تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

معاشی طور پر مستحکم نہ رہنے کے باوجود عزم و ہمت سے کا م لیااور آخر کار جج گئیں

ابو حرم ابن ایاز عمری

مالیر کوٹلہ (پنجاب) میں ٹرک ڈرائیور کی بیٹی بنی پہلی مسلم خاتون جج
پنجاب کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرک ڈرائیور کی بیٹی گلفام سید نے پنجاب سول سروسز (عدلیہ) کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے مسلم اکثریتی قصبے مالیر کوٹلہ سے پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ اب انہیں سول جج یا جوڈیشل مجسٹریٹ کے طور پر مقرر کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ حصول تعلیم ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔ اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کرکے اپنا اور اپنے والدین کا نام روشن کرنے کی خواہش  کم و بیش ہر طالب علم میں ہوتی ہے لیکن اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے جو ہمت، لگن اور حوصلہ درکار ہے وہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ جس کے پاس مضبوط ارادوں کی طاقت اور کچھ کر دکھانے کا عزم و ارادہ ہوتا ہے وہ زندگی میں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بلکہ صرف اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہدف کو متعین کرکے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نتیجے میں کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ پنجاب کے مالیر کوٹلہ سے تعلق رکھنے والی گلفام سید اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔
آج سے اٹھائیس سال پہلے مالیرکوٹلہ کے بارہ دری کے رہائشی طالب حسین کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے گلفام سید رکھا۔ اسی وقت سے ان کے ذہن میں یہ خواہش پروان چڑھ رہی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو ایک وکیل کے روپ میں دیکھیں جو مظلوموں کو انصاف دلائے گی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
گلفام سید نے اپنی ابتدائی تعلیم درسگاہ اسلامیہ گرلز اسکول میں حاصل کی۔ اسی دوران ان کے والد نے اپنی بیٹی کے سامنے دلی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی ایک وکیل بنے۔چنانچہ فرماں بردار بیٹی نے وہی کیا جو اس کے والد کی خواہش تھی۔ اس نے سخت محنت کرنی شروع کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گلفام نے پٹیالہ میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور قانون کی تعلیم مکمل کرکے وکالت کی ڈگری حاصل کرلی۔ جب وہ وکیل بن گئیں تب گلفام نے اپنے والد سے کہا کہ ’’آپ کی خواہش کے مطابق میں وکیل تو بن چکی ہوں لیکن میں اب جج بن کر ملک و ملت کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘‘ بیٹی کی بات سن کر طالب حسین نے خوشی کا اظہار کیا اور بیٹی کی ہمت افزائی کی۔ جج بننے کے لیے پنجاب سول سروسز (عدلیہ) کا امتحان پاس کرنا لازمی ہوتا ہے جس کے لیے بہترین کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان کے والد ایک معمولی ڈرائیور تھے جو روزانہ مالیرکوٹلہ سے لدھیانہ تک ترکاری لے جایا کرتے تھے، ان کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار روپیوں سے زیادہ نہ تھی۔ گلفام کو امتحان کی تیاری کے لیے پرائیویٹ کوچنگ کے اخرجات برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے گلفام کو گروندر پال سنگھ کی شکل میں ایک بہترین استاذ مل گیا۔ گروندر پال سنگھ ایک وکیل ہیں جو چندی گڑھ میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں۔ انہوں نے گلفام کی اس پریشان کن حالت کو سمجھتے ہوئے انہیں مفت کوچنگ دینے پر رضا مندی ظاہر کی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے خود گلفام سید نے میڈیا کو بتایا کہ ’’اللہ تعالیٰ مجھ پر کافی مہربان ہے جو اس نے میرے استاد، گروندر پال سنگھ کو میرے پاس بھیجنے کا انتظام فرمایا تھا۔ وہ چندی گڑھ میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں وکیل ہیں، وہ مجھے مفت کوچنگ فراہم کرنے پر راضی ہوئے۔ چار سال تک میں نے سخت محنت کی، اس دوران انہوں نے میرا ہر طرح کا تعاون کیا۔‘‘ گلفام کی اس شاندار کامیابی کے  پیچھے ایک دو نہیں بلکہ چار سال کی محنت شاقہ، صبر، استقامت اور لگن ہے، اور ان کے استاذ کی بے لوث خدمات ہیں جن کی وجہ سے ایک چھوٹے سے گھرانے کی لڑکی انصاف کی کرسی تک پہنچ سکی۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ گلفام سید کا  گھر مالیر کوٹلہ میں تھا جبکہ ان کی یونیورسٹی پٹیالہ میں تھی۔ اسی لیے کئی لڑکیاں اور دوسرے طلبا پٹیالہ میں ہی کوئی روم لے کر یا ہاسٹل میں قیام کر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن گلفام کے والد کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ یہ سارے اخرجات برداشت کر سکیں اسی لیے گلفام روزانہ مالیر کوٹلہ سے پٹیالہ آیا جایا کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب میں قانون کی  تعلیم حاصل کر رہی تھی تب ہاسٹل کی فیس بچانے کے لیے میں مالیرکوٹلہ سے پٹیالہ تک  روزانہ سفر کیا کرتی تھی۔ میں پی سی ایس (پنجاب سول سروسز) کے لیے کوچنگ کی بھی متحمل نہیں ہوتی اگر ایڈووکیٹ سنگھ صاحب میری مدد نہ کرتے۔‘‘
الغرض گلفام سید کے سامنے کئی مشکلات اور پریشانیاں آئیں لیکن انہوں نے ان تمام مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کامیابی کے اوج ثریا پر پہنچ گئیں۔ گلفام سید اکیلی نہیں ہیں  جنہوں نے یہ امتحان پاس کیا بلکہ ان کے ساتھ برنالہ کے پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والی مزید دو لڑکیاں بھی ہیں جن کے نام کرندیپ کور اور انجلی کور ہیں۔ انہوں نے  بھی غربت کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے یہ امتحان کامیاب کیا۔ ان میں سے ایک کے والد بس ڈرائیور ہیں اور دوسری کے والد ٹریفک پولیس میں کام کرتے ہیں۔
ان متاثر کن کہانیوں کے منظر عام پر آنے سے یہ سبق ملتا ہے کہ پریشانیوں اور مصائب و مشکلات کا آنا زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھنا، صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا اور اپنے متعین شدہ ہدف کی جانب دیوانہ وار آگے بڑھنا ہی کامیابی کا ضامن ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ:
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023