تخلیق کائنات کی مدت ۔ کلام الٰہی کے بیان میں کوئی تضاد نہیں

قرآن پر ایک معترض کے اعتراضات کے جوابات

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

قرآن نے مخالفین کو چیلنج دیا ہے کہ اگر قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک ہوتو اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔قرآن اللہ تعالیٰ کا آخری کلام ہے جو محفوظ حالت میں ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔الٰہی کلام اور انسانی کلام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اللہ کا کلام لامحدود علم پر مبنی ہوتا ہے جبکہ انسانی کلام محدود علم پر مبنی ہوتا ہے۔انسان کا علم محدود، نامکمل اور مسلسل بدلتا رہتا ہے۔تجربات اور مشاہدات کے ساتھ انسان کا علم بدلتا رہتا ہے۔دنیا کا کوئی بھی مصنف جب کوئی کتاب لکھتا ہے تو کتاب کے شائع ہونے کے بعد اس میں اضافہ اور حذف کی گنجائش محسوس کرتا ہے ۔چنانچہ ہر مصنف اپنی کتاب کے ہرنئے ایڈیشن کو ترمیم کے ساتھ شائع کرتا ہے۔ انسان کا علم ترقی پذیر ہے اور ہر دن بدلتا رہتا ہے۔اس کے برخلاف اللہ کا علم اطلاقی شان رکھتا ہے ۔اس میں تجدید وترقی اور ترمیم کی گنجائش نہیں رہتی ۔اسی لیے قرآن کے مضامین میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں پایا جاتاجبکہ ہر انسانی کلام اس کمزوری سے پاک نہیں ہوسکتا ۔ اسی لیے ارشادباری تعالیٰ ہے: أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا ۔کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔(سورۃ النساء۸۲)قرآن انسانی کلام ہوتا تو اس میں اختلاف اورتضاد ہوتا اور ایک سورت کا مضمون دوسری سورت کے مضمون سے متصادم ہوتا۔یہ انسانی کلام کی خامی ہے کہ اس میں اندرونی یا بیرونی اختلاف ہوتا ہے ۔اندرونی اختلاف کے معنی یہ ہیں کہ کسی کتاب میں ایک بات کسی نہ کسی درجہ میں اسی کتاب کی دوسری بات سے متصادم ہو۔بیرونی اختلاف کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بات کتاب میں ایسی ہو جو خلافِ حقیقت ہو۔قرآن ان دونوں قسم کے اختلافات سے پاک ہے۔یہ قرآن کا دعویٰ ہے۔
قرآن کے اسی دعوے کو پیشِ نظر رکھ کر معترضین نے قرآن پر کچھ اعتراضات کیے ہیں۔یہ وہی اعتراضات ہیں جو ملحدین اورEx Muslims اپنےLive Streams پر زیرِ بحث لاتے ہیں ۔آئیے ہم ان اعتراضات کاجائزہ لیتےہیں:
۱۔قرآن میں اللہ کے نزدیک یوم کی مدت ہمارے ایام کےلحاظ سے کہیں ایک ہزارسال اورکہیں پچاس ہزارسال کے برابر فرمایا گیا ۔
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ۔یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔(سورۃ الحج ۴۷)
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ ۔ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدارپچاس ہزار سال ہے۔(سورۃ المعارج ۴)
جواب:ان دونوں آیات میں دو مختلف مواقع کا ذکر ہے۔سورۃ الحج کی آیت ۴۷میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے مطالبہ پر فوری طور عذاب نازل نہیں کرتا بلکہ اس کے ہاں فیصلے صدیوں کے عمل پر محیط ہوتے ہیں۔ایک ایک قوم کو سالہا سال موقعہ دیا جاتا ہے۔نوح علیہ السلام کی قوم کو تقریباً ایک ہزار سال کا موقع دیا گیا ۔بنی اسرائیل کی قوم میں پیغمبروں اور رسولوں کا سلسلہ دو ہزار سال چلایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں پیغمبروں کو مسلسل مبعوث کرکے ان کی آزمائش فرماتا رہا ۔ ہماری گنتی کے ایک ہزارسال گویا اللہ تعالیٰ کےلیے ایک دن کےبرابر ہیں ۔قوموں کو صدیوں تک موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے عمل کو درست کرلیں ۔اللہ تعالیٰ چاہے تو قوموں کو ان کی سرکشی پرفوراً پکڑ لیتا لیکن یہ اللہ کی رحمت ہے کہ وہ صدیوں تک قوموں کو مہلت دیتا ہے(سورۃ الکہف ۵۸)
خود ہمارے نظامِ شمسی میں دن کی مقدار مختلف ہے۔ہماری زمین پر ایک دن سے مراد چوبیس گھنٹے ہیں جس کے دوران زمین اپنے محور پر ایک چکر مکمل کرتی ہے۔دنیا میں جتنے سیارے پائے جاتے ہیں ہر ایک کے لیے ایک دن سے مراد مختلف گھنٹے ہوتے ہیں ۔ چاند کی رفتار اپنے محور پر زمین کے مقابلے میں بہت ہی سست ہے ۔زمین پر دن ورات کا دورانیہ چوبیس ہیں جبکہ چاند کے لیے ایک دن زمین کے مقابلے میں798 گھنٹوں ( 29.5دن) کے برابر ہوگا۔مرکیوری کا ایک دن 1408گھنٹوں (زمین کے 58.7دنوں ) کے برابر ہے۔ Venus کےلیے ایک دن 5832 گھنٹوں(243دنوں ) کے برابر ہے۔ جبکہ Jupitor کا ایک دن دس گھنٹوں کے برابر ہوتا ہے۔ زمین سورج کے اطراف ۳۶۵ دنوں میں ایک چکر مکمل کرتی ہے۔سورج کو اپنے مدار میں ایک چکر لگانے میں ۲۲کروڑ سال لگ جاتے ہیں ۔یعنی سورج کے لیے ایک سال زمین کےسال کے مقابلے میں ۲۲کروڑ گنا زیادہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وقت ایک اضافی Relative مقدارہے۔جو مدت ہمارے لیے ایک ہزار سال ہے وہ اللہ کے لیے گویا ایک دن کے برابر ہے۔
سورۃ المعارج میں جس سیاق و سباق میں فرمایا گیا کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے وہ یوم القیامہDay of Judgement کا دن ہے ۔اس آیت کے بعد قیامت کے دن کا تذکرہ ہے ۔اس دن تمام انسانوں کا حساب لیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ جس کا چاہے حساب جلد لے گا اور جس کا چاہے حساب دیر تک لے گا۔اس دن کا ہم تصورنہیں کرسکتے کہ وہاں انسان کس حال میں ہوں گے۔حساب میں دیری ہونا بھی سزا کی ایک شکل ہوگی ۔یہ وہ چیزیں ہیں جو علمِ غیب سے متعلق ہیں۔ہم اتنی ہی باتوں کو جانتے ہیں جتنا ہم کو قرآن میں اور احادیث میں بتلایا گیا ہے۔اسی طرح عالمِ برزخ کی مدت (مرنے سے یوم القیامہ تک) کئی ہزار سالوں پر محیط ہوگی لیکن مرنے والا ایسا محسوس کرے گا جیسے وہ چند گھنٹے یا ایک دن گزارا ہے۔كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا ۔جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انہیں یوں محسوس ہو گا کہ (یہ دنیا میں یا حالتِ موت میں) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔(سورۃ النازعات ۴۶)
سورۃ السجدۃ کی آیت نمبر پانچ میں بھی سورۃ الحج کی آیت ۴۷ کی طرح ایک دن کی مقدار ایک ہزار سال کے برابر قرار دی گئی ہے۔اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ انسان جدید ٹکنالوجی کے ساتھ اگر خلا کا سفر کرے تو ایک ہزار سال میں جتنی مسافت طے ہوگی وہ مسافت فرشتے ایک دن میں طے کرتے ہیں ۔اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ فرشتے بہت تیزی سے سفر کرتے ہیں ۔فرشتوں کو روشنی یعنی نور سے پید اکیا گیا ہے اس لیے ان کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔اللہ کے ہاں کوئی بھی کام دو طرح سے انجام پاتا ہے ۔کچھ کام مادی اسباب کے تحت انجام پاتے ہیں اور کچھ دوسرےکام حکمِ الہی سے انجام پاتےہیں ۔ مادی اسباب کے تحت جو کام ہزاروں لاکھوں سالوں میں انجام پاتے ہیں وہ امرِ الہی سے آناً فاناً انجام پا سکتے ہیں ۔استقرارِ حمل سے لے کر بچے کی پیدائش تک کا عمل اسباب کے تحت انجام پاتا ہے جس کے لیے نو ماہ درکار ہیں لیکن جسم کے اندر روح کی ودیعت کا کام اللہ کے حکم سے ماں کے پیٹ میں ایک لمحہ میں فرشتہ کے ذریعے انجام پاتا ہے۔اسی طرح کے فرق کو بتلانے کے لیے اس طرح کا انداز ِبیان اختیار کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ قرآن میں بعض امور کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ انسانی عقل سے ماوراء ہیں ۔ان باتوں کو متشابہات کہا گیا ہے۔فرشتوں کی نقل و حرکت اور ان کی رفتار کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
۲۔اللہ تعالیٰ نے زمین کو کتنے دنوں میں پیدافرمایا :چھ دنوں میں یا آٹھ دنوں میں ؟
إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ۔۔۔(حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔(سورۃ یونس ۳) سورۃ ھود ۷ اور سورۃ الفرقان ۵۹ میں بھی یہی مضمون آیا ہے۔چھ دنوں کی مزید تفصیل کو سورۃ حم السجدۃ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ۝ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاء لِّلسَّائِلِينَ ۝ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ۝ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاء أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۝ اے نبیؐ! اِن سے کہو، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہےاُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد)اوپر سے اس پر پہاڑ جمادیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیّا کر دیا۔یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا”وجود میں آجاوٴ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔“ دونوں نے کہا”ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح۔“ تب اس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا۔یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔(سورۃ حم السجدۃ ۹ تا ۱۲)
کیا ان دونوں مقامات میں تخلیق کی مدت میں اختلاف ہے؟
جواب : پہلی آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں پیدافرمایا ۔ان کی تفصیل کو سورۃ حٰم السجدۃ میں بیان کیا گیا ہے ۔ آیت نمبر نو میں فرمایا گیا کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دنوں میں پیدا فرمایا ہے ۔آیت نمبر بارہ میں فرمایا کہ سات آسمانوں کو دو دنوں میں پیدا فرمایا ہے ۔آیت نمبر دس میں فرمایا کہ زمین کے اندر پہاڑوں کو پیدا کرکے اس کی حرکت کو منضبط کرنے ،پانی کو پیدا کرنے اور نباتات ،حیوانات اور انسانوں کی ساری ضروریات کی تکمیل کرنے میں چاردن لگ گئے۔ساری کائنات کی پیدائش کا آغاز ایک دھماکے کے ذریعے ہواجس کو بگ بینگ کہا جاتا ہے جس کو قرآن میں سورۃ الانبیاء آیت نمبر ۳۰ میں بیان کیا گیا ۔اسی وقت سے وقت، مادہ اور space کا آغاز ہوا۔ چھ دن میں کائنات کو پیدا کرنے سے مراد ۲۴گھنٹے والے دن نہیں ہیں بلکہ چھ ادوار ہیں ۔ایک ایک دور کا دورانیہ کئی بلین سالوں پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ان آیات سے معلوم ہوتا ہےکہ زمین و آسمان کو ملاکر چار دنوں میں پیدا کیا گیا۔ ان میں کہکشاں، ستارے اور سیارے سب شامل ہیں۔ان چار دنوں میں سے جب دو دن میں زمین کا کرہ بھی بن کر تیار ہو گیا تو زمین پر خصوصی توجہ دی گئی اور باقی چار دنوں میں زمین کو ہر اُس چیز سے مزین کیا گیا جو ہم اس کرۂ ارض پر دیکھتے ہیں ۔اسی اثناء میں دو دنوں میں سات آسمانوں کو بھی مزین کیا گیا ۔سات آسمانوں کی حقیقت سے ابھی تک انسان واقف نہیں ہوسکا۔شاید مستقبل میں سائنس اتنی ترقی کرے کہ ان کی حقیقت انسان پر واشگاف ہوجائے۔
دوسرے سیاروں کے مقابلے میں زمین کو نباتات، حیوانات اور انسانوں کی ضروریات کے قابل بنانے میں زیادہ وقت اور قدرت درکار تھی ۔اس میں پہاڑوں کو جمانا، پانی کو کثیر مقدار میں پیدا کرکے سمندروں کی شکل میں پھیلا دینا، اس کی سطح پر مٹی اور اس کے اندر روئیدگی کا پیدا کرنا، اس کے اطراف ہوا کا غلاف تیار کرنا اور لاکھوں قسم کی نباتات، جاندار وں اور انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کرنا باقی کائنات کو بنانے سے زیادہ دقیق کام ہے جس کے لیے چار دن درکار ہوئے ۔
آیت نمبر گیارہ میں یہ فرمایا گیا کہ کائنات پہلے دھواں تھی یعنی اس کائنات کا آغاز Hydrogen گیس سے ہوا۔ نیوکلیر fusion سے پھر Helium پیدا ہوئی اور دھیرے دھیرے دوسرے عناصر پیداہوتے چلے گئے جس میں آکسیجن بھی ایک ہے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو ملا کر پانی پیداکیا گیا ۔پانی اتنی مقدار میں کرۂ زمین پر برسایا گیا کہ جس سے سمندر وجود میں آئے۔زمین پر پانی کی دستیابی کے بعد ہی یہاں پر حیاتیاتی زندگی کا آغاز ہوا۔
جب کسی عمارت کی تعمیر کی جاتی ہے تو سب سے پہلے کھدائی کی جاتی ہے تاکہ بنیادیں بنائی جائیں۔کھدائی کاکام اگر بیس دنوں میں ہواور بنیادوں کو اٹھانے کا کام مزید بیس دنوں میں ہو تو جملہ چالیس دن درکارہوں گے۔لیکن اگر کھدائی کے دوران ہی ہموار زمین پر بنیادیں بنانے کا کام بھی ساتھ میں شروع کر دیا جائے تو چالیس دن کے بجائے تیس دن میں یہ کام ہوسکتا ہے۔اسی طرح جب کائنات کو بناتے ہوئے دو دن کے بعد ہی زمین کو مزین کرنے کا کام شروع کردیا جائے تو جملہ چھ دن میں سے باقی چار دن میں بیک وقت زمین کو اسبابِ زندگی سے آراستہ کرنے اور آسمانوں کو مزین کرنے کا کام ہوسکتا ہے۔جب ایک انجینئر وقت کی بچت کے لیے منصوبہ بندی کرسکتا ہے تو کیا خالقِ کانئات اس سے بہتر منصوبہ بندی نہیں کرسکتا؟ آج کل کنسٹرکشن انڈسٹری میں جدید سافٹ ویر جیسے Primavera استعمال ہوتے ہیں جن کی مدد سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تعمیر کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔اس منصوبہ بندی میں بیک وقت کئی کام کیے جاتے ہیں ۔جب انسان ایسی منصوبہ بندی کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے یہ کیوں بعید از قیاس ہےکہ وہ بیک وقت تخلیق کے کئی کام انجام دے۔
۳۔ آسمانوں کی تخلیق پہلے ہوئی یا زمین کی ؟
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں،پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔(سورۃ البقرۃ ۲۹)
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ۔اے نبیؐ! اِن سے کہو، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے۔(سورۃ فصلت ۹)
ان دونوں آیات سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہےکہ پہلے زمین کو پیداکیا گیا پھر آسمان کی طرف اللہ متوجہ ہوا۔
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاء بَنَاهَا ۝ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ۝ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ۝ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا ۝ کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا اُس کی چھت خوب اونچی اٹھائی پھر اس کا توازن قائم کیا اور اس کی رات ڈھانکی اور اس کا دن نکالا۔ اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا۔ (سورۃ النازعات ۲۷ تا ۳۰)
اس آیت سےبظاہر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان بنائے اور پھر زمین بنائے۔
کیا یہ تضاد نہیں ہے ؟
جواب :
سورۃ البقرۃ آیت ۲۹ میں تخلیقی تسلسل کو بیان نہیں کیا گیا بلکہ اہمیت کے اعتبار سے جو چیز مقدم ہے اس کو پہلے پیش کیا گیا۔چونکہ انسان کے لیے زمین معروف جگہ ہے اور آسمانوں کی حقیقت ابھی بھی انسان کے لیے مجہول اور غیر معروف ہے اس لیے زمین کی پیدائش کے بیان کو مقدم رکھا گیا ہے۔سورۃ الانبیاء آیت نمبر تیس میں فرمایا گیا کہ زمین اور آسمان کائنات کے آغاز میں ملے ہوئے تھے۔یعنی زمین اور آسمانوں کی تخلیق بیک وقت شروع ہوئی ۔ لیکن ان کو ترقی دے کر ان کو مزین کرنے کا کام ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
سورۃ النازعات کی آیات میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان بنائے اور پھر زمین بنائے۔آسمان بنانے میں دراصل زمیں بھی شامل ہے اس لیے کہ اس کائنات میں کہکشاں ہیں ۔کہکشانوں میں ستارے ہیں اور ہر ستارے کا اپنا اپنا شمسی نظام ہے جس کے اطراف سیارے گردش کررہے ہیں ۔کائنات کا بنیادی اسٹرکچر بننے کے بعد جس میں زمین کا کرہ بھی شامل ہے اس کے وجود میں آنے کے بعد اس پر خصوصی توجہ دے کراس کو اس طرح مزین فرمایا کہ یہ نباتات، حیوانات اورانسانوں کے رہنے کے قابل بنی ۔
۴۔انسانوں کو کس مادے سے پیداکیا گیا؟
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۝ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۝ (اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔(سورۃ العلق ۱، ۲)
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ۔کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے)انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔کیا وہ ہماری اِس خلاقی کو نہیں مانتے؟ (سورۃ الانبیاء۳۰)
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ۔ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے بنایا۔ (سورۃ الحجر۲۶)
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ۔اللہ کے نزدیک عیسٰی کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا۔سورۃ آل عمران ۵۹۔
أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا ۔کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟(سورۃ مریم ۶۷)
۔۔يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا ۔۔ ۔ اس نے کہا”اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ (سورۃ ھود ۶)
خَلَقَ الإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ۔اس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا۔(سورۃ النحل ۴)
أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى ۔کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو رحم مادر میں ٹپکایا جاتا ہے؟
(سورۃ القیامہ ۳۷)
فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ ۔اب اِن سے پوچھو کہ ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا ان چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔(سورۃالصافات ۱۱)
کیا ان آیات میں تضادنہیں ہے کہ انسان کی پیدائش میں مختلف مادوں کا ذکر ہے؟
جواب: ان آیات میں تضاد نہیں ہے بلکہ ان آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل پیش کیے گئے ہیں ۔ہر مرحلے میں انسان کی ہییت ،شکل اور ساخت مختلف رہی ہے۔انسان کو اس کی اصلیت بتلانے کے لیے فرمایا کہ ایک وقت وہ تھا جب وہ کچھ نہ تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے نہیں تھا۔پہلے انسان یعنی آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سےہوئی اور کسی خاص وقت میں ہوئی ۔ہم نہیں جانتے کہ مٹی سے کیسے پیدائش ہوئی ۔اسی مٹی کو طِينٍ لَّازِبٍ (لیس دارگارا) حَمَإٍ مَّسْنُونٍ (سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے) اور صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے)سے بنایا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مٹی کو بھی مختلف مراحل سے گزارا گیا جس کا ہم مکمل ادراک نہیں کرسکتے۔ آج جو جسم ہمارا بناہوا ہے وہ بھی مٹی کے اجزاء سے ہی بنا ہوا ہے۔جو غذاہم کھاتے ہیں وہ مٹی سے ہی پیداہوتی ہے۔پھر فرمایا کہ پانی سے ہر جاندار کو پیدا فرمایا ۔کسی بھی جاندار کے خلیات کا خوردبین سے مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا اس کے اندر اسی فیصد پانی ہوتا ہے۔پانی ہی سے ہر جاندار کی ابتدأ ہوتی ہے۔پھر فرمایا گیا کہ نطفہ سے انسان کو پیدا کیاگیا ۔انسانی جسم میں ایسا نظام رکھا گیا ہے کہ مٹی سے پیداہونے والی غذا سے مرد میں مادہ منویہ(نطفہ) اور عورت میں بیضے بنتے ہیں ۔دونوں کے ملنے سے پہلا خلیہ وجود میں آتا ہے ۔یہ خلیہ تقسیم در تقسیم ہوکر جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کو علق کہا گیا جو رحمِ مادر سے چپکا ہوا رہتا ہے اور ماں کے جسم سے خون حاصل کرتا رہتا ہے جس طرح جونک خون چوس کر زندہ رہتی ہے۔علق کے دو مفہوم ہیں ۔ایک جمع ہوا خون اور دوسرا جونک جو دوسرے زندہ اجسام سے خون براہ راست حاصل کرتی ہے۔خوردبین سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں انسان کی ابتدائی ہیئت جمے ہوئے خون کی سی ہوتی ہے جس کو عربی میں علق کہتے ہیں۔سورۃ المومنون میں مزید اگلے مراحل بیان کیے گئے ہیں کہ علق کے بعد گوشت کے لوتھڑے کی شکل بنتی ہے۔پھر ہڈیاں بنتی ہیں ۔پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا جاتا ہے(سورۃ المومنون۱۲ تا ۱۴)
اوپر کی آیات میں تضاد نہیں بلکہ انسان کی پیدائش کے آغاز سے اگلے مراحل بیان کیے گئے ہیں۔یہ آیات خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔اس میں انسانی پیدائش کے مراحل جس صحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں اس طرح کا علم ۱۴۵۰ سال قبل موجود نہیں تھا۔ خالق ہی اس طرح کی معلومات دے سکتا ہے۔(جاری)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024