تعلیمی افکار و نظریات۔ماضی اورحال کے تناظر میں

نظام تعلیم میں تبدیلی لانے کی کوششوں اور اس کے نتیجہ میں مثبت و منفی پہلوؤں کا جائزہ ضروری

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

تہذیب، تمدن اور ثقافت یہ تینوں الفاظ عربی الاصل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لفظی معنی میں فرق کے باوجود ان الفاظ کے درمیان جزوی اشتراک انہیں باہم مترادف بنا دیتا ہے۔ تہذیب کے لغوی معنی ’کھجور کے درخت سے چھال اتارنا یا صاف کرنا‘ کے ہیں۔ ان معنی کی رعایت سے اس لفظ میں ’آراستگی، شائستگی، اصلاح، ادب و آداب اور ترتیب و تدوین‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔یعنی باالفاظ دیگر ذہنی ترقی، طرز معاشرت اورتمدن کو بھی ’تہذیب‘ کہا گیا۔معنی کی اسی رعایت سے ذہنی اور قلبی اصلاح یا صفائی کو ’تہذیب باطن‘، جب کہ طرز معاشرت کی معنی میں مغربی طرز بود و باش کو ’مغربی تہذیب‘ مراد لیا جاتا ہے ۔علامہ اقبال فرماتے ہیں:فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب۔تہذیب کے ایک دقیق تر معنی ’وہ معاشرتی طرزِ عمل ہے، جس کی پشت پر شعوری یا لاشعوری کوئی مذہبی عقیدہ کار فرما ہوتا ہے۔گفتگو کے اس پس منظر میں انگریزی لفظ سولائزیشن (Civilisation) پر غور کیجیے جو موقع کی مناسب سے کبھی ’تہذیب‘ کا ترجمان ہوتا ہے اور کبھی ’تمدن‘ کا قائم مقام بن جاتا ہے۔ تمدّن کے معنی میں فرانسیسی مصنف ’گستاؤلی بان‘ کی کتاب The Indian Civilisation دیکھی جا سکتی ہے، جس کا ترجمہ ’تمدن ہند‘ کیا گیا ہے۔ جب کہ عقیدے کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے معاشرے کے معنی میں Civilisation کو امریکی مصنف سمیول پی ہنٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilisation میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جس کا ترجمہ ’تہذیبوں کا تصادم‘ کیا گیا ہے۔عربی میں ’شہر‘ کو ’مدینہ‘ کہتے ہیں، اسی سے ’مَدَنَت مَدِیَنہ‘ ہے، جس کے معنی شہر آباد کرنے کے ہیں۔ ’تمدن‘ کا لفظ اسی ’مدینہ‘ سے متعلق ہے۔ فرہنگ ہائے فارسی تمدن کے معنی اور مترادفات کو’شہر نشینی، مدینت اور شہری طرزِ معاشرت سے آشنائی‘ کے علاوہ ’ثقافت‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وہیں لفظ ’ثقافت‘ کا تعلق ’تہذیب و تمدن‘ سے جڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس طرح انگریزی میں ’تہذیب‘ اور ’تمدن‘ کو ’سولائزیشن‘ کہتے ہیں، ایسے ہی سنسکرت میں تہذیب اور ثقافت ہر دو کے لیے سنسکرتی کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ثقافت اس طرز عمل کو کہتے ہیں جس میں کسی قوم یا گروہ انسانی کی تہذیب کے اعلیٰ مظاہر جو اس کے مذہب، نظام اخلاق، علم و ادب اور فنون میں نظر آتے ہیں،ان کو شامل کیا جاتا ہے۔ثقافت کے ذیل میں ’خواجہ ربانی‘ کے شعر کا لطف اٹھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ اس لفظ کو کہاں اور کس طرح استعمال کیا گیا ہے،وہ کہتے ہیں:حکومت ہے نہ شوکت ہے نہ عزت ہے نہ دولت ہے۔ہمارے پاس اب لے دے کے باقی بس ثقافت ہے۔
موجودہ دور میں یا یوں کہیے کہ ہر دور میں تہذیب و تمدن اور ثقافت کے الفاظ ،اس کے مفاہیم اور اس کے عکس میں پوشیدہ تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔یعنی ایک قوم جب اپنی تہذیب اور ثقافت کو نظام میں داخل کرتے ہوئے ترقی دینا چاہتی ہے تو خاص تمدن پروان چڑھتا ہے۔اس میں اس قوم کا نظام اخلاق بھی ہوتا ہے، علم و ہنر کی داستانیں بھی سنائی جاتی ہیں، ادب اور فنون لطیفہ کو نمایاں کیا جاتااور ترقی دی جاتی ہے اور حکومت وقت کی شوکت و عزت کو بھی عروج پر پہنچانے کی منظم و منصوبہ بند کوشش کی جاتی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ میں اسلامی عہد حکومت ایک زرین عہد تھا جس میں تمام باشندگان کو یکساں حقوق اور سہولیات میسر تھیں۔ مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کے دور عروج سے استفادہ کر کے اس خطہ ہندوستان کو بھی مختلف علوم وفنون کا مرکز بنا دیا تھا۔ اسلامی عہد کا ہندوستان خوشحال اور ترقی یافتہ تھا ، قرب و جوار کے خطوں سے لوگ حصول علم کے لیے ہندوستان کا رخ کرتے تھے اور ہندوستان کی تہذیبی ترقی کی بدولت تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کی یہ تمام تر ترقی اسلام کے نظریہ تعلیم کی بنیاد پر تھی۔تاریخ کی اکثر کتب میں مسلم ہندوستان کی تعلیمی درسگاہوں اور ان کے نظام تعلیم کے بارے میں بہت کم مواد ملتا ہے۔محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان اور مصر کے درمیان تعلقات عروج پر تھے ، اسی دور کا ایک مصری سیاح اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ صرف دلی میں ایک ہزار مدرسے تھے جن میں ایک شافعی اور باقی سب حنفی تھے۔ ایک یورپی سیاح کپتان الگزنڈر ہملٹن اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ٹھٹھہ میں مختلف علوم و فنون کے چار سو سے زائد مدارس تھے۔مسلمان اپنے مذہبی ذوق کی بنا پر تعلیم و تعلم کو لازم اور درسگاہوں کے قیام اورعلماء و طلباء کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ بادشاہ اکبر نے اپنے تمام صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جا ری کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو علم وہنر کی اشاعت کرتے رہیں تاکہ اہل کمال دنیا سے معدوم نہ ہو جائیں اور ان کی یاد گار صفحہ ہستی پر باقی رہے۔ قدیم ہندوستان میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا اندازیہ تھا کہ تعلیم کے لیے الگ عمارتیں قائم نہیں کی جاتی تھیں بلکہ یہ کام مساجد سے لیا جاتا تھااور اس دور کی ہر مسجد بذات خود ایک درسگاہ ہوا کرتی تھی۔ مسجدوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے حجرے طلباء اور علماء کی رہائش کے کام آتے تھے۔ ایک اہم ذریعہ تعلیم خانقاہیں ہوا کرتی تھیں ، صوفیاء کرام تزکیہ نفس کے ساتھ مختلف علوم کی محفلیں سجاتے تھے۔ حکومتوں کی طرف سے خانقاہوں کو جو وظائف جاری کیے جاتے تھے وہ طلباء کی رہائش اور طعام پر خرچ ہوتے تھے۔
ڈاکٹر محمد شمیم قاسمی نے اپنی کتاب ‘ہندوستان میں مسلمانوں کا تعلیمی نظام’ میں ہندوستان کے تاریخی تناظر میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھے تو انہوں نے اس کی تعمیر و ترقی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، انہوں نے ما قبل حملہ آوروں کی طرح اس کو کنگال اور برباد نہیں کیا بلکہ اسے اپنا وطن سمجھ کر اس کی تعمیر و ترقی میں جٹ گئے۔ ہندوستان شروع سے ہی ایک تکثیریت زدہ معاشرہ رہا ہے، گوتم بدھ کے زمانے میں ہندوؤں میں ذات پات کا سسٹم عروج پر تھا ، نچلی ذاتوں کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا تھا ، گوتم بدھ کا ظہور ہندومذہب میں حد سے بڑھی ہوئی طبقاتی تقسیم کا ہی رد عمل تھا ، اگرچہ گوتم بدھ کی تعلیمات سے اس میں بہتری آئی مگر کچھ ہی عرصے بعد وہی برائیاں ہندوستانی سماج میں د وبارہ لوٹ آئیں۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ایسا ہرگز نہیں ہوا ، چھوٹی بڑی تمام ذاتوں اور برادریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ، ریاست کے تمام شہریوں کو ہر طرح کی مذہبی و سیاسی آذادی حاصل تھی۔کسی طبقہ و ذات پر بے جا پابندیاں نہیں لگائی گئیں ،اسلامی عہد کے ہندوستان کا سب سے خوبصورت کارنامہ یہ تھا کہ تمام شہریوں کو حصول علم کی یکساں آزادی حاصل تھی ، کسی مذہب یا فرقے پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی عہد کے ہندوستان میں شرح خوانداگی تاریخ کے مختلف ادوار میں سب سے زیادہ رہی اور اس کی سند ہمیں تاریخ کے مختلف ادورا میں لکھے گئے ہندوستان کے سفر ناموں سے ملتی ہے۔جو نو مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے ان کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام و انصرام کیا جاتا تھا۔ صاحب حیثیت مسلمان اپنے طور پر لائبریریاں اور درسگاہیں قائم کرتے تھے اور لوگ دور دراز سے تحصیل علم کے لیے ان درسگاہوں کا رخ کرتے تھے۔مسلمانوں کے دور عروج میں پورا ہندوستان تعلیم و تعلم کا مرکز ہوا کرتا تھا ، کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں مختلف علوم و فنون کے ماہرین موجود نہ ہوں۔ یہ اہل علم اپنے فن میں کمال رکھتے تھے اور ان کی شہرت نزدیکی بلادو امصار تک پھیلی ہوتی تھی۔بسا اوقات قریبی ممالک سے ان اہل علم کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ ان علاقوں میں آ کر علوم وفنون کے چراغ روشن کریں۔
تعلیم اور تعلیمی نظام کو مسلم حکم رانوں نے جس توجہ کے ساتھ پروان چڑھایا اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی ایک بڑی اکثریت تعلیم یافتہ ہوئی تھی اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا ہے جو عموماً مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد ،مسلم حکم رانوں کی طرز حکومت اور ان کی کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ سے آیا ہے۔لیکن مارچ2023یہ بیان موہن بھاگوت کی جانب سے سامنے آیا تھا۔ انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق موہن بھاگوت نے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں ایک ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ’برطانوی راج سے پہلے ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی تعلیم یافتہ تھی اور بے روزگاری نہیں تھی جبکہ انگلینڈ میں صرف 17 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی ماڈل کو یہاں نافذ کیا اور ہمارے ماڈل کو اپنے ملک میں نافذ کیا۔ اس لیے انگلستان میں 70 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے جبکہ ہندوستان میں اس کی آبادی کا صرف 17 فیصد تعلیم یافتہ رہ گیا۔بھاگوت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ برطانوی راج سے قبل ہندوستان میں ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں تھا کیونکہ ہندوستان کا تعلیمی نظام لوگوں کو خود پر انحصار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور مصنف پروفیسر پروشوتم اگروال بی بی سی کے نمائندے نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت کی اس بات میں قدرے صداقت ہے اور سب سے اہم بات ہے کہ انھوں نے بالآخر یہ تسلیم کیا کہ برطانوی راج سے پہلے مغل حکومت کا نظام اچھا تھا اور جیسا عام طور پر بیانیہ دیا جاتا رہا ہے کہ مغل حکمراں ظالم و جابر تھے تو یہ بیان اس کی نفی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ بات سچ ہے کہ انڈیا میں بنیادی تعلیمی نظام کا مضبوط ڈھانچہ موجود تھا اور مکتب اور مدارس تھے، جن میں صرف مذہبی تعلیم نہیں بلکہ سیکولر تعلیم بھی دی جاتی تھی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’تاریخ دانوں اور ماہر معاشیات نے یہ ثابت کر دیا کہ انگریزوں سے قبل مغل بادشاہ اورنگ زیب کی موت کے وقت ہندوستان کا جی ڈی پی دنیا کے جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا جو کہ برطانوی راج کے اختتام پر کم ہو کر صرف چار فیصد رہ گیا۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ نظام اچھا تھا اور خوشحالی تھی۔اس دور میں دنیا بھر کی 25 فیصد پیداوار ہندوستان میں ہوتی تھی اور لوگ بے روزگار نہیں تھے۔وہیں دوسری طرف دلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری نے عہد وسطی میں تعلیم پر کئی مضامین لکھے ہیں۔پروفیسر جعفری نے کہا کہ انہوں نے ’بنگال میں تعلیم‘ کے عنوان پر اپنے مضمون میں ہنٹر کمیشن (1882) کے سربراہ ولیم ولسن ہنٹر کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے کہا تھا کہ ’کس طرح بنگال میں مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو ختم کیا گیا۔ چار پانچ سو سال پرانے تعلیمی اداروں کو ختم کیا گیا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کا نظام مکتب مدرسے کے علاوہ خانقاہوں میں بھی تھا، جہاں لوگ پڑھنے جایا کرتے تھے۔دہلی یونیورسٹی کے شبعہ تعلیم بالغاں میں ریسرچ سکالر رادھیکا کپور نے ’عہد وسطیٰ میں تعلیم‘ کے عنوان پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں نظام تعلیم بنیادی طور پر اسلامی اور مغل نظام پر مرکوز تھا۔ نئی سماجی حقیقتیں، خاص طور پر تعلیم کی جمہوریت، علمی معاشرے کے ظہور اور عالمگیریت کے درمیان میل ملاپ نے تمام معاشروں کے تعلیمی عمل پر بڑا اثر ڈالاہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ ’قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں تعلیم کا بنیادی مقصد طلبا کی تربیت کرنا تھا تاکہ ان میں تمام اہم شعبوں کے حوالے سے بیداری پیدا ہو سکے اور اخلاقی اور اخلاقیات کے خصائل کو ابھارا جا سکے۔ تعلیم کا آغاز ’بسم اللہ‘ نامی تقریب سے ہوتا تھا۔ابتدائی سطح کے طلبا کو ریاضی، حساب، وزن، پیمائش، اشکال وغیرہ کے حوالے سے تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے لیے ریاضی کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ادب ایک اور موضوع تھا جس پر توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر مضامین جو تعلیمی اداروں میں پڑھائے جاتے تھے، ان میں سائنس، سماجی سائنس، فلکیات، حساب، پبلک ایڈمنسٹریشن اور مذہبی تعلیم شامل تھی۔
حوالہ جات کی بات کی جائے تو بہت سے حوالے،کتب اور ریسرچ پیپر ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی نظام سے متعلق ملیں گے لیکن یہاں جو نکتہ پیش نظر ہے وہ یہ کہ مسلمانوں نے ایک وقت تک جبکہ وہ ملک پرحکومت کررہے تھے بے شمار اصلاحات انجام دیں وہیں دوسری جانب ملک میں ایک ایسا نظام قائم کیا جس میں تمام مذاہب و نظریات کے حاملین کو زندگی گزارنا اور اس ترقی کی منزلیں طے کرنا آسان ہو گیا۔لیکن وقت اور حالات کے اتار چڑھاؤ اور حکومت کی باگ دوڑ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد وقتاً فوقتاًان پر جو حملے کیے گئے انہوں نے اور خود مسلمانوں کی کمزوریوں کے سبب وہ پیچھے ہوتے گئے۔پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جبکہ وہ مقصد وجود سے ہی ناآشنا ہوگئے۔اس کے باوجود تعلیمی نظام اور تعلیمی نظریات کے فروغ میں انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور مختلف تعلیمی افکار ونظریات پروان چڑھے جس کے نتیجہ میں جدید ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں اور اسے درست سمت کی طرف پیش رفت کرنے میں مددحاصل ہوئی۔ اگلے چند شماروں میں ہماری کوشش ہوگی ہندوستان میں رائج الوقت نظام تعلیم اور اس میں کی جانے والی اصلاحات کے پیش ہندستانی سماج پر پڑنے والے مثبت اثرات کو واضح کیا جائے۔تاکہ نہ صرف ماضی بلکہ حال اور مستقبل میں بھی رائج الوقت تعلیمی نظام پر گفتگو آگے بڑھے اور بہتری کے امکانات تلاش کیے جاسکیں۔ساتھ ہی کوشش ہوگی کہ تعلیمی اصلاحات کے عمل کو اس طرح سامنے لایا جائے تاکہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے، نصاب تعلیم کو معلوم و مستند حقائق پر استوار کرنے اور درسیات میں آفاقی واخلاقی قدروں کو شامل کرانے کی جوکوششیں ملک میں ہورہی ہیں وہ سامنے آئیں تاکہ کسی بھی طبقے کا مذہبی تشخص مجروح نہ ہو۔ساتھ ہی دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے پیش نظر اس کے استعمالات کے سلسلے میں جو مسلمہ اصول و اخلاقیات موجود ہیں وہ بھی سامنے آئیں۔دوسری جانب ہندوستان میں نظریاتی تحریکات جو فی الوقت جاری ہیں وہ نظام تعلیم میں کن تبدیلیوں کے لیے کوشاں ہیں، انہیں سامنے لایا جائے اور اس کے نتیجہ میں مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینا ممکن ہو۔
maiqbaldelhi.blogspot.com
***

 

***

 اسلامی عہد کا ہندوستان خوشحال اور ترقی یافتہ تھا ، قرب و جوار کے خطوں سے لوگ حصول علم کے لیے ہندوستان کا رخ کرتے تھے اور ہندوستان کی تہذیبی ترقی کی بدولت تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کی یہ تمام تر ترقی اسلام کے نظریہ تعلیم کی بنیاد پر تھی۔تاریخ کی اکثر کتب میں مسلم ہندوستان کی تعلیمی درسگاہوں اور ان کے نظام تعلیم کے بارے میں بہت کم مواد ملتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024