تعلیمی میدان میں مؤثر تبدیلیوں کے لئے جامع اقدامات لازمی
!قانون میں ترمیم سے فوائد کے امکانات یا مزید نقصانات کی اندیشے : RTEتعلیمی اصلاحات کا خواب
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
موجودہ تعلیمی نظام میں مسلسل اور جامع تشخیص کے عمل کو اختیار کرنے سے کئی مسائل کا خاتمہ ممکن
مرکزی حکومت نے پچھلے دنوں رائٹ ٹو ایجوکیشن (RTE) قانون میں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا ہے کہ اب جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں ناکام ہونے والے طلبہ کو اگلی جماعتوں میں داخلے کا اہل قرار نہیں دیا جائے گا۔ وہیں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ فیصلہ اس موقع پر لیا گیا ہے جبکہ ایک جانب تعلیم کے حق کو تمام بچوں کے حق کے طور پر نافذ العمل بنانے کی بات کہی جا رہی ہے تو دوسری جانب بچوں پر تعلیم حاصل کرنے کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔اس موقع پر یہ بات سوچنے کی ہے کہ وہ اولیائے طلبہ جن کی معاشی حالت قدرے بہتر ہے وہ تو اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھا لیں گے لیکن کمزور اور پچھڑے طبقات کے بچوں کا کیا ہوگا جو آج مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں اور جن کی بنیادی ضرورتیں تک پوری نہیں ہوتیں؟ ایسے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے سرکاری اسکولوں میں زیادہ دیر تک زیر تعلیم نہیں رہ سکیں گے۔ اس موقع پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اس قانون میں ترمیم کرنے کے بجائے تعلیمی نظام میں ایسے اقدامات کرنا چاہیے تھے جس کے نتیجہ میں تعلیم کا معیار بہتر ہو تاکہ بچے فیل ہی نہ ہوں۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں قابل اساتذہ کی بے انتہا کمی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک بھر میں 10 لاکھ سے زائد اساتذہ کی اسامیاں بدستور خالی پڑی ہیں، نتیجے میں طلبہ کے مقابلے میں اساتذہ کا تناسب حد درجہ کم ہے۔ ماہر تعلیم سنجیو رائے کہتے ہیں کہ "شہری علاقوں میں بہت سے اسکول صرف دو یا تین اساتذہ کے زیر انتظام چل رہےہیں، خاص طور پر پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کی کافی کمی ہے۔ حکومت کو تعلیم کے لیے ایک بڑا بجٹ مختص کرنا چاہیے اور کنٹراکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ کو مستقل کرنا چاہیے، اس دوران قابل اساتذہ کو ترجیح دینی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے”۔ 1968 سے ماہرین تعلیم کی جانب سے ملک کی جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے کی بار بار درخواستوں کے باوجود آج بھی صرف 3 فیصد سے بھی کم ہی بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً پرائمری اور ہائیر ایجوکیشن دونوں شعبوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ناکافی قابل اساتذہ کے ساتھ وسائل کی کمی کا مطلب ہے کہ ملک کو ایک بڑے مسئلہ نے جکڑ رکھا ہے وہیں ناقص بنیادی تعلیم طلبہ کے اعلیٰ تعلیم کے امکانات کو متاثر کر رہی ہے۔سنجیو رائے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور ماحولیاتی عوامل سے درپیش چیلنجوں کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں "خاص طور پر دلی جیسے شہروں میں آلودگی اور خراب موسمی حالات کی وجہ سے اسکولوں کو اکثر چھٹیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ "جب آلودگی کی وجہ سے اسکول بند ہو جاتے ہیں تو اسکول میں تعلیم دینے کے دنوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے، جس سے سیکھنے کے لیے دستیاب گھنٹے خود بہ خود گھٹ جاتے ہیں۔ دوسری جانب تعلیمی نظام بچوں کو سیکھنے میں مدد کرنے کے لیے تکنیکی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، بر خلاف اس کے بیرونی عوامل کی وجہ سے حاضری میں کمی اور پڑھنے اور سیکھنے کی وجہ سے جسمانی حاضری کی کمی، یہ سب عوامل تعلیمی نظام اور بچوں کی علمی ارتقاء پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں”۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسائل کے حل کے لیے کوئی ایسا میکانزم بنتا ہوا نہیں دکھائی دیتا جس سے یہ توقع کی جاسکے کہ آج نہ سہی کل مسائل حل ہو جائیں گے۔
دوسری جانب شہروں میں ہی تعلیم کے مسائل نہیں ہیں بلکہ دیہی علاقوں کی صورت حال اور بھی سنگین ہے۔ ڈاکٹر سنگیتا بھاٹیہ، کے آئی آئی ٹی ورلڈ اسکول کی پرنسپل ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر اساتذہ کی کمی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ملک کو 10 لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے، جن میں سے اکثر دیہی علاقوں میں مرکوز ہیں۔ سنگیتا بھاٹیہ بتاتی ہیں "دیہی اسکولوں میں اساتذہ اکثر مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔ وہ ایسے اسکولوں میں کام کرتے ہیں جن کے بنیادی ڈھانچے، محدود سپورٹ سسٹم اور ان کو اپنے کام کی بہت کم پہچان ہوتی ہے”۔ نتیجتاً اسکول کا ایک ایسا نظام سامنے آتا ہے جہاں ایک یا دو اساتذہ اکثر متعدد درجات کے انتظام کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انفرادی توجہ کا فقدان سیکھنے کے خراب نتائج کا باعث بنتا ہے اور بہت سی صورتوں میں دیہی اسکولوں میں بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مسز بھاٹیہ ان مسائل کو کم کرنے کے لیے کئی حل تجویز کرتی ہیں مثلاً اساتذہ کو بنیادی فوائد کی پیشکش، ڈیجیٹل ٹولز جیسے سمارٹ کلاس رومز، ایپس کو مربوط کرنا اور کام کا ایسا ماحول بنانا جہاں اساتذہ کو قدر اور پہچان کا احساس ہو۔ یہ حل بظاہر آسان ہونے کے باوجود دیہی علاقوں کے بچوں کے تعلیمی تجربے کو بدل سکتے ہیں۔
ہندوستان کے تعلیمی بحران کا ایک اور اہم عنصر اساتذہ کی ناکافی تربیت ہے۔ پروفیسر گیانیندر تیواری ماہر تعلیم اساتذہ کو درپیش چیلنجوں کی واضح تصویر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں "تعلیمی نظام پر اساتذہ کا اثر بہت اہم ہے۔ اساتذہ کو کم تنخواہ دی جاتی ہے، ان کی بے عزتی کی جاتی ہے اور اکثر کلاس روم کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے اساتذہ کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں معمولی تنخواہیں دی جاتی ہیں، بعض اوقات دو یا تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ مالی استحکام کی یہ کمی پیشے کے احترام کی کمی کے ساتھ بہت سے ممکنہ اساتذہ کو دوسرے شعبوں میں کریئر تلاش کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ مسٹر تیواری ان ساختی مسائل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جو اساتذہ کو مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "اساتذہ سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ مناسب تربیت کے بغیر پڑھائیں۔ کسی دوسرے پیشے میں ملازمین سے یہ توقع نہیں کی جائے گی کہ وہ ضروری تربیت حاصل کیے بغیر کام انجام دیں” لیکن اس پیشہ میں اکثر ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ مسٹر تیواری ایک ایسے نظام کی وکالت کرتے ہیں جہاں کلاس روم میں داخل ہونے سے پہلے اساتذہ کو تربیت دی جانی چاہیے اور ان کی رہنمائی و تربیت کی جانی چاہیے، یہ ایک ایسا قدم ہے جو تدریسی معیار اور طلبہ کے نتائج دونوں کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
اس موقع پر یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ مسلسل اور جامع تشخیص Continuous and Comprehensive Evaluation سے مراد طالب علم کی شخصیت کی تشخیص کا ایک ایسا نظام ہے جس میں طلبہ کی ہمہ جہت ترقی اور ارتقاء سے متعلق سرگرمیوں کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ دو طرفہ مقاصد پر زور دیتا ہے، جیسے تشخیص کا تسلسل اور جامع انداز میں سیکھنے کے نتائج کی تشخیص۔ ساتھ ہی یہ سیکھنے کے تمام ڈومینز (حلقہ اثر) کا احاطہ کرتا ہے۔ جیسے طلبہ کی علمی سطح اور اس کا ارتقا،طلبہ کے ادارک کی سطح، جذباتی سطح اور سائیکوموٹر (جسمانی حرکت) کے ڈومینز۔ نیز یہ تشخیص، بچے کی ترقیاتی عمل کا مشاہدہ اور مطالعہ بھی کرتا ہے۔ یعنی یہ عمل طلبہ کے اندر بتدریج علمی، ادراکی، جذباتی اور سائیکو موٹر ڈومینز سے مشاہدہ کرتے ہوئے مطالعہ کے عمل سے گزرتا ہے۔ نیز درمیان میں جن پہلوؤں سے اس میں مثبت اور منفی تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آتی ہیں، اس کی روشنی میں حل بھی فراہم کرتا ہے۔ ’سائیکو موٹر اسکل‘ سے مراد وہ صلاحیتیں ہیں جو جسمانی حرکت کی شکل میں سامنے آتیں ہیں۔ بچے کی جسمانی حرکات کیسے ہو رہی ہیں اور ان کے درمیان کیا تعلق ہے؟ یہ سب سائیکو موٹر ڈومینز میں شمار ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر سائیکو موٹر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ‘گراس موٹر اسکل’ اور دوسرا ‘فائن موٹر اسکل’۔ گراس موٹر اسکل میں چلنا اور دوڑنا وغیرہ آتا ہے جس میں ہمارے جسم کے بڑے اعضاء کا استعمال ہوتا ہے۔ وہیں فائن موٹر اسکل میں لکھنا اور پلکوں کی جنبش جیسی حرکات ہوتی ہیں جس میں جسم کے چھوٹے چھوٹے اعضاءکا استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جب ہم اپنے جسم کو حرکت دے کر کوئی کام کرتے ہیں تو اسے جسمانی حرکت یا سائیکو موٹر کہتے ہیں۔ یہ ہماری مکمل جسمانی نشو و نما، حرکات اور صلاحیتوں کا مشاہدہ و مطالعہ کرتا ہے۔اس میں رفتار، درستگی، فاصلہ، طریقہ کار یا عمل درآمد میں تکنیک پر گفتگو کی جاتی ہے۔
سائیکو موٹر کے ڈومینز کی درجہ بندی میں سب سے پہلے imitation یعنی تقلید آتا ہے جس میں سیکھنے والا دیکھ کر اور تقلید کرکے کوئی چیز سیکھتا ہے۔یہاں طلبہ اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرتے ہیں، چاہے وہ کوئی فرد ہو یا کوئی کام جو ان کے سامنے کیا جا رہا ہو۔ بچہ اس کا مشاہدہ کرے گا اور اس کی تقلید کرنے کی کوشش کرے گا اور اس عمل کو دہرائے گا۔ دوسرے درجہ میں طلبہ manipulation کے عمل سے گزرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی یادداشت پر مبنی چیزوں کو رو بہ عمل لاتے ہیں۔اس مرحلے میں کسی فرد یا کام کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ طلبہ اپنے حافظے میں موجود چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی مختلف کاموں اور سرگرمیوں کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں یا انہیں کوئی ڈائریکشن دے دیا جائے تو اس کی روشنی میں وہ اپنے ہدف یا طے شدہ کام کو مکمل کرتے ہیں۔ یہ ڈائریکشن زبانی بھی دیے جا سکتے ہیں اور تحریری شکل میں بھی۔ چونکہ بچہ دوسرے مرحلے میں ہے لہٰذا اس میں تھوڑا اعتماد پیدا ہو جائے گا اور اسی اعتماد کے ساتھ وہ اپنے طے شدہ کام کو دیے گئے ڈائریکشن میں مکمل کرے گا۔ تیسرا مرحلہ precision یعنی درستگی کی جانب پیش رفت کا ہے۔ اس مرحلے میں انجام دیا جانے والا کام زیادہ درست اور عین مطابقت پیدا کرنے والا بن جاتا ہے۔اس مرحلے میں بچہ اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر اور درست کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح وہ ہدف یا دیے گئے کام سے عین مطابقت رکھے گا۔ اس مرحلے میں کوئی فرد یا چیز نہیں ہوگی جس کا وہ مشاہدہ کرے اور دہرائے اور نہ ہی دوسرے مرحلے کی طرح کوئی ڈائریکشن زبانی یا تحریری بھی نہیں ہوگا بلکہ یہاں پر اس کے پاس مطلوبہ صلاحیت پیدا ہوچکی ہوگی اور وہ چاہے گا کہ وہ اپنی صلاحیت میں مزید بہتری پیدا کرتے ہوئے اپنے کام کو زیادہ خوبصورتی کے ساتھ انجام دے۔ یعنی جو صلاحیت پیدا ہو چکی ہے اسے اعلیٰ معیار پر پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ چوتھا مرحلہ articulation یعنی اظہار کا ہے۔ یہاں پر متعدد مہارتیں ایک ساتھ مل کر ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے انجام دی جاتی ہیں۔precision میں بچہ کسی ایک صلاحیت کو مزید بہتر بناتے ہوئے اسے استعمال کر رہا تھا لیکن یہ مرحلہ چونکہ اس سے آگے کا ہے اس لیے یہاں پر بچہ ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد صلاحیتوں کو بہت ہی آسانی کے ساتھ استعمال کرسکتا ہے لہٰذا صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچہ اپنے پروڈکٹ میں یا اپنی صلاحیت میں ترمیم کرتے ہوئے دیکھے گا کہ وہ حالات کے پیش نظر کیسے تبدیل ہو رہا ہے تاکہ طے شدہ ہدف کو وہ مکمل کر سکے۔ یہاں بچہ ایک سے زائد صلاحیتوں کو استعمال کرسکے گا۔اور آخری مرحلہ naturalization قدرت کاری کا ہے۔ اس مرحلہ میں کارکردگی کی اعلیٰ سطحیں طالب علم کو حاصل ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں بہت کم یا بہت زیادہ سوچے بغیر فطری طور پر اعمال رونما ہوتے ہیں۔اب naturalization کا جو اظہار ہوتا ہے وہ خود بہ خود ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک تیراک کے لیے تیراکی کرنا آسان کام ہے، اس کے دماغ میں کچھ بھی چلتا رہے لیکن وہ تیراکی کے ذریعہ اپنے ہدف کو حاصل کرکے باہر آجائے گا۔ آپ غور فرمائیں کہ ایک ایسا طالب علم جسے تیراکی نہیں آتی اس کے لیے تیرنا اپنی جان کی بازی لگا دینا ہے۔اسی طرح ایک تجربہ کار کرکٹر کے لیے میدان میں تیز رفتار اور ماہر گیند باز کی گیند پر چھکا مارنا آسان ہے لیکن ایسے فرد کو کرکٹ کا بیٹ پکڑا دیا جائے جس نے کرکٹ نہیں کھیلی وہ بال کی رفتار اور حرکت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے گا کجا کہ چھکا لگائے؟ وہ صحیح طریقے سے بیٹ بھی نہیں گھما پائے گا۔اسی طرح جو بچے درج بالا مراحل سے گزرتے ہوئے آئیں گے وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے، اپنی صلاحیتوں میں ارتقاء لائیں گے اور جو بھی صلاحیتیں ان میں اب تک پروان چڑھی ہیں ان کو نکھارنے، سنوارنے اور پرفیکشن کی طرف لانے کی سعی و جہد کریں گے۔ چونکہ وہ مرحلہ وار آگے بڑھے ہیں لہٰذا اب انہیں کسی کام کو انجام دینے کے لیے بہت زیادہ سیکھنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اپنی صلاحیتوں کو ارتقاء بخشنے یا ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جہاں ایک جانب مختلف طریقے تعلیمی نظام میں استعمال کیے جارہے ہیں اور اس کے نتائج بچوں کی فکری و علمی سطح کو بلند کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام میں مسلسل اور جامع تشخیص Continuous and Comprehensive Evaluation کے عمل کو اختیار کیا جائے۔ اس سے بچوں کے سیکھنے،تعلیم میں بہتر کارکردگی انجام دینے اور فیل ہونے جیسے مسائل سے نجات ملے گی۔
(مضمون نگار سے رابطہ [email protected])
***
***
آج بھارت میں ایک جانب تعلیمی نظام میں مختلف طریقے استعمال کیے جارہے ہیں اور اس کے نتائج بچوں کی فکری و علمی سطح کو بلند کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام میں مسلسل اور جامع تشخیص Continuous and Comprehensive Evaluation کے عمل کو اختیار کیا جائے۔ اس سے بچوں کے سیکھنے،تعلیم میں بہتر کارکردگی انجام دینے اور فیل ہونے جیسے مسائل سے نجات ملے گی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024