یہ شرح ایک عرصے سے 55تا 58فیصد کے آس پاس ہی ٹکی ہوئی ہے۔ اتنی کم آمدنی میں جینے والے معاشرہ میں مہنگائی کی خبر ہمیشہ چھائی رہتی ہے۔ ملک میں ہر چیز مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ خواہ پڑھائی لکھائی ہو نقل و حمل ہو یا دیگر اشیائے ضروریہ ہوں۔ سنٹر فار مانیٹرنگ اکانومی نے 4293سرفہرست کمپنیوں کا ڈاٹا پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مارچ 2023میں ان کمپنیوں کا نقد منافع گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں 3.5گنا زیادہ ہوگیا ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی قائدین اور کارپوریٹس کا گٹھ جوڑ زبانِ زدِ خاص و عام ہے اور یہاں موڈانی ماڈل چل رہا ہے کیونکہ حکومت نے بندرگاہ سے لے کرہوائی اڈہ تک، بجلی سے لے کر ٹیلی ویژن تک ،کانکنی سے لے کر زرعی پیداوار تک سب کچھ اڈانی اور امبانی کے حوالے کردیا ہے۔ اس طرح معیشت چند لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ آکسفام کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف 5فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس ملک کی کل دولت کا 62فیصد حصہ ہے۔ موجودہ حکومت کا المیہ ہے کہ اس نے 2014 سے اب تک جتنے بھی وعدے کیے وہ سب جملہ ہی ثابت ہوئےہیں، خواہ 15لاکھ روپے شہری اکاونٹ میں جمع کرنے کا ہو یا دو کروڑ سالانہ روزگار کا ہو یا مہنگائی کم کرکے دودھ کی گنگا بہانے کا ہو۔ اس لیے کم تر آمدنی والے لوگ مہنگائی کی وجہ سے اپنی زندگی کی گاڑی کو کسی طرح زبردستی کھینچنے پر مجبور ہیں۔ حقیقی اجرت میں اضافہ ہمارے یہاں کمترین سطح پر ہے۔ خصوصاً زراعت، دیہی علاقوں اور غیر منظم شعبوں میں اضافہ تو بہت کم ہے۔ یہ ضابطہ سازی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ غربا اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کی آمدنی میں کمی کی کسی طرح بھرپائی کی کوشش میں اکاسی کروڑ سے زائد لوگوں کے مفت راشن کے منصوبے کو پانچ سالوں تک بڑھادیا گیا ہے ۔ طویل مدتی تیز رفتاری سے معاشی ترقی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ ترقی سبھوں کے لیے ہو اور متوازن ہو۔

 

***

 آج ملک میں مہنگائی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور یہ سب مصائب غریب عوام کو ہی جھیلنا پڑتا ہے ۔ پھر بھی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم وشو گرو بننے جارہے ہیں اور 2028سے پہلے ہی ہم دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے اور ہماری معیشت کا حجم پانچ ٹریلین ڈالر ہوجائے گا، جبکہ مہنگائی کی آگ سے ملک کی بڑی آبادی جھلس رہی ہے۔ حکومت جملہ بازی اور سیاسی کرتب بازی کے ذریعہ عوام الناس سے جینے کی اشیا کو بھی دور کرتی جارہی ہے۔ ملک میں خوردنی اشیا کے ذخیروں کو گوداموں میں بھر بھر کر مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ کیا جاتا ہے تو کبھی موسمی تغیرات کی وجہ سے اشیائے خوردنی بازار تک کم پہنچنے سے بھی سامان مہنگے ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دہائی سے ہی کم اجرت پر ملازمت کرنے والے ملازمین اور مزدور پیشہ افراد کی ساری کمائی مہنگائی کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہے۔ اس طرح مہنگائی کے دور میں اجناس کی قیمتیں عوامی دسترس سے دور ہوجاتی ہیں جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ سبزیوں کی اونچی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ اب تو تیل، دال اور اناج کی قیمتیں بھی سبقت کررہی ہیں۔ آج مہنگائی ملک کو کھوکھلا کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ عوام و خواص سب پریشان ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024