
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
تمل ناڈو اسمبلی کا وقف بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ قابل تعریف
ریاستی قانون سازی پر مرکز کی مداخلت ناقابل قبول، سپریم کورٹ کا دو ٹوک پیغام
جنوبی ہندوستان میں کئی اعتبار سے مضبوط سمجھی جانے والی ریاست تمل ناڈو کی موجودہ دراوڑامنیٹرا کژگم کی سرکار جس کی قیادت وزیراعلیٰ ایم کےاسٹالن کر رہے ہیں روز اول سے موجودہ مرکزی سرکار کی صف اول کی مخالف اور اسکے قول و عمل کی سب سے بڑی ناقد رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں دو ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس نے مرکزی سرکار اور ریاست تمل ناڈو کی سرکار کو ایک بار پھر آمنے سامنے کر دیا ہے۔ پہلے نمبر پر وقف ترمیمی بل 2025 ہے اور دوسرے نمبر پر گورنر کے اختیارت پر عدالت عالیہ کا فیصلہ۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کے تعلق سے تفصیل میں جانے سے پہلے وقف بل پر مرکزی حکومت اور ریاستِ تمل ناڈو کے تصادم پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
بھاجپا کی نریندر مودی سرکار نے وقف ترمیمی بل 2025 کو کافی جدوجہد کے بعد بالآخر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کرا کر اس پر صدر سے دستخط کروائے اور اسے قانون بنا ہی دیا۔ 8 اگست 2024 کو اپنے تیسرے دور کے پہلے ہی سال میں اس نے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا جس پر حزبِ اختلاف نے ایک بڑا ہنگامہ کھڑا کیا اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اسے ایک جوائنٹ پارلیمانی کیمٹی بنا کر اس کے سپرد کردیا، تقریباً چھ ماہ بعد 30 جنوری 2025 کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس پر حزب اختلاف نے پھر سے یہ الزام عائد کیا کہ اس کی کسی بھی مانگ کو بل میں شامل نہیں کیا گیا ہے، اس کے باوجود اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نےیہ بل 3 اپریل 2025 کو پارلیمنٹ میں پیش کردیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں لگ بھگ بارہ گھنٹوں سے زیادہ کی طویل گرما گرم بحث کے بعد حکومت اس بل کو معمولی اکثریت سے پاس کرانے میں کامیاب رہی۔ بحث میں حزبِ اختلاف کے ممبرانِ پارلیمنٹ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حکومت کے خلاف مذہبی تقطیب اور مذہبی برادریوں میں تقسیم کا الزام لگایا۔ جب کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا دعویٰ تھا وہ اس بل، جسے انہوں نے امید کا نام دیا ہوا ہے، یونائیٹد وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ ایفیشینسی اینڈ ڈیلوپمنٹ، کے ذریعے وقف قانون میں اصلاحات اور وقف املاک کا مناسب انتظام چاہتی ہے تاکہ غریب مسلمانوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔
ریاست تمل ناڈو کی سرکار کا اول دن سے وقف ترمیمی بل کو لے کر یہ موقف رہا ہے کہ وہ اس کے بہت سارے شقوں سے اس لئے اختلاف رکھتی ہے کہ وہ آئین میں دئے گئے مذہبی اور انفرادی آزادی سے راست ٹکراتے ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین جو اپنی حکومت کو دراوڑ ماڈل حکومت ( جس کا بنیادی ہدف برابری اور ہمہ جہتی انصاف ہے) کے طور پر پیش کرتے ہیں، مرکزی حکومت کی اکثریت پرست نظریہ کے سخت ناقدین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جے پی سی میں بھی ان کی پارٹی کے نمائندوں نے اسی موقف کو بار بار پیش کیا اور پارلیمنٹ میں بل پر بحث کے دوران بھی یہی بات دہراتے نظر آئے۔ وقف ترمیمی بل کو آئین کے خلاف اور اقلیت مخالف قرار دیتے ہوئے ڈی ایم کے پارٹی کے ایم پی، اے راجا نے پارلیمنٹ میں بحث کے دوران مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ حکومت جس بل کو لے کر یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے ذریعے اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا خود ان کی پارٹی میں (دونوں ایوانوں میں) ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہےاور وہ ہمیں اخلاقی مشورے دے رہے ہیں کہ سیکولرازم کا تحفظ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے بحث کی شروعات تمل ناڈو اسمبلی میں خود وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی جانب سے پیش کر دہ قرارداد (جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی)سے کیا جو کچھ یوں ہے، "پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا وقف (ترمیمی) بل اقلیتوں کے حقوق کے خلاف، مذہبی آزادی کے منافی، غیر آئینی، وقف کے اصل مقصد سے متصادم، عدالتی فیصلوں سے ہم آہنگ نہ ہونے والا، غیر ضروری اور الجھاؤ کا شکار ہے۔ اگر اسے منظور کر لیا گیا تو یہ وقف اداروں کو مفلوج کر دے گا اور مسلم کمیونٹی کو نقصان پہنچائے گا۔ لہٰذا، اسمبلی مرکزی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ (متنازعہ) وقف (ترمیمی) بل کو مکمل طور پر واپس لیا جائے۔” اس کے بعد آزادی سے لے کر اب تک کے وقف ایکٹ میں ترمیمات کا حوالہ دیتے ہوئے اے راجا نے کہا کہ ان کا مقصد قانون میں اصلاحات تھا لیکن آپ کی حکومت بہتری کے نام پر وقف کے بنیادی تصور کو ہی مٹانے کی کوشش کر رہی ہے، اور وہ اس قانون کے پردے میں تمام وقف املاک چھین لینا چاہتی ہے۔ ان کے علاوہ ڈی ایم کے، کے ایم پی تروچی شوا نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بل غیر سیکولر اور آئین کے منافی ہے۔
بل کے پاس ہوجانے پر تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن نے ریاستی اسمبلی میں فوراً یہ اعلان کیا کہ دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) ‘متنازع’ وقف (ترمیمی) بل، 2024 کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گی، تمل ناڈو اسمبلی کی جانب سے 27 مارچ کو منظور کی گئی قرارداد کو یاد دلاتے ہوئے، مسٹر اسٹالن نے کہا: وقف ایکٹ 1995 میں مجوزہ ترامیم بھارت کی مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہیں اور اقلیتی مسلم برادری پر سنگین اثر ڈالیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کو ان ترامیم کو مکمل طور پر واپس لینا چاہیے تاکہ آئینی اقدار، اقلیتوں کے حقوق، اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو محفوظ رکھا جا سکے، بھارت کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے متنازعہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کی مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود یہ ترمیمی بل لوک سبھا میں منظور کر لیا گیا ہے جو کہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ کل 232 ارکانِ پارلیمان نے بل کے خلاف ووٹ دیا ہے جبکہ 288 نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ اگرچہ بل منظور ہو چکا ہے مگر اس کے خلاف ووٹ دینے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ اس ترمیمی بل کی صرف مخالفت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے مکمل طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود اور چند اتحادی جماعتوں کی حمایت سے یہ بل رات تقریباً 2 بجے منظور کیا گیا۔ یہ بھارت کے آئین پر حملہ ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو مذہبی ہم آہنگی کو مجروح کرتا ہے۔ تمل ناڈو اس متنازعہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کے خلاف لڑے گا، کیونکہ یہ وقف بورڈ کی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے اور اقلیتی مسلم برادری کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔ ہم لڑیں گے اور ہم کامیاب ہوں گے۔
تمل ناڈو ریاستی اسمبلی میں اس متنازعہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کی لوک سبھا میں منظوری کے خلاف بطور احتجاج وزیر اعلیٰ، ان کی کابینہ کے اراکین اور ڈی ایم کے اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی نے ایوان کی کارروائی میں سیاہ پٹیاں پہن کر شرکت کیں۔ وزیرِ اعلیٰ کی تقریر کی مخالفت کرتے ہوئے بی جے پی کے اراکینِ اسمبلی نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
ریاستی سرکار کے علاوہ تمل ناڈو کی سیاست میں تیزی سے ابھرنے والے فلمی ادکار ٹی وی کے رہنما وجے نے بھی قابل اعتراض وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے۔
اس کے علاوہ ریاست کے اکثر سیاسی پارٹیوں نے مرکزی حکومت کے اس قدم کی سخت مخالفت کی ہے اور مسلم جماعتوں کی جانب سے بل کے پاس ہونے کے بعد سے جو احتجاجات جاری ہیں وہ ان میں شریک ہوکر اپنی تائید پیش کر رہے ہیں۔ ریاست کے تمام مسلم سیاسی پارٹیوں، سماجی اورفلاحی تنظیموں کی جانب سے مسلسل مرکزی حکومت کے اس قانون کے خلاف ریاست بھر میں پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں ڈی ایم کے اور اس کی حلیف جماعتوں کے نمائندے بھی برابر شریک ہورہے ہیں ۔ جمیعت العلماء تمل ناڈو کی نگرانی اور رہنمائی میں ریاست کے تمام ضلعوں کے بڑے شہروں جیسے چنئی، کوئمبتور، ویلور، ایروڈ، سیلم، ترچی اور وانم باڑی وغیرہ میں مقامی جماعتوں کے تعاون سے بڑے پیمانے پر احتجاجی جلسے منعقد کئے جاچکے ہیں۔
ریاست بھر کے گورنمنٹ قاضیوں نے بھی وزیرِ اعلٰی ایم کے اسٹالن سے ایک خصوصی ملاقات کر کے وقف ترمیمی بل میں ان کی بے باک تائید کا شکریہ اداکیا ہے۔
اب آتے ہیں دوسرا مسئلہ گورنر کے اختیارات پر ، عدالتِ عالیہ کے حالیہ فیصلے کا جو ریاست تمل ناڈو کے حق میں ہے اور جسے ریاست کے وفاقی حق خودارادیت کی ایک شاندار جیت سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس سے پہلے یہ جان لیں کہ کسی بھی مہذب معاشرے کی سب سے بڑی پہچان اس کی جانب سے قانون کی پاس داری اور اس کی پابندی ہوتی ہے، ایسے معاشرے اپنے درمیان پیدا ہونے اختلافات، چاہے وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں قانون کے دائرے میں حل کر کے اپنے آپ کو اس کا پابند بناتے ہیں۔ اس اعتبار سے وطنِ عزیز ایک منفرد اور کامیاب تاریخ کا حامل ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اگر جمہوریت تر و تازہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہاں قانون کی حکم رانی کا اکثر معاملات میں مجبوراً ہی سہی، رواج رہا ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت جب سے برسرِ اقتدار آئی ہے، اس کی پہلی کوشش یہی ہے کہ اس کو پورے ملک کا بلا شرکت غیرے مالک تسلیم کر لیا جائے۔ مگر جہاں اس کو ایسا ہوتا ناممکن محسوس ہوتا ہے، وہاں وہ اس بات کی جان توڑ کوشش کرتی ہے کہ آئین اور قانون میں موجود رخنوں کو چور دروازوں کی مدد سے غیر آئینی ہی سہی، اقتدار کے دائروں پر قابض ہو کر من مانی کرے۔ خاص کر ان ریاستوں میں جہاں حزبِ اختلاف بڑی حد تک مضبوط ہے اور اقتدار پر قابض ہے، اس کی یہ کوشش کئی زاویوں سے لگاتار ہوتی رہتی ہے۔ کبھی مرکزی ایجنسیوں کے ذریعے، تو کبھی نئے قوانین کے ذریعے، مگر سب سے گہری در اندازی گورنری کے نام سے ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ کام موجودہ مرکزی سرکار کی کوئی نئی اختراع ہے، اس سے پہلے کی حکومتیں بھی اسی راہ پر گامزن رہ چکی ہیں، مگر موجودہ حکومت چونکہ ایک الگ نظریہ رکھتی ہے اس لیے اس کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ہر جگہ ممکن حد تک اپنے فکری بندوں کو پلانٹ کرے اور انہیں کمک پہنچاتی رہے۔
حزبِ اختلاف کی زیرِ اقتدار ریاستیں جیسے تمل ناڈو، کیرالا، کرناٹک، تلنگانہ، پنجاب اور مغربی بنگال میں مرکزی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے گورنروں کے ساتھ وہاں کی منتخب حکومتوں کی روز بروز کی مخاصمت اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کیسے مرکزی سرکار ایک آئینی عہدے کے ذریعے ان منتخب حکومتوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اس پس منظر میں گزشتہ دنوں ریاستِ تمل ناڈو کی جانب سے گورنر کے خلاف داخل کردہ عرضی پر ریاست کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ملک کی عدالتِ عالیہ نے گورنر کو جو پھٹکار لگائی ہے وہ اس یقین کے لیے کافی ہے کہ وطنِ عزیز میں اس گئے گزرے جمہوری اقدار کے زوال کے دور میں بھی عدالت کا پوری بے باکی کے ساتھ سچائی اور حق کے ساتھ کھڑا رہنا اپنا فرض سمجھتی ہے، جو ہماری وفاقی جمہوریت کے لیے بے حد ضروری ہے۔
ریاستِ تمل ناڈو کی حکومت اور گورنر کے درمیان ہونے والے اس قضیے کی کہانی چار پانچ سالوں پر محیط ہے۔ جنوری 2020 سے لے کر اپریل 2023 تک ریاستی مقننہ نے 12 بل پاس کر کے، جن میں سے زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرریوں سے متعلق تھے، گورنر کی رضامندی کے لیے بھیجا تھا۔ عزت مآب گورنر نے ان بلوں کو منظوری دینے کے بجائے انہیں اپنے پاس روکے رکھا۔
گورنر کی اس کارروائی سے آئینی طور پر پریشان ہو کر نومبر 2023 میں حکومتِ تمل ناڈو نے ایک رِٹ پٹیشن کے ذریعے عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ گورنر نے ریاستی مقننہ کے ذریعے منظوری کے لیے بھیجے گئے مختلف بلوں اور دیگر تجاویز کو غیر معینہ مدت تک کے لیے زیرِ التواء رکھا ہے۔ حکومتِ تمل ناڈو نے اس عرضی میں نشاندہی کی کہ چار اقسام کے "معاملات” ہیں جو گورنر کے پاس زیرِ التواء ہیں اور جن پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
پہلی قسم کے معاملات ان 12 بلوں سے متعلق ہیں جو 2020 سے 2023 کے درمیان تمل ناڈو کی قانون ساز اسمبلی سے منظور کیے گئے۔ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق جب کوئی بل ریاستی اسمبلی میں منظور ہو جائے تو اسے گورنر کو بھیجا جانا چاہیے۔ اس کے بعد گورنر کے پاس تین اختیارات ہوتے ہیں: بل کو منظوری دینا، منظوری روک لینا یا صدرِ جمہوریہ کے غور کے لیے محفوظ رکھنا۔
آرٹیکل 200 یہ بھی کہتا ہے کہ گورنر کو بل پیش کیے جانے کے بعد جلد از جلد اسے ایک پیغام کے ساتھ واپس بھیجنا ہوتا ہے جس میں بل کے کچھ مخصوص حصوں یا پورے بل پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ اگر اسمبلی اس بل کو دوبارہ منظور کر لے اور واپس گورنر کو بھیجے تو گورنر کو لازماً اس پر منظوری دینی ہوتی ہے۔
تمل ناڈو حکومت نے کہا کہ 13 جنوری 2020 سے 28 اپریل 2023 کے درمیان گورنر کو جو 12 بل بھیجے گئے وہ ریاستی یونیورسٹیوں سے متعلق قوانین میں ترمیم سے متعلق ہیں۔
ان 12 بلوں میں سے آٹھ بل ایسے ہیں جو ریاستی حکومت کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ گورنر کے بجائے خود وائس چانسلر مقرر کرے۔ ایک بل میں وائس چانسلر کی تقرری کے لیے قائم انتخابی کمیٹی میں حکومت کے نامزد فرد کی شمولیت کی تجویز ہے۔ دو بل حکومت کو چانسلر کی جگہ معائنہ اور تفتیش کا اختیار دیتے ہیں۔ تین بل ایسے ہیں جو تمام یونیورسٹیوں
(سوائے تین سرکاری یونیورسٹیوں کے) کی سینڈیکیٹ میں مالیاتی سکریٹری کی شمولیت کی بات کرتے ہیں۔ ایک بل حکومت کی طرف سے ایک آیورویدک یونیورسٹی کے قیام سے متعلق ہے۔ ایک بل تو یہ بھی چاہتا ہے کہ ریاستی حکومت تمام ریاستی یونیورسٹیوں (ما سوائے یونیورسٹی آف مدراس) میں وائس چانسلر کی تقرری کا مکمل اختیار حاصل کرے۔
دوسرے قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں 10 اپریل 2022 سے 15 مئی 2023 کے درمیان ریاستی حکومت نے کچھ فائلیں گورنر کو بھیجیں تاکہ بدعنوانی کے انسداد کے قانون 1988 کے تحت مختلف اخلاقی بدعنوانیوں کے مرتکب سرکاری اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری لی جا سکے۔
اس کے علاوہ حکومت نے یہ بھی کہا کہ 24 اگست 2023 سے 28 جون 2024 کے درمیان قیدیوں کی قبل از وقت رہائی کے متعلق بھیجی گئی 54 فائلیں بھی گورنر کے پاس زیر التواء ہیں۔
آخر میں، تمل ناڈو پبلک سروس کمیشن کے ارکان کی تقرری سے متعلق مختلف تجاویز بھی زیر التواء ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 316 کہتا ہے کہ ریاستی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور دیگر ارکان کی تقرری گورنر کے ذریعہ ہونی چاہیے۔
عدالت عالیہ نے ان بلوں اور تجاویز کے التواء کو تشویش کا باعث قرار دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ کے توسط سے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کی۔ اس دوران گورنر صاحب نے دو بل صدر کے پاس بھیج دیے اور باقی دس پر رضامندی روک لی یعنی انہیں واپس اسمبلی کو بھیج دیا۔ تمل ناڈو حکومت نے اس پس منظر میں تمل ناڈو اسمبلی کے ایک خصوصی اجلاس میں تمام دس بلوں کو دوبارہ پاس کر کے انہیں پھر گورنر کے پاس منظوری کے لیے بھیج دیا۔ وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ان بلوں پر دوبارہ غور کے لیے قرارداد پیش کرتے وقت اس نکتے پر زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت اگر کوئی بل دوبارہ منظور ہو کر گورنر کو بھیجا جائے تو گورنر ‘منظوری روک نہیں سکتا۔
ریاست تمل ناڈو بمقابلہ تمل ناڈو گورنر، نامی اس ایک سال سے زائد تلخ آئینی تصادم پر بالآخر 08 اپریل 2025 کو عدالت عالیہ نے ریاستِ تمل ناڈو کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی بلوں کو منظوری دینے میں تاخیر غلط، من مانی اور غیر قانونی ہے اور ساتھ ہی بینچ نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے آئین کی شق 142 کے تحت تمام بلوں کو خود ہی منظوری دے دی۔ آئین ہند کا آرٹیکل 142 سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے احکامات، فرمان یا ہدایات جاری کرے جو کسی مقدمے میں مکمل انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہوں، یہ شق عدالت اسی وقت استعمال کرتی ہے جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ انصاف تک پہنچنے کے لیے روایتی طریقے ناکافی ہیں یا جب کسی تنازعے کا حل موجودہ قوانین سے باہر ہو یا جب فوری اور مؤثر انصاف ضروری ہو۔
یاد رہے تمل ناڈو حکومت نے 2023 میں اس مسئلے کو لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ گورنر نے متعدد بلوں کو تین سال سے زائد مدت تک منظوری کے بغیر روکے رکھا ہے۔ عدالت نے اس کیس پر فروری 2025 میں فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
گورنر اور مرکزی حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹارامانی اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل وکرم جیت بنرجی نے کی، جبکہ تمل ناڈو کی نمائندگی معروف سینئر وکلا راکیش دویدی، ڈاکٹر اے ایم سنگھوی، مکول روہتگی اور پی ولسن نے کی۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے فیصلہ سناتے ہوئے بطورِ ابتدائی کلمات میں کہا کہ جب آئین سازوں نے آئین تیار کیا تو ان کے پیشِ نظر یہ تصور تھا کہ گورنر ایک آئینی سربراہ، سمجھدار مشیر اور وزارت کے لیے رہنما ہو گا۔ ایک ایسی شخصیت جو سیاسی کشیدگی کے حالات میں صلح و تدبر کا مظاہرہ کرے گی۔ لیکن اس مقدمے میں جو کچھ ہمارے سامنے آیا ہے، وہ اس تصور کے بالکل برعکس ہے۔ عدالت کو خود ان بگڑے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے قدم اٹھانا پڑا ہے جو کہ ایک طویل اور پیچیدہ آئینی جنگ کے باعث پیدا ہوئے۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کا کردار تین واضح اختیارات تک محدود ہے: بل کو منظوری دینا، بل کو منظوری سے روک لینا، بل کو صدرِ جمہوریہ کے غور کے لیے محفوظ رکھنا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ آرٹیکل 200 کی پہلی توضیح جس کے تحت گورنر کسی بل کو دوبارہ غور کے لیے اسمبلی کو واپس بھیج سکتا ہے، یہ دراصل منظوری روکنے کے اختیار کا ہی ایک جزو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب گورنر کوئی بل واپس بھیجتا ہے تو اسے منظوری نہ دینے کے عمل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر جیسے ہی اسمبلی اس بل کو دوبارہ منظور کر لے، چاہے اس میں ترمیم کی جائے یا نہ کی جائے، گورنر آئینی طور پر اس بات کا پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اس پر منظوری دے۔ اس مرحلے پر گورنر کے پاس یہ اختیار نہیں رہتا کہ وہ بل کو صدر کے پاس بھیج دے۔
(تمل ناڈو حکومت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ گورنر آر این روی نے ایسا ہی کیا، یعنی کچھ بلوں کو اس وقت صدر کے لیے محفوظ رکھ دیا جب وہ ریاستی اسمبلی سے دوبارہ منظور ہو چکے تھے)
عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ گورنر ریاستی اسمبلیوں کی قانون سازی کے معمول کو روک نہیں سکتا اور زور دے کر یہ بات بھی مسترد کر دی کہ ایک غیر منتخب گورنر، منتخب شدہ اسمبلی کے قانون سازی کے عمل کو ویٹو کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ فیصلے میں بینچ نے یہ بات بھی دہرائی کہ آئین میں مطلق ویٹو یا پاکٹ ویٹو جیسے تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے آرٹیکل 200 میں درج الفاظ "جتنی جلد ممکن ہو” کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ اس آئینی شق میں فوری اقدام کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ گورنر کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی بل پر فیصلہ غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دے یا قانون سازی کے عمل پر عملاً ویٹو کا اختیار استعمال کرے۔ بلکہ اس شق کے تحت گورنر پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد فیصلہ کرے۔ اسی تناظر میں بینچ نے گورنر کے اختیارات کے استعمال کے لیے آئندہ واضح ٹائم لائن تجویز کی تاکہ اختیارات کا بے جا استعمال روکا جا سکے اور آئینی فرائض کو نیک نیتی سے ادا کیا جا سکے۔ جسٹس پاردی والا نے واضح کیا کہ ان اوقات کا تعین کرنا آئین کی "ترمیم” نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انتظامی ضرورت کے تحت اٹھایا گیا قدم ہے تاکہ آئینی عمل میں تاخیر سے بچا جا سکے۔
عدالت کی طرف سے تجویز کردہ ٹائم لائن:
٭ اگر گورنر وزراء کی کونسل کے مشورے پر بل کی منظوری سے انکار کریں یا اسے صدر کے لیے محفوظ رکھیں تو یہ عمل ایک ماہ کے اندر مکمل ہونا چاہیے۔
٭ اگر گورنر وزراء کی کونسل کے مشورے کے برخلاف منظوری سے انکار کرتے ہیں تو بل کو تین ماہ کے اندر قانون ساز اسمبلی کو واپس بھیجا جانا چاہیے۔
٭ اگر گورنر وزراء کے مشورے کے برخلاف بل کو صدر کے لیے محفوظ رکھتے ہیں تب بھی یہ عمل تین ماہ کے اندر مکمل کیا جانا چاہیے۔
٭ اگر اسمبلی بل کو دوبارہ منظور کر کے گورنر کو بھیجتی ہے تو گورنر پر لازم ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اس پر منظوری دے دیں۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے فیصلے کے اختتامی کلمات میں کہا کہ ہم کسی طور گورنر کے منصب کو کم تر نہیں سمجھ رہے بلکہ ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ گورنر کو پارلیمانی جمہوریت کی طے شدہ روایات کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کوئی سیاسی کردار ادا کرنے والا فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ دراصل "دوست، فلسفی اور رہنما” کے طور پر ریاستی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا پابند ہے۔ جسٹس پاردی والا نے فیصلے کے اختتام پر ڈاکٹر امبیڈکر کے تاریخی الفاظ نقل کیے: "چاہے آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل کرنے والے اچھے نہ ہوں تو وہ آئین بھی بُرا ثابت ہوگا اور چاہے آئین کتنا ہی بُرا ہو اگر اس پر عمل کرنے والے اچھے ہوں تو وہ آئین بھی اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔”
عدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے پر ریاست تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین نے ریاستی اسمبلی میں کہا کہ یہ صرف تمل ناڈو کی ہی نہیں بلکہ تمام ریاستوں کے لیے ایک بڑی جیت ہے۔ ڈی ایم کے ریاستی خودمختاری اور وفاقی اصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور اس جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کرے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ہم آج معزز سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کا تہِ دل سے خیرمقدم کرتے ہیں جس نے ریاستی اسمبلیوں کے قانون سازی کے حقوق کی توثیق کی ہے اور ان رجحانات کا خاتمہ کیا ہے جن کے بل پر مرکز کی جانب سے نامزد گورنر حزبِ اختلاف کی حکومت والی ریاستوں میں ترقی پسند قانون سازی کو روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ فیصلہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان توازن کی بحالی کی جانب ایک اور اہم قدم ہے اور تمل ناڈو کی اس مسلسل جدوجہد میں جیت کی ایک سنگِ میل ہے جس کا مقصد ایک وفاقی بھارت کو ممکن بنانا ہے۔
سینئر ایڈووکیٹ پی ولسن نے، جنہوں نے تمل ناڈو حکومت کی نمائندگی کی، اس فیصلے کو ڈی ایم کے حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بل کو غلط طور پر صدرِ جمہوریہ کے لیے محفوظ رکھنا، اس کے بعد صدر کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی اقدام کالعدم ہوگا اور گورنر کو کوئی مطلق اختیار حاصل نہیں ہے۔ آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 163 کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے جو گورنر کو کابینہ کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند بناتا ہے۔
سینئر صحافی این رام نے اس فیصلے کے تناظر میں کہا کہ گورنر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بااختیار ہیں اور ایک علیحدہ حکومت چلا سکتے ہیں، اگر اُن میں ذرا بھی خودداری باقی ہے تو انہیں فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو مرکزی حکومت کو چاہیے کہ انہیں برطرف کرے۔
کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ وفاقی ڈھانچے اور ریاستی اسمبلیوں کے جمہوری حقوق کو مضبوط کرتا ہے۔ وجین نے، جن کی حکومت کا سابق کیرالا گورنر عارف محمد خان کے ساتھ اہم بلوں روکنے پر ٹکراؤ ہو چکا ہے، مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ گورنرز کو کابینہ کے مشورے کے مطابق ہی عمل کرنا ہوگا۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ایکس پر اس فیصلے پر لکھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ، جس میں تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی یکطرفہ کارروائیوں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جو کہ آئین کی روح کی کھلی خلاف ورزیاں تھیں، نہ صرف ایک آئینی فتح ہے بلکہ پورے ملک کے گورنروں کے لیے سخت انتباہ بھی ہے۔ یہ فیصلہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے، جو مسلسل پس پردہ رہ کر اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ عدالتی مداخلت صرف ایک ریاستی تنازعہ کا حل نہیں بلکہ وفاقی ڈھانچے، جمہوری اقدار اور آئینی اصولوں کے تحفظ کی ایک مثالی نظیر بن چکی ہے۔
دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا ریاست تمل ناڈو بمقابلہ تمل ناڈو گورنر پر حالیہ فیصلہ ملک بھر میں گورنروں کے کردار کی تشریح میں ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ریاست کیرالا، کرناٹک، تلنگانہ، پنجاب اور ویسٹ بنگال میں حکومت اور گورنر کے درمیان تصادم کے ایسے ہی معاملات مسلسل آتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں کچھ ریاستوں کے مقدمات عدالت عالیہ میں چل بھی رہے ہیں۔ امید غالب ہے ان مقدمات پر اس فیصلے کا مثبت اثر ہوگا۔
عدالت عالیہ کے حالیہ فیصلے سے ایک بار پھر مرکزی حکومت کی جانب سے اپنے سیاسی فائدے کے لیے گورنر جیسے آئینی عہدے کا استحصال اور اس کے ذریعے منتخب ریاستی اسمبلیوں کے فیصلوں میں رکاوٹ ڈالنے کی روش ابھر کر منظر عام پر آ گئی ہے۔ مگر ماضی میں سخت تنقید کے باوجود مرکزی حکومت کا طرزِ عمل ایسے گورنروں کی، جو مسلسل اپنے آئینی حدود سے تجاوز کرتے رہتے ہیں، پیٹھ تھپتھپانے کا اور انہیں انعامات سے نوازنے کا رہا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ موجودہ مودی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس کا نعرہ تعاون پر مبنی وفاقیت کا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا جھکاؤ مرکزی اقتدار کے نظریے کی جانب ہوتا چلا گیا۔ گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں کسی بھی ملک میں سیاسی استحکام ہی اس کی ہمہ جہتی ترقی کا پہلا ضامن ہے۔ اس تناظر میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں اور اعتماد کا فقدان وطن عزیز میں مضبوط سیاسی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ایسے میں عدالتیں ہی واحد امید ہیں جن سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک میں قائم وفاقی ڈھانچے اور اس میں دوڑتی جمہوریت کی روح کا ہر حال میں تحفظ کریں گی۔ عدالت عالیہ کا ریاستِ تمل ناڈو بمقابلہ تمل ناڈو گورنر مقدمے پر حالیہ فیصلہ اس سوچ کو تقویت بخشتا ہے۔
***
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملک کی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ماہرین قانون نے خیرمقدم کیا اور اسے وفاقی ڈھانچے، جمہوری اقدار اور آئینی تقاضوں کی جیت قرار دیا۔ عدالت نے مرکزی حکومت کے اس رجحان پر بھی تنقید کی کہ وہ سیاسی وفادار گورنروں کے ذریعے ریاستی خود مختاری کو کمزور کر رہی ہے۔ اس فیصلہ کا اثر مستقبل میں دیگر ریاستوں میں جاری گورنر-حکومت تنازعات پر بھی پڑے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025