تعلیم، معیشت، سیاست :ہر محاذ پر بیداری کی ضرورت

مسائل کی زنجیر توڑنے کے لیے اہم شعبوں میں طویل مدتی جدوجہد درکار

0

محمد مجیب الاعلیٰ

بہار میں ایس آئی آر ، ووٹ چھیننے کی چال !۔ نفاذکی صورت میں اپوزیشن الیکشن کا بائکاٹ کرے ۔ جناب ملک معتصم خاں سے انٹرویو
’’اہل غزہ کی مزاحمت سے اسرائیل پوری طرح بے نقاب ۔جو فلسطین کے ساتھ ہے وہ انسانیت کے ساتھ ہے‘‘
بھارت کی مسلم کمیونٹی سنگین مسائل سے دوچار ہے، ان میں دینی تربیت کی کمی، تعلیمی پسماندگی، معاشی کمزوری اور فرقہ پرستی شامل ہیں۔ لیکن ان سب مسائل کی ایک وجہ سیاسی خود اختیاری (Political Empowerment) کا نہ ہونا بھی ہے۔ اگر بامعنی سیاسی شمولیت کا مسئلہ حل ہو جائے تو دیگر بہت سے مسائل کے حل کا راستہ بڑی حد تک راہ ہموار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا مسلم کمیونٹی کو اس سمت میں مؤثر حکمت عملی کے ساتھ منظم اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مقامی سطح سے مسائل پر مرکوز سیاست میں فعال شرکت، پالیسی سازی کی سمجھ اور ووٹنگ کے شعور کو فروغ دے کر سیاسی نمائندگی کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناب ملک معتصم خاں نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے ہفت روزہ دعوت کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ اس خاص بات چیت میں انہوں نے ملت اسلامیہ ہند کو درپیش اہم مسائل، ملکی سیاست اور اہل فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے کیے گئے سوالات کے جوابات دیے جو قارئین دعوت کی خدمت میں پیش ہیں:
موجودہ حالات میں بھارت کی مسلم کمیونٹی کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجز پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:ملک میں مسلمانوں کے مسائل کی نوعیت دو طرح کی ہے۔ ایک وہ جو طویل المدت اور مستقل ہے اور دوسرے وہ جو وقتی حالات اور سیاسی ماحول کے زیرِ اثر پیدا ہوتی ہے۔ طویل المدت مسائل میں سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ تعلیم کا ہے، دوسرا معیشت کا، تیسرا دینی و اخلاقی تربیت کا اور چوتھا سیاست میں بامعنی شمولیت کا۔
موجودہ دور میں ان دیرپا مسائل کے ساتھ ایک اضافی بڑا مسئلہ فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کا بھی ہے۔ گاؤ کشی کے بہانے تشدد، لنچنگ، وقف املاک پر قبضے، متنازع قانون سازی اور دیگر نفرت انگیز اقدامات مسلمانوں میں مستقل عدم تحفظ کے احساس اور مایوسی کو جنم دیتے ہیں جو نہ صرف ان کی کارکردگی بلکہ ان کے مستقبل کے منصوبوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ کچھ مسائل مسلمانوں کے اختیار میں نہیں ہیں جیسے نفرت کی سیاست۔ لیکن تعلیم، معیشت، دینی و اخلاقی تربیت اور سب سے بڑھ کر سیاسی بیداری ایسے شعبے ہیں جن پر ہم خود محنت کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، بامعنی سیاسی حصہ داری کا نہ ہونا ایک بنیادی مسئلہ ہے، کیوں کہ اگر سیاسی امپاورمنٹ حاصل ہو جائے تو تعلیم، معیشت اور دیگر کئی مسائل کے حل کی راہ نسبتاً آسان ہو سکتی ہے۔ سیاسی نمائندگی کا فقدان نہ صرف پالیسی سازی میں مسلمانوں کی آواز کو کمزور کرتا ہے بلکہ وسائل اور مواقع کی تقسیم میں بھی ان کے حق کو محدود کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کل کو فرقہ وارانہ سیاست ختم بھی ہو جائے، لیکن یہ چاروں شعبے—خاص طور پر سیاسی نمائندگی —مضبوط نہ ہو تو حالات میں حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہو گی۔
اس سوال پر کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی کمیونٹی کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے بھارت میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت نہایت تشویشناک ہے۔ اسکولوں میں داخلوں کی شرح کم ہے، ڈراپ آؤٹ ریٹ زیادہ ہے اور معیاری تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ دیہی علاقوں میں تو یہ صورتِ حال اور بھی خراب ہے جہاں تعلیمی ادارے کم اور وسائل ناکافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس پسماندگی کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ غربت اور گھریلو حالات کی مجبوری، بچوں کو اسکول سے زیادہ روزگار کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ والدین کی اپنی تعلیمی کمزوری بھی اولاد کی تعلیم کے بارے میں عدم دلچسپی پیدا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ سرکاری پالیسیوں میں عدم توجہی، اسکالرشپ اور تعلیمی اسکیموں تک محدود رسائی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اس صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کو اپنی سطح پر تعلیم کو اولین ترجیح دینا ہو گا۔ اس کے لیے مقامی سطح پر تعلیمی کمیٹیاں بنائی جائیں، اسکولوں میں حاضری یقینی بنائی جائے اور ضرورت مند طلبہ کے لیے کمیونٹی فنڈز قائم کیے جائیں۔ سرکاری اسکیموں اور اسکالرشپس سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔
اس سوال پر کہ آپ نے جن مسائل کی طرف نشان دہی کی ہے، ان پر برسوں سے گفتگو ہوتی آئی ہے، جماعت اسلامی ہند اور دیگر ملی تنظیمیں و ادارے بھی اس سمت میں کوشاں رہے ہیں، آپ کے خیال میں کیا اس میدان میں کوئی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اصل میں یہ ایک نہایت وسیع میدان ہے اور پسماندگی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ بڑے شہروں یا نسبتاً خوش حال علاقوں کی جھلک دیکھ کر اکثر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حالات بدل رہے ہیں اور بلاشبہ کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے مگر جب ہم پورے ملک، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ خطوں پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مجموعی صورتحال ابھی بھی تشویش ناک ہے اور کام بہت باقی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جماعتوں اور اداروں کی کوششوں سے ایک پلیٹ فارم تیار تو ہوا ہے۔ تعلیمی اداروں کا قیام اور کمیونٹی میں بیداری مہمات جیسے اقدامات نے سمت کا تعین تو کیا ہے لیکن یہ سفر کا آغاز ہے، منزل نہیں۔ اصل کامیابی تب ممکن ہوگی جب یہ کوششیں دیہی علاقوں میں گہرائی تک پہنچیں، مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ تسلسل سے چلیں اور تعلیم، معیشت اور سیاسی شمولیت کے شعبوں میں عملی اور نمایاں کارکردگی دکھائیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ تعلیم کا مسئلہ محض بنیادی خواندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اعلیٰ تعلیم، تحقیق اور مختلف شعبوں میں نمایاں کردار ادا کرنے تک وسیع ہے۔ مثال کے طور پر، جج بننے کے لیے پہلے بہترین وکیل بننا ضروری ہے اور یہ صرف مضبوط تعلیمی پس منظر سے ہی ممکن ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی میں شمولیت کے لیے محض ڈگری نہیں بلکہ اعلیٰ مسابقتی امتحانات میں کامیابی شرط ہے۔ مسلمانوں کی آئی اے ایس اور آئی پی ایس جیسے امتحانات میں شرکت تو ہو رہی ہے مگر ان کی تعداد اور کامیابی کی شرح دونوں میں نمایاں اضافہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
یہی معاملہ دیگر شعبوں کا بھی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے پاس کتنے پی ایچ ڈی ہولڈرز ہیں اور وہ کن میدانوں میں کام کر رہے ہیں—چاہے وہ ادب ہو، سوشیالوجی، سائنس، ٹیکنالوجی یا ڈیٹا اینالیسس۔ تعلیم کا اصل مقصد محض پڑھنا لکھنا نہیں ہے بلکہ ایسی علمی اور تحقیقی صلاحیت پیدا کرنا ہے جو قوم کو ہر میدان میں مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بنائے۔
انہوں نے مسلم خواتین کی تعلیم کو بھی اسی تناظر میں نہایت اہم قرار دیا۔ پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیم کے ساتھ تحقیقی میدان میں خواتین کی نمائندگی آج بھی کم ہے۔ ان کے مطابق، میڈیا اور جرنلزم جیسے اثر انگیز شعبوں میں بھی مسلمانوں کی موجودگی بڑھانا ناگزیر ہے، کیونکہ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جو رائے عامہ کو تشکیل دیتا ہے اور سماجی بیانیہ طے کرتا ہے۔
معاشی پہلو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو بھی صرف چند خوش حال شہروں کے بجائے پورے ملک کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے جیسے کہ بہار، آسام اور مغربی بنگال جیسے علاقوں میں مسلمانوں کی معاشی حالت نہایت کمزور ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے موثر سیاسی نمائندگی کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی سطح پر روزگار سے جوڑنے کی کوشش، ہنر سازی کے مراکز اور حصول روزگار کے لیے رہنمائی اور مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور مسلم مخالف نفرت کے بارے میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ موجودہ دور میں فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست ایک بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔ گاؤ کشی کے نام پر لنچنگ، مسلم املاک اور مساجد کی مسماری، وقف املاک پر قبضے اور مختلف بہانوں سے نفرت انگیز واقعات آئے دن سامنے آ رہے ہیں۔ اس کا گہرا اثر مسلمانوں کی ذہنی حالت پر پڑتا ہے، جس سے ایک مستقل عدم تحفظ اور مایوسی کا احساس جنم لیتا ہے، جو ان کی کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حوصلہ ہارے بغیر، صبر و حکمت کے ساتھ سماج کے انصاف پسند لوگوں کو ساتھ لے کر نفرت اور فرقہ واریت کے اس زہر کا مقابلہ کیا جائے۔
اس سوال پر کہ آپ نے اپنی ابتدائی گفتگو میں مسلم سیاسی امپاورمنٹ کا ذکر کیا، اس کا روڈ میاپ کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ مسلم سیاسی امپاورمنٹ سے ہماری مراد یہ ہے کہ مسلمان بطور ایک کمیونٹی سیاسی دھارے میں بامعنی اور مؤثر طریقے سے شامل ہوں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ ایک طویل اور محنت طلب عمل ہے۔ مسلمانوں کے سامنے سیاست کے میدان میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مثلاً ایک مسئلہ ڈی لیمیٹیشن کا ہے، یعنی مسلم اکثریتی علاقوں کو اس طرح حلقہ بندی کے ذریعے تقسیم کر دیا جاتا ہے کہ ان کا سیاسی اثر کمزور ہو جائے۔ اس کے علاوہ، ریزرویشن کا مسئلہ بھی ہے، جہاں ایسے حلقوں کو جہاں مسلمان کی اکثریت میں ہیں، ایس سی یا ایس ٹی کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے۔ ہم ریزرویشن کے اصول کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کی آڑ لے کر مسلمانوں کے سیاسی اثر کو کمزور کیا جاتا ہے جو کہ قابل تشویش امر ہے۔
ایک اور سنجیدہ چیلنج ووٹر لسٹ میں مسلمانوں کے ناموں کی عدم شمولیت یا بغیر اطلاع کے ان کا حذف کر دینا ہے، جو ان کی سیاسی شمولیت کو محدود کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں کم ووٹنگ کی شرح بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو ملک گیر مسئلے کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بھی نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ جو مسلمان اسمبلی یا پارلیمنٹ میں منتخب ہوتے ہیں کیا وہ واقعی مسلمانوں کے مؤثر نمائندے ہوتے ہیں؟ بہت سے لوگ بڑی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر جیت کر آتے ہیں مگر پارٹی لائن کی پابندی کے باعث مسلم مسائل پر مؤثر آواز بلند نہیں کر پاتے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ مسلمان نہ صرف اعلیٰ انتخابی سیاست میں حصہ لیں بلکہ گرام پنچایت، میونسپل کارپوریشن اور ریاستی و قومی سطح پر بھی اپنی نمائندگی کو مستحکم کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایشو بیسڈ پولیٹکس یعنی مختلف سماجی و سیاسی مسائل پر مبنی مہمات چلانا، پالیسی سازی کو سمجھنا اور انتخابی نظام کی باریکیاں جاننا بھی نہایت اہم ہے۔
یہ سب کچھ نچلی سطح سے شروع ہونا چاہیے۔ گرام پنچایت سے لے کر ریاستی اور قومی سطح تک، مسائل پر مبنی سیاست میں بھرپور شرکت، پالیسی سازی کی سوجھ بوجھ اور ووٹنگ کے شعور کو فروغ دینا ضروری ہے۔ یہی اقدامات سیاسی نمائندگی کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں اور اسی طویل مدتی جدوجہد کے نتیجے میں مسلم سیاسی امپاورمنٹ کی راہ ہموار ہوگی۔ اس کے لیے سب سے پہلے سیاسی بیداری کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ سیاسی بیداری کی کمی ہی دراصل سیاسی استحصال کا سبب بنتی ہے۔ جس طرح دینی بیداری نہ ہو تو مذہبی لوگ استحصال کرتے ہیں، اسی طرح سیاسی بیداری نہ ہو تو اس کا فائدہ خودنغرض سیاسی لیڈر اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا اس سے قطع نظر کہ سیاسی بیداری کا فائدہ کس جماعت کو پہنچتا ہے، یہ بیداری بہر حال ضروری ہے۔
ان دنوں بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) کے نام پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بہار کے بعد مغربی بنگال میں اور پھر سارے ملک میں یہ عمل دہرایا جائے گا۔ اسی پس منظر میں عوام سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے برتھ سرٹیفکیٹس، اسناد اور دیگر ضروری دستاویزات درست و محفوظ رکھیں۔ اس تعلق سے سوال پر نائب امیر جماعت اسلامی ہند، ملک معتصم خاں نے کہا کہ کاغذات تو ہمیشہ درست اور محفوظ رکھنا ہی چاہیے لیکن جہاں تک ایس آئی آر کا تعلق ہے، یہ بد نیتی پر مبنی اقدام ہے۔ اس لیے کہ نقل مکانی اور انتقال کر جانے والوں کے ناموں کو حذف کرنا تو ایک معمول کا عمل ہے لیکن عین الیکشن سے پہلے سبھی ووٹروں کو دوبارہ رجسٹریشن کروانے کا حکم دینا اور کمیاب دستاویزات پیش کرنے کے لیے کہنا ایک مشکوک عمل ہے۔ ویسے بھی شہریت کی جانچ الیکشن کمیشن کا کام ہی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل کام یہ ہے کہ وہ 18 سال کے نئے ووٹروں کا اندراج کرے، ہر شہری کے حقِ رائے دہی کے استعمال کو سہولت بخش بنائے اور سارے انتخابی عمل میں انتہائی شفافیت برتے۔ اس کے بر عکس بہار میں انتخابات سے پہلے اچانک ایس آئی آر کے تحت 65 لاکھ سے زائد ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کر دیے گئے ہیں۔ بہار کے 2020 کے اسمبلی انتخابات میں 122 حلقے ایسے تھے جہاں جیت اور ہار کا فرق صرف 500 سے 15 ہزار ووٹوں کے درمیان رہا تھا۔ ہمارے سامنے حلقہ وار تفصیلی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اگر بہار کے 243 حلقوں کی بنیاد پر اوسط نکالا جائے تو فی حلقہ 26,749 ووٹ حذف کیے گئے ہیں جبکہ مسلم اکثریتی حلقوں میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسی سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ووٹر لسٹوں سے ناموں کو حذف کرنے کا عمل حکم راں جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ نیز ایسی کوششیں ہو رہی ہیں کہ مستقبل میں اپوزیشن پارٹیوں کی جیت کے امکانات ہی ختم کر دیے جائیں۔ اس لیے اپوزیشن پارٹیاں اگر اپنی اور جمہوریت کی بقا چاہتی ہیں تو وہ ایسا ہرگز نہ ہونے دیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کا الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہے گا، لہٰذا انہیں الیکشن کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔
ملک میں نظام انصاف کا استعمال سیاسی مخالفین کے خلاف سزا کے طور پر ہونے لگا ہے، بہت سے جہدکاروں کو ضمانت نہیں مل رہی ہے۔ اس تعلق سے سوال پر جناب ملک معتصم خاں نے کہا کہ یہ ایک اور تشویش ناک بات ہے لیکن ہم کو سمجھنا ہوگا کہ ججس بھی اسی سماج سے آتے ہیں اور سماج میں جو چل رہا ہوتا ہے اسی کا عکس ان کے فیصلوں میں نظر آتا ہے۔ حالانکہ عدلیہ کو جمہوریت کا ستون اور ایک آزاد آئینی ادارہ ہونے کے ناطے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر اور حکومت کے دباو آ کر فیصلے سنانے کے بجائے آئین کے تابع رہ کر انصاف کو یقینی بنانا چاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد برقرار رہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر کیا باقی رہ جائے گا؟ انہوں نے مالیگاوں بم دھماکہ کیس میں ملزمین کی برأت پر تاسف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس جب ہیمنت کرکرے کی قیادت میں مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سپرد کیا گیا تھا تو تحقیقات کا رخ متعین ہوگیا تھا لیکن بعد میں اسے این آئی اے کے سپرد کر کے ٹھوس شواہد پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے کمزور کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے متنازعہ وقف قانون سے متعلق مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جبکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے جاری ملک گیر احتجاج کی شدت بھی واضح طور پر کم ہو گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں آگے کے امکانات کیا ہیں؟ اس سوال پر جناب ملک معتصم خاں نے کہا کہ اصل میں سپریم کورٹ اس قانون کے بعض جزئیات پر بات کر رہا ہے جیسے وقف بائی یوزر، وقف بورڈوں میں غیر مسلم نمائندوں کی شمولیت اور کلکٹروں کو اختیار کا دیا جانا، لہٰذا اس حد تک تو کچھ راحت مل سکتی ہے لیکن یہ جو پورا قانون ہے جسے ترمیم کے نام پر لایا گیا ہے، اس کا سارا ڈھانچہ ہی مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے پورے قانون سے مکمل دستبرداری تک احتجاج جاری رہنا چاہیے۔
غزہ کی المناک صورتحال پر امریکہ، آسٹریلیا اور فرانس جیسے ملکوں میں بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے لیکن بھارت میں یہ مظاہرے نسبتاً محدود رہے، کیا اس کے پیچھے حکومت کا خوف کار فرما ہے؟ اس سوال کا جوب دیتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ہمارے پاس بعض بڑے شہروں میں احتجاج ہوئے ہیں لیکن بحیثت مجموعی یہ المیہ جتنا بڑا ہے، اس لحاظ سے لوگوں کو متحرک نہیں کیا جاسکا۔ اس معاملے میں کمی ہوئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ حکومت فلسطینی کاز کی حمایت میں بھارت کے تاریخی موقف کے باوجود اس مسئلے پر احتجاج کو پسند نہیں کرتی، جس کا اثر شاید عوام اور تنظیموں دونوں پر پڑا ہے۔ لیکن جہاں تک جماعت اسلامی ہند کا تعلق ہے وہ اس مسئلے پر احتجاج کرتی رہی ہے اور آگے بھی کرے گی۔ حالیہ دنوں میں جماعت نے دارالحکومت میں مختلف جماعتوں و تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔ دلی میں جماعت کے اعلیٰ سطحی وفود نے مختلف ممالک کے سفارت خانوں پر سفیروں سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات پیش کیے۔ اس مسئلہ پر ہم وزیر خارجہ ہند سے بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔
جنگ جاری رہنے کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں حالات کہاں جاکر رکیں گے؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ جنگ یکطرفہ طور پر جاری ہے، اس میں کوئی فریق نہیں ہے کہ جس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہو۔ غزہ کے لوگ تو بد ترین حملوں کے باوجود جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے مزاحمت پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس لیے مظلوموں سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنا بجائے خود غلط ہے۔ جنگ تو اسرائیل نے شروع کی ہے اور اسی کو بند کرنا پڑے گا۔ بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ جنگ حماس نے شروع کی ہے۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ اصل میں یہ مسئلہ 1948 سے شروع ہوا ہے جب اسرائیل نے فلسطین سے فلسطینیوں کو بے دخل کرتے ہوئے دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو لا کر بسانا شروع کیا۔ فلسطینی اس وقت سے آج تک قابض و جابر صیہونی ریاست کا ظلم و جبر سہ رہے ہیں۔ اس تناظر میں انصاف و معقولیت پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ 7؍ اکتوبر کو حماس کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کو مزاحمت کے طور پر دیکھا جائے کیونکہ دنیا کا یہ معروف اصول ہے کہ آپ کی سر زمین پر اگر کوئی قبضہ کرے تو آپ کو مدافعت کا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوچ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر حماس نے 7؍ اکتوبر کو کارروائی نہ کی ہوتی تو یہ جنگ نہ ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ دراصل یہ جنگ غزہ جیت چکا ہے۔ اہل غزہ کی یہ مزاحمت اسرائیل کے ناپاک عزائم اور اس کے اصل چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر چکی ہے۔ جو لوگ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں وہ دراصل انصاف اور انسانیت کے ساتھ ہیں اور جو اسرائیل کے حامی ہیں وہ دراصل ظلم اور سفاکی کے حامی ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا مسلم نوجوانوں میں تعلیم، روزگار اور سیاسی شعور کے حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جہاں سنجیدہ اور مربوط انداز میں کام ہوا ہے، وہاں بیداری دکھائی دیتی ہے مگر یہ پیش رفت ابھی چند حلقوں تک محدود ہے اور مجموعی طور پر مطلوبہ معیار سے کم ہی ہے۔ اصل میں بیداری لانے اور اسے حقیقی قوت میں ڈھالنے کے لیے مسلسل، منظم اور ہمہ جہت جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ملی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور با شعور سیاسی کارکنوں کو ایک طویل المدت، عملی اور جامع حکمتِ عملی پر کام کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں زیادہ تعلیم یافتہ، پر اعتماد اور قوم و ملت کے لیے زیادہ با فیض کردار ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔
گفتگو کے اختتام پر جناب ملک معتصم خاں نے قارئین دعوت کے نام اپنے پیام میں کہا کہ ’’بیدار رہیں اور لوگوں کو بیدار کریں کیوں کہ دینی بیداری کے ساتھ ساتھ تعلیمی، معاشی، سماجی، سیاسی — الغرض ہر سطح پر بیداری وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

***

 کچھ مسائل مسلمانوں کے براہِ راست اختیار میں نہیں ہیں، جیسے نفرت کی سیاست، لیکن تعلیم، معیشت، دینی و اخلاقی تربیت اور سب سے بڑھ کر سیاسی بیداری ایسے شعبے ہیں جن پر ہم خود محنت کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق، بامعنی سیاسی حصہ داری کا نہ ہونا ایک کلیدی مسئلہ ہے، کیونکہ اگر سیاسی امپارمنٹ حاصل ہو جائے تو تعلیم، معیشت اور دیگر کئی مسائل کے حل کی راہ نسبتاً آسان ہو سکتی ہے۔ سیاسی نمائندگی کا فقدان نہ صرف پالیسی سازی میں مسلمانوں کی آواز کو کمزور کرتا ہے بلکہ وسائل اور مواقع کی تقسیم میں بھی ان کے حق کو محدود کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کل کو فرقہ وارانہ سیاست ختم بھی ہو جائے، لیکن یہ چاروں شعبے—خاص طور پر سیاسی نمائندگی —مضبوط نہ ہو تو حالات میں حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہو گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
holiganbet
casibom
marsbahis giri?
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
Adana Escort
roketbet
galabet
betoffice
maksibet
betzula
meritking
?sparta escort?sparta escort?sparta escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort