ترقی اورغریبی ساتھ ساتھ؟

!ملک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن مگر بڑی آبادی غربت کی زد میں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

جاپان کی شرح نمو تھم سی گئی ہے اور جرمنی کی رفتار بھارت کی رفتار سے بہت کم ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ آئندہ چند سالوں میں بھارت کی جی ڈی پی جاپان اور جرمنی سے آگے ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف و دیگر ریٹنگ ایجنسیوں کا یہی اندازہ ہے۔
بھارت چند سالوں میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہوگی مگر اس کے لیے آٹھ فیصد کا شرح نمو لازمی ہے۔ تیسری بڑی معیشت کے لیے ضروری ہے کہ گھریلو یا عالمی سطح پر اس کی رفتار تیز ہو، انہی دونوں چیزوں سے بہتر نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ ملک میں ہمہ جہتی معاشی بہتری آئے اور کے تزویراتی اثرات (Strategic effects) میں بھی اضافہ ہو اور معیشت کا حجم بھی بڑھے جس کے نتیجہ میں شہریوں کے حالات میں مثبت تبدیلی آئے، نتیجہ میں حکومت بھی فلاحی کاموں پر اچھی طرح خرچ کرسکے گی۔ ملک میں 1980ء کی دہائی میں معاشی شرح نمو میں خاطر خواہ اچھال آیا تھا۔ تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے معاشی نمو نے عالمی پیمانہ پر کروڑہا لوگوں کو غربت کے دلدل سے نکالا اور حکومت نے گھریلو بازار کے حجم کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں شرح نمو میں اضافہ تسلسل سے جاری ہے، حکومت نے مائیکرو اکانومی کے استقلال (Stability) کے لیے کسی طرح کی مفاہمت نہیں کی جس سے معیشت کی شرح نمو کو بڑی تقویت ملی اس کے باوجود آج ہماری معیشت کا شرح نمو محض چھ فیصد ہے جو قابل تشویش ہے اور حکومت اس پر تکیہ کرکے بیٹھ نہیں سکتی۔ حکومت ہند کے سالانہ معاشی رپورٹ پر آنے والے سروے میں واضح کیا گیا ہے کہ جی ڈی پی کی بہتری سات تا آٹھ فیصد رہے گی اور یہی حکومت کا ہدف بھی ہے۔ اگر حالیہ رفتار سے معیشت بڑھتی ہے تو اس کا حجم دگنا ہونے کے لیے کم از ایک دہائی لگ جائے گی۔ یاد رہے کہ چین کی معیشت ہماری معیشت سے پانچ گنا بڑی ہے۔ اگر تسلسل سے شرح نمو آٹھ فیصد سے کم رہی تو ملک میں روزگار کا مسئلہ بدستور سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ کورونا وبا کے پھیلاو کی وجہ سے روزگار ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا، مگر اسی مدت میں زراعت نے روزگار کے معاملہ میں بڑا سہارا دیا جو ماقبل کورونا سے تین فیصد زائد ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہماری حکومت ہنر مندی (Skill) کو ترجیحات میں رکھ کر ترقی کی رفتار کو مہمیز دے کیونکہ سرمایہ کاری انسانی سرمایہ کی کیفیت پر منحصر کرتی ہے جب کبھی کوئی شہری ملک کی شرح ترقی کو دیکھتا ہے تو اسے خوشی ضرور ہوتی ہے مگر ہنوز دلی دور است۔
بھارت 2014ء میں دو ٹریلین ڈالر والی معیشت تھی جسے دنیا کی معیشت میں دسواں مقام حاصل تھا۔ ایک سال بعد ساتویں، 2017ء میں چھٹواں اور 2021ء میں پانچویں مقام پر آیا۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 2027ء تک بھارت، امریکہ اور چین کے بعد تیسری بڑی معیشت ہوجائے گا۔ اس کے لیے معیشت کے شرح نمو کی رفتار کو ڈالر کے اعتبار سے 2024ء اور 2027ء کے درمیان آٹھ فیصد پر لانا ہوگا مگر تسلسل سے ہونے والی معیشت میں بہتری حالیہ برسوں میں دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ جاپانی پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت جو 2022ء سے سکڑ کر 4.4 ٹریلین ڈالر پر آگئی ہے اور 2027ء تک اس سے کم ترین سطح پر آجائے گی۔ ہمارا ملک امیر ضرور ہے مگر یہاں کے لوگ غریب ہیں، حالانکہ اس کی جی ڈی پی فرانس اور برطانیہ سے بہتر ہے مگر فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں تو ہم یمن، زمبابوے اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں جب 2014ء میں ہماری معیشت دسویں بڑی معیشت تھی اور آئی ایم ایف ڈیٹا کے مطابق فی کس آمدنی میں ہمارا مقام 195ممالک میں 157واں تھا۔ اب 2027ء تک امکان ہے کہ ہماری فی کس آمدنی 189 ممالک میں 138ویں مقام پر ہوگی۔ اس معاملے میں بنگلہ دیش ہم سے آگے ہے اس لیے کہ اوسط بنگلہ دیشی کی آمدنی 282 ڈالر یعنی 2300 روپے ہوتی ہے جو 2027ء کی بھارتی شہروں کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک فی کس آمدنی چار ہزار ڈالر ہوجائے گی۔
ملک میں بحث جاری ہے کہ بھارت چند سالوں میں دنیا کی تیسری معیشت بن جائے گا۔ دراصل ایشیا کے معاشی شیر (Asian Tiger) جاپان کی حالت کورونا وبا اور بوڑھی آبادی کی وجہ سے لڑکھڑا رہی ہے۔ یہی حال جرمنی کا بھی ہے۔ ویسے ساری دنیا پر مندی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ملک کی معیشت کتنی بڑی ہے اس کا تخمینہ اس ملک کی جی ڈی پی کے حساب سے لگایا جاتا ہے۔ آج بھارت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ محض امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی ہی بھارت سے بہتر ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارتی معیشت میں اچھا اچھال آیا ہے۔ 2013ء میں دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہمارا مقام دسواں تھا۔ دس سالوں میں چین کو چھوڑ کر کسی ملک کی شرح نمو اتنی تیزی سے نہیں بڑھی جتنی بھارت کی بڑھی ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق امریکہ 26.9 ٹریلین ڈالر کے ساتھ اول مقام پر ہے۔ دوسرے نمبر پر 19.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ چین ہے۔ 4.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ جاپان تیسرے مقام پر اور جرمنی 4.3 ٹریلین ڈالر کے ساتھ چوتھے مقام پر فائز ہے۔ ہمارے ملک کی جی ڈی پی فی الحال 3.7 ٹریلین ڈالر ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دس سالوں میں چینی معیشت 140 فیصد رفتار سے بڑھی جبکہ بھارتی معیشت سو فیصد اور امریکی معیشت 66 فیصد بڑھی ہے۔ جاپان، برازیل، روس، اٹلی جیسے ممالک کی شرح نمو دس سال قبل جتنی تھی آج بھی اتنی ہی ہے۔ مگر بھارت اچھل کر دسویں مقام سے پانچویں مقام پر آگیا ہے اور اندازہ کے مطابق ابھی بھارتی معیشت دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشت ہے۔ وہیں جاپان کی شرح نمو تھم سی گئی ہے اور جرمنی کی رفتار بھارت کی رفتار سے بہت کم ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ آئندہ چند سالوں میں بھارت کی جی ڈی پی جاپان اور جرمنی سے آگے ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف و دیگر ریٹنگ ایجنسیوں کا یہی اندازہ ہے۔ اس لیے تیسری بڑی معیشت کا بننا نظر کے سامنے ہے مگر اس سے زیادہ بہتری کی امید فی الحال نہیں ہے کیونکہ چین کی معیشت کا حجم بھارتی معیشت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اسی پس منظر میں وزیر اعظم مودی نے جملہ پھینکتے ہوئے کہا کہ میرے تیسرے دور حکومت میں بھارت دنیا کے تین بڑی معیشتوں میں سے ایک ہوگا، یہ مودی کی گارنٹی ہے۔ مودی نے آسمان کو چھوتی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ ہی فی کس آمدنی پر۔ دوسری طرف سال بہ سال لاکھوں کی تعداد میں امراء ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور دوسرے ملک کی شہریت اختیار کررہے ہیں۔ لوک سبھا میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے سترہ لاکھ ارب تپیوں نے مودی کال میں ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی شہریت اختیار کرلی۔ یہ ہے معیشت کا ’موڈانی ماڈل‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک اتنی ہی ترقی کر رہا ہے تو اتنی بڑی تعداد میں ارب پتی کیوں ملک چھوڑ رہے ہیں؟ کیونکہ بھارت ایسے ملک کے حساب سے ترقی کر رہا ہے جہاں مذہب اور ذات پات کے نام پر فسادات کروائے جاتے ہیں اور پورے ملک کو نفرت کے آگ میں میں جھونکنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تین ماہ سے منی پور جل رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ہی جے پور-ممبئی ایکسپریس ٹرین میں تین مسلمانوں کو آر پی ایف جوان نے گولی مار دی اور چھوٹی ذات ہونے کے سب انسپکٹر کو گولیوں سے بھون دیا۔ جب تک یہ نفرت انگیزی ملک سے ختم نہیں ہو گی ملک میں امن و امان قائم نہیں ہوگا۔ حقیقی ترقی کی بلیٹ ٹرین کبھی دوڑ نہیں پائے گی۔
ملک میں غربت انتہا پر ہے۔ 20-2019 کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں کم از کم پندرہ فیصد لوگ خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت خود کو اسی کروڑ لوگوں کو مفت راشن دینے پر مجبور پا رہی ہے۔ 2022ء کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت 121 ملکوں میں 107ویں مقام پر ہے۔ ویسے بھارت کی معاشی کامیابی کا لوہا دنیا مانتی ہے مگر کروڑوں کی تعداد میں بچے اسکول جانے کے بجائے سڑکوں پر سامان بیچنے اور دھابوں پر کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ ایسے بچے بہ حالت مجبوری اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ حکومت نے ملک سے 2025ء تک بچہ مزدوری ختم کرنے اور غربت کو جڑ بنیاد سے مٹانے کا حلف لیا ہے مگر یہ صرف کاغذی دستاویز ہی ہے۔
***

 

***

 لوک سبھا میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے سترہ لاکھ ارب تپیوں نے مودی کال میں ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں شہریت حاصل کرکے سکونت اختیار کرلی۔ یہ ہے معیشت کا ’موڈانی ماڈل‘ ۔اگر ملک اتنی ہی ترقی کررہا ہے تو اتنی بڑی تعداد میں ارب پتی کیوں ملک چھوڑ رہے ہیں؟ کیونکہ بھارت ایسے ملک کے حساب سے ترقی کررہا ہے جہاں مذہب اور ذات پات کے نام پر دنگے کرائے جاتے ہیں اور پورے ملک کو نفرت کے آگ میں میں جھونکنے کی تیاری ہورہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023