
تعلیمی اصلاحات کے ساتھ انفراسٹرکچر کی مضبوطی بھی ضروری
اساتذہ کی کمی اور بنیادی ضرورتوں کا مسئلہ حل کیے بغیر پالیسی اصلاحات کا کوئی مطلب نہیں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہماری حکومت تعلیمی میدان میں مسلسل تجربات سے گزر رہی ہے۔ حکومت نے تعلیمی پالیسی میں اس فیصلے میں اصلاح کی ہے جس کے تحت پانچویں یا آٹھویں جماعت میں کسی طالب علم کو بغیر ناکام کیے اگلے درجے میں بھیجنے کا آسان راستہ تجویز کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے طلبہ امتحانات کو اہمیت نہیں دے رہے تھے، جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار میں نمایاں تنزلی دیکھی جا رہی تھی۔ طلبہ سمجھ گئے تھے کہ جب فیل یا پاس ہونے کا مسئلہ ہی نہیں اور بغیر محنت کے اگلی جماعت میں ترقی ملنی ہے تو وہ کیوں پڑھائی کریں؟ یہی وجہ تھی کہ تعلیمی معیار میں شدید گراوٹ درج کی جا رہی تھی۔
حکومت نے اس مسئلے کو حساس اور انسانی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے نرم رویہ اپنایا، کیونکہ تعلیمی ماہرین کا ماننا تھا کہ طلبہ کو فیل کرنے سے ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ کئی مواقع پر فیل ہونے والے طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے تھے۔ اسی وجہ سے طلبہ کی فطری ترقی اور ان کی قوتِ ارادی کو بہتر رکھنے کے لیے انہیں پاس کرتے رہنے کا ضابطہ بنایا گیا تھا۔ اس پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ محروم اور پسماندہ طبقات کے طلبہ کو اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں بہتر ماحول مل سکے تاکہ ان کی کسی خوف کے بغیر اسکول میں حاضری ہو اور فیل ہونے کی وجہ سے شرمندگی سے محفوظ رہیں۔
مگر اس پالیسی کا الٹا اثر ہوا اور بڑی تعداد میں طلبہ تعلیم سے منہ موڑنے لگے۔ ان کے اندر امتحانات کی اہمیت ختم ہوتی گئی۔ اسی وجہ سے 2018 میں "رائٹ ٹو ایجوکیشن” (RTE) میں ترمیم کرتے ہوئے لوک سبھا میں ایک بل پیش کیا گیا۔ ترمیم شدہ بل میں "نو ڈیٹنشن پالیسی” کو ختم کرنے کی تجویز رکھی گئی۔ چند دنوں بعد 2019 میں راجیہ سبھا نے بھی اس بل کو منظور کر لیا۔ اس پالیسی کے تحت فیل ہونے والے طلبہ کو دو ماہ کے اندر دوبارہ امتحان دینے کا موقع دیا جائے گا اور پانچویں یا آٹھویں درجے کے طلبہ کے لیے حسبِ معمول امتحانی نظام برقرار رہے گا۔
اگرچہ ترمیمی بل منظور ہو چکا ہے مگر اسے ریاستوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ تعلیم ریاستی معاملہ ہے۔ تاہم، اب مرکزی حکومت نے اصلاح کرتے ہوئے "کِیندر وِدیالیہ”، "نووودے وِدیالیہ” اور فوجی اسکولوں میں "نو ڈیٹنشن پالیسی” کو ختم کر دیا ہے۔ امتحان میں ناکام ہونے والے طلبہ کو ایک اور موقع دیا جائے گا مگر انہیں اسکول سے نکالا نہیں جائے گا۔ اگر وہ دوبارہ فیل ہوں گے، تو اسی جماعت میں دوبارہ پڑھائی کریں گے۔
بلاشبہ اس فیصلے کے بعد طلبہ امتحانات کو اہمیت دینے پر مجبور ہوں گے۔ حکومت کی کوشش رہی ہے کہ تعلیمی منصوبے میں نرمی برقرار رہے اور سیکھنے کی صلاحیت میں مسلسل بہتری آتی رہے۔ یاد رہے کہ پہلے ہی 20 ریاستیں اور یونین ٹیریٹریز "نو ڈیٹنشن پالیسی” کو ختم کر چکی ہیں۔ تاہم، یہ بھی ضروری ہے کہ اسکولوں میں بنیادی تعلیمی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا جائے۔
ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا ہی چاہیے۔ اس اقدام سے حکومت نے مان لیا ہے کہ پانچویں اور آٹھویں جماعت میں امتحان ہونا ہی چاہیے۔ ان امتحانات کے نہ ہونے سے نہ صرف بچوں بلکہ اساتذہ کی توجہ بھی کم ہوجاتی تھی لیکن اب وہ زیادہ احتیاط اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھائیں گے اور ان میں جواب دہی کا احساس بھی بڑھے گا۔ طلبہ کو بھی یہ احساس ہوگا کہ انہیں امتحان دینا ہے جس کے لیے کم از کم تیاری کرنا ضروری ہوگا۔ اس طرح بچے بھی تعلیم پر زیادہ توجہ دیں گے اور جب وہ ایک درجے میں کامیاب ہو کر اگلے درجے میں جائیں گے تو والدین بھی اپنی اولاد کی تعلیمی پیش رفت پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور ہوں گے جس سے گھروں اور اسکولوں میں تعلیمی ماحول بہتر ہوگا۔
ویسے تو اسکولوں میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے آتے ہیں اور ان کی سمجھ اور عقل میں جو فرق ہوتا ہے، اگر اساتذہ اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو تعلیمی پالیسیاں کامیاب ہوسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ 2012 میں ایک کمیٹی کی درخواست پر سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں دس ہزار اساتذہ کی تربیت کے ادارے محض تجارت کر رہے ہیں اور ڈگریاں فروخت کر رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک بات تھی، لیکن آج تک اس کا کوئی مؤثر حل نہیں نکالا گیا۔ اگر کوئی ملک اپنے اساتذہ کو اس طرح تربیت دے رہا ہے تو وہ درحقیقت اپنے مستقبل اور طلبا کے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔ جب جے ایس ورما نے یہ بات کہی تھی تو اسی وقت پوری قوم کو ایک آواز میں کھڑے ہوجانا چاہیے تھا لیکن آج بھی ملک میں اساتذہ کی تقرری صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔
ملک کے اسکولوں میں لاکھوں اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، باصلاحیت اساتذہ کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی ادارے متاثر ہو رہے ہیں اور کم صلاحیت رکھنے والے اساتذہ کو بحال کیا جا رہا ہے۔ جزوقتی اساتذہ سے کام چلایا جا رہا ہے جو تعلیمی نظام کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ڈیٹنشن پالیسی کی حیثیت بھی غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر سال چند ماہ قبل ہی نئے اساتذہ کی تقرری کیوں نہیں کی جاتی؟ اساتذہ کی کم تنخواہ پر اور غیر مستقل بنیادوں پر تقرری کیوں کی جاتی ہے؟ گزشتہ چالیس سالوں میں تعلیم کے ساتھ جس طرح کی ناانصافی کی گئی ہے اس نے تعلیمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
تعلیم کا معیار اسی وقت بہتر ہوسکتا ہے جب مناسب تعداد میں تربیت یافتہ اساتذہ ہوں اور اساتذہ و طلبہ کا تناسب متوازن ہو۔ تب ہی استاد ہر طالب علم سے انفرادی طور پر بات کرسکیں گے، ان کی صلاحیتوں اور کمزوریوں کو سمجھ سکیں گے اور ان کی تعلیمی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔
ہر سال کیے جانے والے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کی تعلیمی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ پانچویں درجے کا طالب علم دوسری جماعت کی کتابیں بھی روانی سے نہیں پڑھ پاتا اور یہی حال تقریباً تمام جماعتوں کے طلبہ کا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب سروے کے نتائج آتے ہیں تو چند دنوں تک ان پر بحث ہوتی ہے لیکن پھر انہیں بھلا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف کئی اسکول اپنے اچھے نتائج دکھانے کے لیے نویں جماعت کے ان طلبہ کو جو امتحان میں اچھا مظاہرہ نہیں کر پاتے، اسکول سے نکال دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلان کرے کہ نویں یا دسویں جماعت کے کسی بھی طالب علم کو اسکول سے نہ نکالا جائے، بلکہ ایک قومی پالیسی بنائی جائے جس میں یہ طے ہو کہ ایسے بچوں کے ساتھ کیا طریقہ اپنایا جائے۔
حکومت کا یہ فیصلہ کہ پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ کو نئی کتابیں دیے جانے سے پہلے ایک بریج کورس کروایا جائے، قابلِ تحسین ہے۔ اس اقدام سے طلبہ کو اپنی گزشتہ تعلیم کا اعادہ کرنے کا موقع ملے گا، ان کی تعلیمی کمزوریاں دور ہوسکیں گی اور اساتذہ بھی بہتر انداز میں یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ بچوں میں بہتری آرہی ہے یا نہیں۔
ہمارے ملک میں امتحان دراصل چھٹائی (Elimination) کا عمل بن گیا ہے۔ 2009 کے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ (RTE) نے اس کا ایک نیا معیار طے کیا تھا۔ اس نے امتحانات کے ذریعے کی جانے والی چھٹائی کی رسوائی کو ختم کر دیا اور No Detention Policy (NDP) کو شامل کرتے ہوئے اسے آٹھویں جماعت تک نافذ کر دیا۔ یہ ایک اختراعی سوچ تھی، جہاں کامیابی کو امتحانات کے اسکور سے جانچا جاتا تھا۔ اب پندرہ سال بعد آئندہ تعلیمی سال سے پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کو ناکام ہونے پر روکا جا سکتا ہے۔
جب رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ(آر ٹی ای) پاس ہوا تھا، اس وقت اسکولوں میں پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک طلبا کے ڈراپ آؤٹ کی شرح 42.5 فیصد تھی، جبکہ ایس سی اور ایس ٹی طبقات میں یہ شرح بالترتیب 51.2 فیصد اور 56.8 فیصد تھی۔ اب مرکزی حکومت نے 2024 میں NDP کو کالعدم کر دیا ہے تو ڈراپ آؤٹ کی شرح کم ہو کر 12.6 فیصد رہ گئی ہے۔ UDISE کے حالیہ ڈیٹا کے مطابق، اس وقت یہ تصور تھا کہ اگر کوئی بچہ فیل ہو جائے تو اساتذہ اسے خصوصی توجہ دے کر مطلوبہ معیار تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن کیا اساتذہ کے پاس ایسی بہتری کے لیے بنیادی سہولیات (Infrastructure) موجود ہیں؟ اس کا تفصیلی تذکرہ مذکورہ اقتباس میں آ چکا ہے۔
ضرورت سے زائد ورک لوڈ کے ساتھ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ کے لیے طلبہ کو خصوصی توجہ دینے کا وقت مل پائے گا؟ وزارتِ تعلیم کی رپورٹ کے مطابق، سرکاری پرائمری اسکولوں یا بنیادی سطح کے تعلیمی اداروں میں 8.4 لاکھ اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں کیا ڈیٹنشن پالیسی مسائل کو مزید ابتر نہیں کر دے گی؟ موجودہ تعلیمی ماحول میں طلبہ کے مفادات متاثر ہوتے نظر آ رہے ہیں، خاص طور پر وہ طلبہ جو انتہائی غریب (Marginalized) اور حاشیے پر موجود طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
2005 سے اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (ASER) دیہی بھارت میں بچوں کے تعلیمی حالات پر روشنی ڈالتی آ رہی ہے۔ اب NEP-2020 کے تحت مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے تعلیمی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے نیپون بھارت مشن شروع کیا ہے۔ ASER کے ڈیٹا سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ایک یہ کہ تعلیمی ترقی کی رفتار حسبِ توقع چند سالوں میں تیزی سے بڑھے گی اور دوسرا والدین بھی بچوں کی تعلیم کی طرف زیادہ متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کے بنیادی ڈھانچے کو مزید بہتر بنایا جائے۔
***
ہندوستانی تعلیمی نظام میں امتحانات کا مقصد کامیابی کا پیمانہ ہونا چاہیے مگر یہ چھٹائی (Elimination) کا ذریعہ بن چکا ہے۔ 2009 میں رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ (RTE) کے تحت No Detention Policy (NDP) نافذ کی گئی جس نے آٹھویں جماعت تک طلبہ کو ناکام کرنے پر پابندی لگا کر ڈراپ آؤٹ کی شرح میں نمایاں کمی کی۔ تاہم، 2024 میں اس پالیسی کے خاتمے سے پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلبا کو ناکامی پر روکنے کی اجازت مل گئی ہے، جس کے ممکنہ اثرات پر تشویش بڑھ رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025