تنوع کا احترام اور انصاف کا قیام، ملک کے مفاد میں بہترین اقدام

اقلیتوں کے خلاف پے در پے فیصلوں اور منفی ماحول کو ‘مراعات’ کہہ کر پکارنا ستم ظریفی

شہاب فضل، لکھنؤ

مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کا انٹرویو، زمینی حقیقت سے دور ایک گمراہ کن پروپیگنڈا!
مرکز میں نریندر مودی حکومت کے گیارہ برس مکمل ہونے پر انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن ریجیجو نے اقلیتوں کے تعلق سے کچھ ایسے دعوے کیے ہیں جو حقائق کے عین برعکس ہیں، چنانچہ جب انہوں نے اپنا انٹرویو مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کیا تو اس پر کافی لے دے ہوئی اور زمینی صورت حال سے باخبر قارئین نے ان دعووں کی نفی کی۔ یہ انٹرویو اخبار کے 6 جولائی کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ریجیجو نے ایک سوال کے جواب میں کہا ’’اقلیتی امور کی وزارت نے تعلیم، ہنر فروغ، کاروبار اور شمولیت پر فوکس کیا ہے۔ اس سے بھارت کی اقتصادی ترقی اور نمو کی کہانی میں اقلیتیں اب سرگرم اور مساوی شراکت دار ہیں۔ اصل نکتہ جسے ہمیں سمجھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اقلیتی کمیونٹیاں اکثریتی کمیونٹیوں کے مقابلے میں حکومت سے زیادہ فنڈ اور تعاون لے رہی ہیں۔ ہندوؤں کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہی اقلیتوں کو بھی ملتا ہے، لیکن اقلیتوں کو جو ملتا ہے وہ ہندوؤں کو نہیں ملتا‘‘۔
انٹرویو کے یہ جملے بہتوں کو مضحکہ خیز اور ستم آمیز معلوم ہوئے اور انہوں نے اپنے رد عمل میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو درپیش مختلف مسائل و چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے مرکزی وزیر کو سچائی سے واقف کروایا اور کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں اور اب تو وہ دوسرے درجہ کے بھی شہری نہیں رہ گئے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ مرکزی وزیر، بی جے پی کے بیشتر لیڈروں اور سنگھ پریوار کے اسی بیانیہ کو آگے بڑھارہے ہیں جن میں زور دے کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ملک میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو بہت مراعات حاصل ہیں کیوں کہ اس ملک کے آئین نے انہیں خصوصی حقوق دے رکھے ہیں چنانچہ جو مراعات ہندوؤں کو ملنی چاہئیں ان پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا اور ہندو محروم رہ گئے۔ اس میں درپردہ یہ اشارہ بھی شامل ہے کہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک مل گیا اس کے باوجود ان کے مراعات جوں کے توں برقرار ہیں۔ اس دو آتشہ بیانیہ کے ذریعہ بی جے پی کے لیڈر ایک طرف مسلمانوں کو نشانے پر رکھتے ہیں، تو دوسری طرف ہندوؤں کو ہمنوا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں آگاہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی جماعتوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں غلطی سے بھی ووٹ نہ دیں کیوں کہ وہی مسلمانوں کو مراعات دینے والے ہیں۔
راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک انتخابی ریلی کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی اپریل 2024 کی وہ تقریر ابھی تازہ ہے جس میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کانگریس پارٹی آپ کی دولت کو مسلمانوں میں بانٹ دے گی، ‘گھس پیٹھیوں’ کو دے دے گی، وہ جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ وہ ہماری ماؤوں اور بہنوں کا منگل سوتر بھی چھین لے گی‘‘۔ یہ تقریر واضح طور سے نفرت انگیز تھی جس کا مقصد اکثریتی آبادی کو ورغلاکر ووٹ حاصل کرنا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس تقریر کو عالمی میڈیا میں کافی کووریج ملی اور واشنگٹن پوسٹ، سی این این، الجزیرہ، ٹائم میگزین، بی بی سی وغیرہ نے اسے نفرتی تقریر قرار دیا۔
اقلیتی امور کے وزیر کرن ریجیجو کی زبان سے اقلیتوں کو زیادہ فنڈ اور سپورٹ ملنے کا دعویٰ اور اس پر یہ طرّہ کہ اقلیتوں کو ایسا بہت کچھ ملتا ہے جس سے ہندو محروم رہتے ہیں، دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کے متعصبانہ بیان کا ہی تسلسل ہے۔
اس ضمن میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا سال 2006 کا وہ مشہور بیان سنگھ پریواریوں اور ہندتوا نواز نفرت انگیز انتہائی دائیں بازو کے پرچم برداروں کے بڑا کام آیا ہے جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ ’’درج فہرست اقوام و قبائل کے لیے کمپوننٹ پلانز کو از سر نو مستحکم کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اختراعی منصوبے وضع کرنے ہوں گے کہ خاص طور سے مسلم اقلیت ترقی کے ثمرات سے مساوی طور سے فیض یاب ہونے کے قابل ہوجائے۔ وسائل پر ان کا پہلا دعویٰ ہونا چاہیے‘‘۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے اس آخری جملے کو بی جے پی اور اس کے حلیفوں نے اچک لیا اور اسے سیاق و سباق سے الگ کرکے آج تک استعمال کرتے آرہے ہیں۔ حالانکہ منموہن سنگھ نے بعد میں اس بیان کی وضاحت بھی کی اور کانگریسی رہنما جے رام رمیش نے بھی اس پر ایک طویل نوٹ مائیکروبلانگ سائٹ ایکس پر لکھا، لیکن جس طرح سے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ذریعہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کانگریس کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اور اس کے لیے اسے نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی طرح سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا 2026 کا بیان بھی بی جے پی نے کانگریس پر
حملہ آور ہونے کے لیے استعمال کیا ہے اور کارپوریٹ میڈیا کو مسلم مخالف مخصوص بیانیہ کو فروغ دینے کا موقع فراہم کیا ہے۔
ناانصافیوں اور پسماندگی کو ختم یا کم کرنے کے لیے مثبت اقدامات، افرمیٹیو ایکشن یا ترجیحی سلوک کی ضرورت
دنیا کی تمام جمہوریتوں میں سماجی، اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ کمیونٹیوں یا کمزور طبقات کی فلاح و بہبود اور انہیں حاشیہ پر سے اٹھاکر ترقی کے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے مثبت اقدامات کیے جاتے ہیں، جنہیں افرمیٹیو ایکشن کہا جاتا ہے۔ بھارت میں برہمنی ورن نظام میں اچھوت اور کمتر ذاتوں کی فلاح و بہبود کے لیے ملازمتوں اور تعلیم میں ریزرویشن کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ بھارتی آئین میں انہیں درج فہرست اقوام (شیڈولڈ کاسٹس) کہا گیا۔ انھیں مقننہ میں خاطر خواہ نمائندگی دینے کے لیے لوک سبھا اور اسمبلی حلقوں کو درج فہرست اقوام کے لیے مخصوص کرنے کی پالیسی متعارف کی گئی۔ اسی طرز پر درج فہرست پسماندہ قبائل (ایس ٹی) کے لیے بھی ریزرویشن کی گنجائش پیدا کی گئی۔ ان کے علاوہ متعدد دیگر پسماندہ برادریوں (اوبی سی) کے لیے بھی ملازمتوں اور تعلیم میں ریزرویشن لاگو کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے ان تینوں سماجی طبقات کے لیے دیگر مراعات بھی ہیں، جن کا بنیادی ہدف انہیں نیچے سے اوپر اٹھانا قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کے سلسلہ میں جب ایسی کوئی بات ہوتی ہے تو سخت گیر دائیں بازو کی جماعتیں اور ان کے پیروکار شور و غوغا اور ہنگامہ کرتے ہیں۔ انہیں یہ گوارا نہیں کہ مسلمانوں کی پسماندگی دور ہو۔ انہیں یہ پسند نہیں کہ بھارت کے مسلمان بھی ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کے اہل بن سکیں۔ انہیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ مسلمان عزت و وقار کی زندگی جینے کے لائق بن جائیں اور اپنے حقوق کے لیے وہ آواز بلند کرنا سیکھ لیں۔ مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم، اچھی ملازمت اور معیاری شہری سہولتوں سے دور رکھنا اور انہیں ہندوؤں کی نظروں میں ‘غیر’ ثابت کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ہی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے اور پسماندگی دور کرنے سے متعلق مثبت اقدامات کی سفارش کرنے کے لیے مارچ 2005 میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں سات رکنی سچر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے مختلف ریاستوں کا دورہ کرکے مسلمانوں کی سماجی حیثیت پر کافی اعداد و شمار جمع کیے اور 403 صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ 2006 میں حکومت کے سپرد کی۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 14 فیصد ہونے کے باوجود بیوروکریسی میں ان کی حصہ داری محض ڈھائی فیصد ہے۔ کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ بھارتی مسلمانوں کی حالت درج فہرست اقوام و قبائل سے بھی بدتر ہے۔ اس رپورٹ نے بھارتی مسلمانوں کی ابتر حالت کی طرف ملک اور دنیا کی توجہ مبذول کرائی اور اس کے تدارک کے لیے مختلف اقدامات کی سفارش کی، جنہیں مرکزی حکومت نے مختلف مراحل میں نافذ بھی کیا۔ مثال کے طور پر حکومت نے نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ اینڈ فائنانس کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) کا بجٹ بڑھایا۔ اسی طرح 2008 میں وزارت اقلیتی امور نے ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام (ایم ایس ڈی پی) لانچ کیا جس کے تحت اقلیتوں کی معتد بہ آبادی والے خطوں میں سماجی و اقتصادی ڈھانچہ کی تعمیر اور بنیادی سہولیات پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس میں صحت، تعلیم، ہنر فروغ، صفائی اور آمدنی میں اضافہ کے محاذ پر بنیادی کام کیے گئے۔ گیارہویں پنج سالہ منصوبہ میں ملک کی 20 ریاستوں کے 90 اضلاع میں جہاں اقلیتوں کی معتد بہ آبادی تھی ایم ایس ڈی پی کو نافذ کیا گیا۔ اسکولوں میں عمارتوں کی تعمیر، کلاس روموں کی تعداد میں اضافہ، ہاسٹل اور آئی آئی ٹی و پولی ٹیکنک کی تعمیر، صحت مراکز، آنگن واڑی مراکز، سڑک کی تعمیر، پینے کے پانی کے پروجیکٹ، صفائی کی سہولیات اور آمدنی میں اضافہ جیسے امور مذکورہ پروگرام میں شامل کیے گئے تھے۔ 2017 میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اسے پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کا نام دیا گیا اور اب یہ اسکیم ملک کے تمام اضلاع کے لیے ہے۔ سچر کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ہی 90 اضلاع کے لیے مدرسوں اور اسکولوں کی گرانٹ بڑھائی گئی تھی۔ اقلیتی کیمشن اور وقف بورڈوں کا بجٹ بڑھایا گیا۔ اسی طرح سرکاری اسکیموں کی اردو زبان میں ترویج و اشاعت کی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ حکومتی اسکیموں سے فائدہ اٹھاسکیں۔ 76 میں سے 72 سفارشات کو اس وقت کی کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے تسلیم کرلیا تھا، جس میں ایک سفارش فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام اور بازآبادکاری بل 2005 بھی تھی، حالانکہ اسے حکومت بوجوہ آگے نہیں بڑھاسکی۔
سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ریزرو بینک آف انڈیا، نابارڈ، سِڈبی، این ایم ڈی ایف سی، نیشنل بیک ورڈ کلاسیز فائنانس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن، ریاستی بیک ورڈ کلاسیز کمیشن، این سی ای آر ٹی اور مختلف وزارتوں، سرکاری محکمہ جات، پبلک سیکٹر اداروں، یونیورسٹیوں اور کالجوں وغیرہ سے اعداد و شمار جمع کیے تھے۔ معتبر اور مستند مآخذ و وسائل سے اعدادوشمار کے حصول نے اس رپورٹ کو جامع بنایا جس سے اسے اعتبار حاصل ہوا۔
مرکزی وزیر کی باتوں پر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر سخت رد عمل
کرن ریجیجو کے ایکس پوسٹ پر آنے والے ردّ عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کی حکومتوں میں سخت اور جارحانہ کارروائیوں کے باعث جن میں بلڈور ایکشن، سخت پولیس کارروائی، نفرت انگیز بیانات، لنچنگ، بھیڑ کے ذریعہ تشدد اور پولیس کی معیت میں نشان زد حملہ کی کارروائیاں شامل ہیں، مسلمانوں کے اندر محرومی اور بے چارگی کا احساس قوی ہوا ہے۔ ملک و بیرون ملک کے غیر جانب دار مبصرین اسے دائیں بازو کی جارحانہ قوم پرستی سے جنم لینے والی نفرت پر مبنی سپریمسٹ ذہنیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جو اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث رجحان ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں اسے متشدد حملوں اور قتل و غارت گری کا باعث قرار دیا جارہا ہے۔
اگر مرکزی وزیر کے پوسٹ پر رد عمل کی بات کی جائے تو بیسڈ مونک نامی شخص نے اپنا رد عمل کچھ یوں لکھا ’’انڈیا واحد ملک ہے جہاں نسلی امتیاز کو سوشل جسٹس کا نام دیا جاتا ہے‘‘۔ اسی طرح اری شکلا جی لکھتی ہیں ’’آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کو ہندوؤں کے مقابلے زیادہ سپورٹ مل رہا ہے۔ یہ صرف گمراہ کن نہیں بلکہ پالیسی تجزیہ کی شکل میں ایک خطرناک پروپیگنڈہ ہے۔ انڈین ایکسپریس کے آرٹیکل میں چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے تفتیش تو کی ہی نہیں گئی ہے۔ آئیے، ہم سچائی کا سامنا کریں: مسلمان بھارت میں آج مراعات یافتہ نہیں ہیں، انہیں ان کے کھانے کے لیے مار ڈالا جاتا ہے، انہیں اینٹی نیشنل قرار دیا جاتا ہے، انہیں آبادی کے لیے خطرہ بتایا جاتا ہے، نیشنل ٹی وی پر انہیں بلا کسی روک ٹوک کے ‘کٹوۂ ہند’ کہا جاتا ہے، وقت پر اسکالرشپ اور فیلوشپ نہیں دی جاتی، دہشت گردی کے کیسوں میں انہیں پھنسایا جاتا ہے، پھر دہائیوں بعد ان کی رہائی ہوتی ہے۔ لیکن ریجیجو ہمیں یہ یقین کرنے کو کہتے ہیں کہ انہیں ناز و نعم میں رکھا جارہا ہے؟ نام نہاد ایکسٹرا سپورٹ جس کا وہ ذکر کررہے ہیں، اسکالرشپ، ہنر فروغ، حج انتظامات، یہ سب لگژری نہیں بلکہ آئینی اختیارات ہیں جو تاریخی اعتبار سے غیر مراعات یافتہ کمیونٹیوں کو اوپر اٹھانے کے لیے ہیں۔ انہیں افرمیٹیو ایکشن کہا جاتا ہے، منھ بھرائی نہیں۔ دوسری طرف، اسی حکومت نے مولانا آزاد فیلوشپ کم کردی، مائناریٹی ایجوکیشن گرانٹس مؤخر کردیں اور وقف بورڈ جیسے اداروں کو کھوکھلا کردیا ہے، ساتھ ہی میڈیا اداروں کو کھلے عام نفرت پھیلانے کا ماحول مہیا کردیا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہیں ہیں، یہ ناراضگی اور رد عمل پیدا کرنے کی سیاست ہے، ہندو اکثریت کو یہ بتاؤ کہ انہیں ’’پیچھے دھکیلا جارہا ہے‘‘ اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بلی کا بکرا بناؤ کہ ان کے حق میں حد سے زیادہ کام ہورہا ہے۔ یہ تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی ہے اور شرم آتی ہے ان پلیٹ فارموں پر جو ایسی باتوں کا ناقدانہ تجزیہ کیے بغیر اس کی تشہیرو ترویج کرتے ہیں‘‘۔
ایکس پر یوتھ اگینسٹ ہیٹ نے لکھا: ’’گزشتہ 50 دنوں میں بی جے پی نے پندرہ ہزار اقلیتی گھروں کو مسمار کیا ہے۔ چندولا لیک، احمدآباد میں 8500 گھر، باپو نگر احمد آباد میں 450 گھر، گول پاڑہ آسام میں 667 گھر، نلباڑی آسام میں 93 گھر، لکھیم پور آسام میں 218 گھر، سنبھل اترپردیش میں ایک مسجد اور 22 گھر، ممبرا مہاراشٹر میں 17 عمارتیں جن میں ہر عمارت میں پچاس ساٹھ اپارٹمنٹ تھے، کڈلواڑی، پمپری چنچواڑ، مہاراشٹر میں 4111 گھر، بیٹ دواریکا گجرات میں 350 گھر۔ اور اس سب کے بعد آسام کی بی جے پی حکومت گولپاڑہ میں ایک ہزار گھروں کو گرانے جارہی ہے جو اقلیتوں کے ہیں۔ کرن ریجیجو، اگر آپ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ کی حکومت اقلیتوں سے نفرت نہیں کرتی ہے تو کیا غریب عوام کے ان سارے گھروں کو آپ دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں؟ ‘‘
ظفر سیفی ایکس پر لکھتے ہیں: ’’بھارت اکیلا ملک ہے جہاں اقلیتیں (خاص کر مسلمان) سب سےزیادہ نفرت کا سامنا کرتے ہیں، ایسی نفرت جو ہر روز بڑھ رہی ہے اور نئی اندوہناک شکل میں سامنے آ رہی ہے، انہیں اتنا ‘تحفظ’ مل رہا ہے کہ ہندتوا غنڈے مسلمانوں کو بعض دفعہ گائے کے نام پر مارتے ہیں، کبھی رام کے نام پر اور کبھی ‘لو جہاد’ کے نام پر ان کی جان بھی لے لیتے ہیں‘‘۔
پروفیسر الٰہ آبادی (نور) نے اپنے رد عمل میں لکھا ’’اقلیتوں کو بہت فائدے ہیں بھارت میں!‘‘ کون سے فائدے؟ گھر کا نقصان؟ انصاف سے محرومی؟ جینے کا ڈر؟ پچھلے دو برسوں کے اعداد و شمار ہی آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ مسلم گھر توڑے گئے، بغیر مقدمہ اور نوٹس کے، صرف بلڈوزر کی گڑگڑاہٹ اور آنسو۔۔۔! آٹھ لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے۔ کچھ تو کھلے آسمان کے نیچے پیدا ہوئے۔ 331 مسلمانوں کو بھیڑ نے مارڈالا لیکن کس جرم میں؟ گائے کا گوشت، ڈاڑھی، ٹوپی یا وہاٹس ایپ اسٹیٹس لگانے کی وجہ سے۔ موت کا فیصلہ کورٹ نے نہیں، بھیڑ نے سنایا۔۔۔‘‘
جے این آر نے اپنی ناراضگی کو ان لفظوں میں بیان کیا ’’یہ خالص جھوٹ ہے، لیکن ایک لمحہ کے لیے اسے سچ مان لیا جائے تو پالیسی نتائج کیا ہیں؟ اب تک نتیجہ کیا رہا ہے؟ حساب برابر کرنے کے لیے مسلمانوں کے گھروں اور جائیدادوں پر بلڈوزر چلائے جاتےہیں؟ ناانصافی کے لیے اکثریتی طبقوں کو معاوضہ دینے کے لیے بیف لنچنگ اور قتل؟
ایکس پر چند افراد نے بنگلہ دیش اور پاکستان میں اقلیتوں کی حالت کی طرف توجہ دلائی اور وہاں اقلیتوں کی صورت حال بہتر بنانے پر زور دیا۔
اصل بات جس کی طرف ہر مقام اور ملک میں توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے تنوع کا احترام اور انصاف کا قیام۔ دنیا کے بہت سے ملک ہیں جہاں اقلیتوں کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں اور ان مراعات کا احترام کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت میں آئینی التزامات ہونے اور سپریم کورٹ کی رہنما ہدایات اور فیصلوں کے باوجود حالیہ برسوں میں ہندوتوا نواز حکم راں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے بھارت کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تعلق سے ایسا تاثر دیا جانے لگا ہے گویا کہ مسلمانوں پر احسان کیا جارہا ہے، ان کی منھ بھرائی ہورہی ہے یا مسلمانوں کو اکثریتی طبقہ کا مرہون منت ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ تنوع کے احترام اور انصاف کے قیام میں بلاشرکت غیرے ہر طبقے، کمیونٹی اور خطہ کے لوگوں کا فائدہ ہے۔ کیا اکثریت اور کیا اقلیت، سبھی کے لیے یہ دونوں اصول قابل احترام ہونے چاہئیں کیوں کہ اسی میں ان سب کا فائدہ ہے۔
ہندوتوا نواز سیاست دانوں کا ایک دھڑا ایسا بھی ہے جو آئینی التزامات کے خلاف کھل کر بولتا ہے اور ان سے کوئی بازپرس نہیں ہوتی، کچھ نام نہاد ٹھیکیدار ہیں جو آئین و قانون کے خلاف میٹنگیں کرتے ہیں اور قراردادیں پاس کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی جس سے آئین ہند کے التزامات اور ملکی قوانین کا احترام ختم ہورہا ہے، جو ملک میں قانون و انصاف کی حکم رانی کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ یہ ملک کو لاقانونیت اور انارکی کی طرف دھکیل دے گا جس سے واپسی مشکل ہوگی۔ جن ملکوں میں اقلیتوں کی حالت اچھی نہیں وہاں سبھی طبقات خمیازہ بھگت رہے ہیں، اس لیے اقلیتوں کے لیے ناسازگار اور کشیدہ ماحول کے خواہاں افراد دراصل پورے ملک اور سارے عوام کے لیے بدامنی کا جال بُن رہے ہیں۔ ایسے تمام سیاست داں جو نفرت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے ووٹ بٹورنے اور کرسی ہتھیانے میں لگے ہوئے ہیں وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ملک کو داؤ پر لگارہے ہیں۔
اقلیتی حقوق کے حوالے سے بھارتی آئین کا آرٹیکل 29 اور 30 خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ آرٹیکل 14 اور 15 اور آرٹیکل 25 بھی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں جن کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ اقلیتیں اپنی منفرد شناخت باقی رکھ سکیں اور اکثریتی آبادی کے ہمراہ مساوی حقوق و مواقع سے فیض اٹھاسکیں۔ اس طرح کے التزامات دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں اور وہاں اقلیتوں کے لیے مثبت اقدامات بھی کیے جاتے ہیں، اس لیے بھارت اس اعتبار سے منفرد نہیں ہے۔ مرکزی وزیر کرن ریجیجو کے انٹرویو میں اس طرح کا دعویٰ کیا گیا تھا چنانچہ مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی ان کی خبر لی۔ اویسی نے کہا کہ کرن ریجیجو مرکزی وزیر ہیں، کوئی راجہ نہیں۔ آپ ایک آئینی عہدے پر فائز ہیں، تخت پر نہیں بیٹھے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق بنیادی حقوق ہیں، نہ کہ خیرات۔ ہر دن پاکستانی، بنگلہ دیشی، جہادی، یا روہنگیا کہنا کوئی ‘سہولت’ ہے؟ لنچنگ ہونا ‘سلامتی’ ہے؟ کیا یہ ‘سلامتی’ ہے جو بھارتی شہری اغوا کیے گئے اور انہیں بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا؟۔ کیا یہ مراعات ہے کہ ہمارے گھروں، مسجدوں، مزاروں کو غیرقانونی طریقہ سے گرایا جاتا ہوا دیکھیں؟ سماجی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے غائب کردیا جائے؟ کیا وزیر اعظم جیسے لوگوں کی طرف سے بھی نفرتی تقریروں میں نشانہ بنایا جانا کوئی اعزاز کی بات ہے؟‘‘ اویسی نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان تو دوسرے درجہ کے بھی شہری نہیں رہ گئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ’’ہم یرغمال ہیں۔ اگر آپ ‘مراعات’ کی بات کرنا چاہتے ہیں تو اس کا جواب دیجیے: کیا مسلمان ہندو انڈوومنٹ بورڈ کے ممبر بن سکتے ہیں؟ لیکن آپ کا وقف ترمیمی بل غیرمسلموں کو وقف بورڈوں پر مسلط کرتا ہے اور انہیں اکثریت میں ہوجانا ممکن بناتا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ’’مرکز کی بی جے پی حکومت نے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ ختم کردی ہے۔ پری میٹرک اسکالرشپ کا فنڈ نہیں دے رہی ہے اور پوسٹ میٹرک و میرٹ کم مینس اسکالرشپ کم کردی ہے۔ یہ سب اس وجہ سے کیوں کہ اس سے مسلم طلبہ فائدہ اٹھاتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان واحد گروپ ہیں جن کی تعداد اعلیٰ تعلیم میں کم ہوئی اور غیرمنظم معیشت میں بڑھی ہے۔ وہ مرکزی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے سب سے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ آپ کی ہی حکومت کے اعداد و شمار ہیں۔ ہم دوسرے ملکوں کی اقلیت سے اپنا موازنہ نہیں چاہتے، اکثریتی طبقہ کو جو کچھ ملتا ہے ہم اس سے زیادہ نہیں چاہتے۔ ہم تو بس اس چیز کا مطالبہ کررہےہیں جس کا ہمارا آئین وعدہ کرتا ہے: سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف۔
اسد الدین اویسی نے اپنے دوسرے رد عمل میں کرن ریجیجو کو آنریبل منسٹر اگینسٹ مائنارٹیز کہہ کر مخاطب کیا اور اس طرح یہ پیغام دیا کہ کرن ریجیجو اقلیتوں کا بھلا کرنے والے وزیر تو نہیں البتہ ان کے خلاف کام کرنے والے وزیر ضرور ثابت ہورہے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025