تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے اثرات، ایک جائزہ
ملک بھر میں اسکولوں اور کالجوں میں مسلم طلباء کے ساتھ مذہبی امتیاز ناقابل برداشت
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
اسلاموفوبیا کا خاتمہ غلط فہمیوں کا ازالہ، قانونی اقدامات اور اسلامی تعلیمات کے عملی نفاذ سے ممکن
تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیاکے بڑھتے اثرات
شمال مشرقی دہلی کے نند نگری علاقہ میں دہلی حکومت کے زیر نگرانی سروودیا بال ودیالیہ کے طلباء نے گزشتہ دنوں الزام لگایا تھا کہ اس کی مذہبی یا ذات کی شناخت کی وجہ سے اسےہراساں اور امتیازی سلوک کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ الزامات دہلی کے ایک وکیل اور تعلیمی کارکن اشوک اگروال کی طرف سے متاثرہ طلباء کی جانب سے لکھے گئے خط میں سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ آتشی کو لکھے گئے خط میں معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی کی تشکیل کی درخواست کی گئی ہے۔ خط کے مطابق، طالب علموں نے الزام لگایا ہے کہ دو اساتذہ "مسلسل مسلم کمیونٹی کے طلباء کو ہراساں کرتے ہیں، انہیں ‘جے شری رام’ کہنے پر مجبور کرتے ہیں، باتھ روم میں بغیر کپڑوں کے انہیں مارتے ہیں اور انہیں خودکشی کرنےپر بھی اکساتے ہیں”۔گرچہ جس وقت یہ خبر سرخیوںمیں آئی تھی اس وقت تک دہلی حکومت نے ان الزامات سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا تھا۔لیکن اب یہ خبر خوش آئند ہے کہ جن مسلم بچوں نے کچھ اساتذہ کے ذریعہ امتیازی سلوک اوراستحصال کے مسئلہ کو اجاگر کیا تھا، اُس پر وزیر اعلیٰ آتشی نے نہ صرف انکوائری کرنے کا حکم دے دیا ہے بلکہ حکم کے مطابق 15 دن کے اندر رپورٹ فراہم کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ساتھ ہی یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ آئندہ کسی بھی اسکول میں کسی بھی طبقہ کے طلبا کے ساتھ امتیاز برتنے جیسی واردات دوبارہ نہ ہونے پائے، اس کو یقینی بنانے کی ذمہ داری اعلیٰ افسران پر رہے گی۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ کے او ایس ڈی منوج جین نے ایجوکیشن سکریٹری سے کہا ہے کہ وہ ایڈوکیٹ اشوک اگروال کے خط کی تحقیقات کریں، جس میں جنتا فلیٹ، نند نگری میں واقع ایس بی وی اسکول میں مذہبی بنیادوں پر طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس تعلق سے سکریٹری تعلیم کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے 13 نومبر کے خط کے مندرجات کو دیکھا ہےاور اسے انتہائی سنجیدہ پایا ہے اور مناسب کارروائی کے لیے تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے، لہذا سکریٹری تعلیم سے معاملے کی تحقیقات کرکے 15 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔سکریٹری تعلیم کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مبینہ مذہبی بنیادوں پر ایسا امتیاز کسی اور اسکول میں نہ ہونے پائے۔
مسلم بچوں کے ساتھ امیتازی سلوک کے معاملہ کو لے کرمعروف ایڈوکیٹ اشوک اگروال آگے آئے تھے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو لکھے خط میں کہا تھا کہ 6 نومبر کو مجھے ایس بی وی، جنتا فلیٹ، نندنگری،دہلی 110093(اسکول آئی ڈی:116004)کے مسلم کمیونٹی کے طلبا کا ایک غیر تاریخ شدہ خط (منسلک کاپی)موصول ہوا۔ اس خط میں طلبا نے مختلف مسائل اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پی جی ٹی پولیٹیکل سائنس کے استاد آدرش شرمااور پی ٹی آئی ٹیچر وکاس کمار ، مسلم کمونیٹی کے طلبا کو جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کررہے ہیں اور انہیں باتھ روم میں کپڑوں کے بغیر خودکشی کےلیے اکسارہے ہیں۔ اشوک اگروال نے خط میں لکھا ہے کہ طلبا نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ کلاس میں صرف چند اساتذہ پڑھانے آرہے ہیں، باقی اسٹاف روم میں بیٹھے رہتے ہیں، اسکول میں پڑھائی کا ماحول نہیں ہے۔اس خط میں طلبا نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ آدرش شرما کے محکمہ اور اساتذہ یونین میں اچھے تعلقات ہیں،اس لیے ایس بی وی، جنتا فلیٹ، نند نگری کے ملازمین سے اگر کوئی تحقیقات کرائی جاتی ہیں تو اس کا جواز نہیں ہوگا،لہذا ڈائریکٹر ایجوکیشن کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی مسائل کا جائزہ لے۔ایڈوکیٹ اشوک اگروال نے خط میں وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ 7 اگست کو میرے اسکول کے دورے کے دوران، مجھے گیارہویں،جماعت کے ایک طالب علم نے زبانی طور پر بتایا کہ اسکول میں ایک استاد ہندو کی بنیاد پر طلبا کو الگ کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہے ہیں اور انہیں جے شری رام کہنے پر مجبورکررہے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں نے ہماری میٹنگ میں یہ مسئلہ آپ کے علم میں لایا اور یہ مسئلہ سابقہ ڈائریکٹر آف ایجوکیشن آر این شرما کے نوٹس میں بھی لایا تھا، لیکن کچھ نہیں کیا گیا۔ ایڈوکیٹ اشوک اگروال نے خط میں یہ باورکرایا ہے کہ غیر تاریخ شدہ خط میں لگائے گئے مبینہ الزامات انتہائی سنگین معلوم ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویشناک ہیں اور ان پر توجہ دینی چاہیے۔کیونکہ جو طلبہ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں انہیں اسکولوںمیں داخلہ ہی صرف اس غرض سے والدین نے کیا ہے کہ وہ ایک جانب تعلیم حاصل کریں تووہیں دوسری جانب اس تعلیم کے ذریعہ ملک و ملت کے ایک باشعور اور ذمہ داری شہری بن سکیں۔لیکن اگر اس کے برخلاف وہ مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور اسکولوں تک میں ان کی تربیت اسلامو فوبیا کے رائج الوقت منفی تصورات اور عملی مظاہر میں ہوتی ہے تو اس کے حددرجہ نقصاندہ نتائج سے پورا معاشرہ متاثر ہوگا۔اور یہ تعلیم کا مقصد بالکل بھی نہیں ہے کہ اسکولوں میں قابل احترام سمجھے جانے والے اساتذہ کے ذریعہ طلبہ منفی اثرات کے ساتھ پروان چڑھیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء شدید قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں جس کی ایک مثال اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں نیہا پبلک اسکول میں دیکھنے کو ملی تھی جہاں ایک مسلمان بچے کو ہم جماعت طلباء سے پٹوایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں بیٹھے ہوئے استاد نے دیگر مسلم طلباء کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئےتھے۔ اب سے پہلے اسلامو فوبیا کا یہ زہر شمالی ہند تک محدود تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جنوبی ہندوستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ جن ریاستوں میں حجاب پر پابندی نہیں ہے، وہاں بھی مسلم طالبات کو امتحانات کے دوران حجاب پہننے سے روکا جارہا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک 27 سالہ مسلم لڑکی کو ہندی چیپٹر کا امتحان دینے سے پہلے حجاب اتارنے کو کہا گیا۔گزشتہ سال کرناٹک میں حکومت کے زیر انتظام پری یونیورسٹی کالجوں نے اسکول یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مسلم طالبات اپنے علاقے میں پرائیویٹ کالج نہ ہونے یا ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب تعلیم ترک کردیں۔ اسی طرح دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے کلاس روم میں خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کئے۔ واقعات کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں پھیلا ہوا نفرت کا ماحول اب اسکولوں اور کالجوں میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ اورہندوستانی سماج میں نفرت کی فضا ،جسے بہت ہی منظم و منصوبہ بند اندازمیں ایک زمانے میں شروع کیا گیا تھا آج اس کے اثرات چہار جانب دیکھے جاسکتے ہیں۔
وہیں آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسلاموفوبیاکی اصلاح دراصل 1910 میں سب سے پہلی استعمال ہونا شروع ہوئی اور یہ جرمن کے خلاف تھی۔بعد میں یہ جاپان کے لوگوں کے لیے بھی استعمال کی جانے لگی اور اس کے بعد اسے مذہب سے جوڑ کے دیکھا جانے لگا۔مذہب کے ساتھ جب اس کو جوڑا گیا تو دراصل مسلمان اس اصطلاح کا ہدف بنے،اور اسلاموفوبیا کے نام سے یہ اصطلاح موسوم ہوگئی۔ وجوہات پر غور کیا جائے تو اس کی پہلی وجہ دینی اور علمی ہے۔یعنی مستشرقین نے اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈا کھڑا کیا،ان لوگوں نے اسلاموفوبیا کی اصلاح کو عام کرنے اور اسلام اور اسلامی تعلیمات،عقائد اور تصورات کو نشانہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔دوسری وجہ اسلامی تعلیم کی جانب لوگوں کا جھائو، اس کی جاذبیت اور اس کی ہمہ جہت پھیلائو تھا۔ اسلام چونکہ دنیا کے مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے وہیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں سکون و اطمینان بھی فراہم کرتا ہے۔نیزمکمل نظام حیات پیش کرتاہے باالفاظ دیگر زندگی کے جملہ دائروں میں ایک مکمل نظام فراہم کرتا ہے۔وہیں دوسری جانب جدیدیت اور مابعد جدیدیت میں پیدا ہونے والے مسائل نے انسانوں کو فکری،نظریات، نفسیاتی اور عملی بحران میں جس طرح مبتلاکیا ہے۔نیزعصرحاضر میں مختلف ‘ازم’ کی ناکامیاں کھل کر سامنے آنے اور اسلامی نظام میں جاذبیت کے رجحانات میں اضافے، عام انسانوں کے درمیان اسلام بحیثیت مذہب کے مقبول ہونےاور خاندانی،معاشرتی و دیگر مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے اسے اختیار کرنے جیسی صورتحال نے یورپین ممالک ہوں یا مشرقی ممالک ، ان میں ایک کھلبلی پیدا کردی۔ نتیجہ میں اسلام مخالف نظریات، گروہوں اور اس کے حاملین نے اسلام کے خلاف ایک پورا محاذ کھول دیا، جس کی موجودہ شکل ‘اسلاموفوبیا’ہے۔
اسلامو فوبیا درحقیقت یورو سینٹرزم، ایتھنو سینٹرزم، زینو فوبیا اور نسل پرستی کی ایک طویل روایت کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ اسلامو فوبیا کو مغرب میں نسل پرستی، زینو فوبیا کی ایک طویل تاریخ نے پالا ہے اس لیے اسلامو فوبیا بین الاقوامی سیاست کے لیے میں بھی چھایا ہوا ہے۔ اور چونکہ اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کی تاریخ تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ اسی لیے ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب ”اورینٹلزم‘‘ میں مشرق و مغرب کے تعلقات کی نوعیت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ”مشرق نہ صرف یورپ سے ملحق ہے، یہ یورپ کی سب سے بڑی، امیر ترین اور قدیم ترین نوآبادیات کا مقام بھی ہے۔ اس کی تہذیبوں اور زبانوں کا منبع اور اس کا ثقافتی مقابلہ کرنے والا ہے۔ یہ ایک سٹریٹجک معاملہ بھی ہے، جس کے ذریعے مغرب اپنے عالمی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کے تصورات کو کنٹرول اور تشکیل دینا چاہتا ہے اور اسلامو فوبیا کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔لیکن اس میں اسے وہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے جس کے لیے وہ ایک طویل زمانے سے گرگرم عمل ہے۔یہی وہ مایوسی اور جھنجلاہٹ کی وجوہات ہیں جس نے اسلام کے خلاف فکری اور عملی ہردوسطح پر غلط فہمیاں پیدا کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کی جانب اسلام مخالف طاقتوں کو متوجہ کیا ہے اور وہ اپنے طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے منظم و منصوبہ بند انداز میں کوشاں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ جو نقصان سامنے آیا ہے وہ عام لوگوں کے تعلقات اور رابطہ میں دوریاں پیدا کرنے کی شکل میں سامنے آئیں ہیں۔ دوسری جانب شدت پسندی،جارحانہ قوم پرستی،نفرت کے ماحول، غلط فہمیوں کے اضافے،اور رابطوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں۔
اس وقت سازشی ذہنوں نے بڑا سوچ سمجھ کر دو الفاظ پر مشتمل اس اصطلاح کا استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اسلام کا مطلب امن و سلامتی ہے تو دوسرا لفظ فوبیا ہے جس کا مطلب خوف و اندیشہ ہے۔ فوبیا بنیادی طور پر ایک ایسے مریض کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس طرح اسلامو فوبیا سے مراد”اسلام سے خوفزدہ”لی گئی ہے۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) نے ‘اسلامو فوبیا’ کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:”اسلام کے خلاف غیر منطقی، جارحانہ اور سخت نا پسند ید گی کے اظہار کا نام ’اسلامو فوبیا‘ ہے”۔اسلاموفوبیا کے فروغ کے لیے آج بے شمار طریقہ اختیار کیے جارہے ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، کہیں توہین آمیز خاکے بنائے جاتے ہیں، کہیں جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ کہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتابیں اور فلمیں بنائی جاتی ہیں، کہیں براہ راست اور کھلے عام مسلمانوں کی مساجدکے سامنے اشتعال دلانے کے لیے مختلف حرکتیں اور نعرے لگائے جاتے ہیں۔ مختلف شکلوں اور مختلف طریقوں سے اس فوبیا کو بڑھانے اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی سعی و جہد نے خود مسلمانوں کو بھی نفسیاتی اور سماجی سطح پر کنفیوژن میں مبتلا کردیا ہے کہ آخروہ کریں تو کیا کریں؟ ان حالات میں مسائل کا حل یہی ہے کہ غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔چاہے یہ غلط فہمیاں دولوگوں کے درمیان ہوں، دو طبقات اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہوں یا کسی بھی ادارے میں خدمات انجام دینے والے لوگوں کے درمیان ہوں۔دوسرا کام یہ ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔تیسرا اہم کام یہ ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔چوتھا کام یہ ہے کہ امن پسند اور غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام جو ہورہے ہیں اس کے خلاف امن پسند اور انسانیت پسند لوگوں کو ساتھ لے کر مسائل کے حل میں پیش رفت کی جائے۔اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام جس امن و آتشی کی بات کہتا ہے اور جس اعلیٰ اخلاق و کردار کا انسان بناتا ہے، مسلمان خود بھی اسلام اور اس کی تعلیمات کو مکمل طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں اختیار کریں۔اس حکمت عملی کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اسلام بحیثیت قول و عمل لوگوں کے سامنے آئے گا، مسائل میں کمی آئے گی، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور نصرت بھی دنیا و آخرت میں مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔
***
***
اسلاموفوبیا کے فروغ کے لیے آج بے شمار طریقہ اختیار کیے جارہے ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، کہیں توہین آمیز خاکے بنائے جاتے ہیں، کہیں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ کہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتابیں لکھی اور فلمیں بنائی جاتی ہیں، کہیں براہ راست اور کھلے عام مساجدکے سامنے اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے اس فوبیا کو بڑھانے اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوششوں نے مسلمانوں کو بھی نفسیاتی اور سماجی سطح پر کنفیوژن میں مبتلا کر دیا ہے کہ آخر وہ کریں تو کیا کریں؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024