طالبان دور اقتدار میں افغانستان ترقی کی راہ پر گامزن
افغانی کرنسی نے برصغیر پاک و ہند کی کرنسیوں کو پیچھے چھوڑ دیا!
(دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
ڈالر کے مقابلے میں افغانی کرنسی کی حیثیت دیگر ممالک کی طرح کم نہیں ہوئی ہے
اگست 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے دفع ہو جانے کے بعد گزشتہ دو سالوں میں افغان معیشت حیران کن طریقے سے ترقی کررہی ہے۔ طالبان کے زیر انتظام افغانستان نے اپنی کرنسی افغانی کے ساتھ ناقابل یقین طور پر برصغیر پاک و ہند کے ممالک بشمول ایران و دیگر کرنسیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، حتی کہ افغانی اور ہندوستان کی کرنسی کے مابین معمولی سا فرق رہ گیا ہے۔ جبکہ افغانی کرنسی بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا اور ایران کی کرنسیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط کرنسی بن چکی ہے۔ یہ سب ان حالات میں ہوا جبکہ تمام غیر ملکی امداد روک دی گئی ہے، افغانستان پر مختلف پابندیاں عائد ہیں، یہاں تک کہ مغرب کی طرف سے ان کے 8 بلین امریکی ڈالر اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، اس کے باوجود طالبان اپنی معیشت کو بہتر طریقے سے سنبھال رہے ہیں۔ اور یہ اس افغانستان کا حال ہے جسے دنیا بھر کی بڑی بڑی طاقتیں آپس میں مل کر مسلسل بیس سال تک روندتے رہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں افغان کرنسی کا استحکام غذائی اشیاء کی قیمتوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات سیار قریشی کہتے ہیں: "ڈالر کی قیمت میں کمی اور افغانی کے استحکام نے درآمد کی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی پر مثبت اثر ڈالا ہے”۔ افغان کرنسی اس لیے مضبوط ہے کیونکہ افغانستان پھل اور قیمتی سامان برآمد کرتا ہے جبکہ درآمدات بہت کم ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں لوہا سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ لوہے کے کل ذخائر کا تخمینہ 2.2 بلین میٹرک ٹن ہے، جس سے افغانستان کو لوہا نکالنے کے قابل سرفہرست 10 ممالک میں شامل کیا جاتا ہے۔ دریں اثنا، افغانستان میں 1,400 سے زائد معدنی شعبے ہیں، جن میں بارائٹ، کرومائیٹ، کوئلہ، تانبا، سونا، لوہا، سیسہ، قدرتی گیس، پیٹرولیم، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر، نمک، سلفر، لیتھیم، ٹیلک اور زنک شامل ہیں۔ دیگر معدنیات قیمتی پتھروں میں اعلیٰ قسم کے زمرد، لاپیس لازولی، سرخ گارنیٹ اور روبی شامل ہیں۔
طلوع نیوز کی نمائندہ بی بی آمنہ حکیمی کے مطابق، عالمی ادارہ خوراک (WFO) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ افغان کرنسی کا استحکام جنوری اور مارچ 2022 کے درمیان اس وقت شروع ہوا جب اقوام متحدہ کی نقدی کی ترسیل شروع ہوئی، اور ملک کے ڈی فیکٹو حکام نے غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی برآمد پر سخت کنٹرول کیا اور افغانی کو مضبوط کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے AFN کو معیشت کے لیے ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ قیمتوں کو مستحکم کرنے اور گھریلو قوت خرید کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔‘
مرکزی بینک کے ترجمان حسیب اللہ نوری نے کہا کہ ’برآمدات کی ترقی، حکومتی امور میں اضافی اخراجات کی روک تھام، شفافیت اور مالیاتی پالیسیوں کا نفاذ غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں افغانی کرنسی کے استحکام کا باعث بنا ہے۔ نیز سنٹرل بینک نے اس سے قبل کہا تھا کہ افغانستان کو ان 9 ممالک میں شامل کیا گیا ہے جن کی کرنسی مستحکم ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ 15 اگست 2021 کو طالبان نے افغانستان میں دوبارہ خود مختاری حاصل کر لی تھی۔ امریکہ سمیت بین الاقوامی معاشرے نے نئی قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی معاشرہ طالبان انتظامیہ پر پابندیاں لگا رہا ہے۔ اس لحاظ سے امریکہ نے افغانستان کے قومی ذخائر کو روک دیا ہے۔ موجودہ حالات میں ریاستیں سرکاری معاہدے نہیں کرتیں کیونکہ وہ طالبان کو تسلیم نہیں کرتیں۔ غیر ملکی کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ خشک سالی اور قدرتی آفات کی وجہ سے ملک میں مسائل مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود افغانستان کی قومی کرنسی ’افغانی‘ کی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں خاص طور پر ڈالر کے مقابلے میں خاصی مستحکم ہے اور ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 87 افغانی ہو گئی ہے اور مائل بہ ترقی ہے اور مزید مضبوط ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ دوسرے طالبانی دور کے آغاز میں ایک امریکی ڈالر تقریباً 80 افغانی کے برابر تھا۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس افغان قومی کرنسی کی قدر میں کچھ زیادہ کمی نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گر رہا ہے۔
غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں افغانی کی قدر برقرار رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے پہلی وجہ عالمی برادری کی طرف سے انسانی امداد کے طور پر بھیجی جانے والی بڑی رقم ہے۔ سنٹرل بینک آف افغانستان کے اعداد و شمار کے مطابق اگست 2021 سے اب تک عالمی برادری نے تقریباً 1.3 بلین ڈالر کی انسانی امداد بھیجی ہے۔ یہ رقم پہلے بین الاقوامی بینک آف افغانستان (AUB) میں داخل ہوتی ہے اور پھر اسے افغان رقم میں تبدیل کیا جاتا ہے اور افغان عوام میں براہ راست یا خوراک اور کپڑے خرید کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹام ویسٹ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک افغانستان کو 1.1 بلین ڈالر کی انسانی امداد بھیج رہا ہے۔ خاص طور پر جب واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ بین الاقوامی تنظیمیں اور غیر سرکاری تنظیمیں افغانستان کے لیے انسانی امداد پر پابندیاں نہیں لگائیں گی، بہت سی تنظیموں نے ایک بار پھر افغانستان کو امداد بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی برادری نے اوسطاً 40 ملین ڈالر فی ہفتہ افغانستان کو بھیجی ہے۔ اس اقدام سے ملک کو اپنی کرنسی مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ طالبان کرنسی چھاپنے سے گریز کرتے ہیں۔ افغانستان کے مرکزی بینک نے گزشتہ دو سالوں میں کرنسی نہیں چھاپی ہے کیونکہ جب un-backed money پرنٹ ہوں گے تو ڈالر کی قیمت بڑھ جائے گی۔ طالبان مارکیٹ میں افغانی کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مارکیٹ میں افغانی کی کمی ہے اس لیے طالبان پرانی کرنسی کے استعمال پر مجبور ہیں۔
حالیہ دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں افغان کرنسی کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات بھی ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے اس اعلان سے کہ وہ افغانستان میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ملک کے قومی ذخائر میں سے 3.5 بلین ڈالر سوئٹزرلینڈ میں قائم افغان فنڈ میں منتقل کرے گا، افغان کرنسی کو مزید تقویت ملی۔
افغان فنڈ کے قیام اور امریکہ و طالبان کے درمیان ملاقات نے یہ تاثر پیدا کیا کہ فریقین ایک دوسرے سے زیادہ حقیقت پسندانہ ربط قائم کر سکتے ہیں اور افغان مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کر سکتے ہیں۔ واشنگٹن انتظامیہ کے مطابق اگرچہ طالبان پورے ملک پر حاکم ہیں لیکن وہ افغانستان کے مسائل اکیلے حل نہیں کر سکتے۔ طالبان کے لیے امریکا دنیا کا سپر پاور ہے اور واشنگٹن کے ساتھ مفاہمت کے بغیر تسلیم کے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں نقاط نظر نے فریقین کو مذاکرات پر مجبور کر دیا ہے، جس کا افغان مارکیٹ پر مثبت اثر پڑا اور افغان کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے افغانستان کی کرنسی خود کو مضبوط بنا رہی ہے۔
***
***
افغان کرنسی اس لیے مضبوط ہے کیونکہ افغانستان پھل اور قیمتی سامان برآمد کرتا ہے جبکہ درآمدات بہت کم ہیں۔ افغانستان میں لوہا سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ لوہے کے کل ذخائر کا تخمینہ 2.2 بلین میٹرک ٹن ہے، جس سے افغانستان کو لوہا نکالنے کے قابل سرفہرست 10 ممالک میں شامل کیا جاتا ہے۔ دریں اثنا، افغانستان میں 1,400 سے زائد معدنی شعبے ہیں، جن میں بارائٹ، کرومائیٹ، کوئلہ، تانبا، سونا، لوہا، سیسہ، قدرتی گیس، پیٹرولیم، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر، نمک، سلفر، لیتھیم، ٹیلک اور زنک شامل ہیں۔ دیگر معدنیات قیمتی پتھروں میں اعلیٰ قسم کے زمرد، لاپیس لازولی، سرخ گارنیٹ اور روبی شامل ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023