
تفہیم القرآن کا نوائطی زبان میں ترجمہ اہل زبان کے لیے بیش قیمت تحفہ
نوائط محفل کے زیر اہتمام مولانا موددوی کی تفسیری خدمات کو خراج تحسین۔ فکر سازی میں تفہیم القرآن کے کردار کا اعتراف
سید احمد سالک ندوی، بھٹکل
بانی تحریک اسلامی مولانا سید ابولاعلی مودودی کے انتقال کو آج 46 برس ہو رہے ہیں۔ ان کے انتقال کی چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے علم و فکر سے استفادہ برابر جاری ہے۔ بر صغیر ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں اسلام کے احیاء کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان میں سید مودودیؒ اور اخوانی مفکرین کی تحریروں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ پاکستان کے ایک عظیم تحریکی شاعر اعجاز رحمانی نے مولانا مودودیؒ کی رحلت پر جو مرثیہ لکھا تھا اس کا ایک ایک شعر آج بھی اپنی صداقت پر مہر لگا رہا ہے:
ملکوں ملکوں دھوم تھی اس کی شہروں شہروں چرچا تھا
نام ابو الاعلی تھا اس کا سب کے دلوں میں رہتا تھا
بستی بستی صحرا صحرا سب کی پیاس بجھاتا تھا
ٹھہرا ہوا تالاب نہ تھا وہ، علم کا بہتا دریا تھا
فکر سے اس کی نور فشاں ہیں قلب و نظر کی قندیلیں
روشن اس کی تحریریں تھیں، سچے حرف وہ لکھتا تھا
مولانا کے رفع درجات اور عنداللہ مقبولیت کے لیے یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے قرآن کی دعوت کو لے کر دنیا پر چھا جانے کی جو تلقین اپنے کارکنوں اور ہم خیال ساتھیوں سے کی اس کی انہوں نے بھر پور کوشش کی۔ ملک کی آزادی سے پہلے مولانا مودودیؒ نے مدراس میں افراد تحریک سے خطاب کرتے ہوئے آزادی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تعلق سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ بھی کم و بیش درست ثابت ہوئے، ان حالات کی سنگینی کو مولانا کی دور رس نگاہوں نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تقسیم تک کی پیش گوئی کر کے مولانا نے اسلام کا وسیع لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
الحمد للہ تحریک اسلامی کے کارکنوں نے مولانا کی ان ہدایات کو حرزجاں بنایا اور ان کے پیغام کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
تحریک اسلامی کا لٹریچر:
سنہ 1947 کے بعد ملک کی تقسیم کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کا باقاعدہ دستور بنا اور دعوت کو بنیاد بنا کر کام کرنے کے لیے با ضابطہ طور پر پالیسی و پروگرام بھی ترتیب دیا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جب جماعت کے کام کا دائرہ وسیع ہوتا گیا تو مختلف زبانوں میں اسلام کے مطالعہ کے لیے لٹریچر کی ضرورت بھی محسوس کی جانے لگی تو اس کے لیے تحریکی افراد نے اپنی صلاحیتیں صرف کیں اور بڑی جاں فشانی کے بعد ایک مستند اور معتبر اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا۔ جماعت اسلامی ہند کی یہ بہت بڑی حصول یابی تھی کہ وابستگانِ جماعت اور تحریکی افراد کے قائم کردہ اداروں نے ملک کی تقریباً تمام ریاستی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے و تفاسیر عام کرنے کی طرف توجہ دی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں سمیت اسلامی شعائر سے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کی بھی کامیاب کوشش کی گئیں۔ اقامت دین کی تشریح و توضیح میں جہاں مولانا مودوی سمیت دیگر تحریکی علماء کی تحریروں سے کام لیا گیا وہیں سید مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا بھی اس مقصد کے حصول میں اہم کردار رہا۔ جماعت کے ہم خیال افراد جہاں بھی رہے قرآن کے پیغام کو عام کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔
تفہیم القرآن غیر اردوداں حلقہ میں:
اردو کے علاوہ ملک کی دوسری زبانوں میں بھی تفہیم القرآن کے ترجمے ہوئے اور ایک بڑے طبقے تک اسلام کا صاف اور سیدھا پیغام پہنچایا گیا۔ ادھر کچھ دنوں قبل تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کو نوائطی زبان میں بھی منتقل کیا گیا اور یہ کام بھٹکل کے ایک سابق رکن جماعت مرحوم عثمان حسن محتشم نے انجام دیا۔
کون ہیں نوائطی مترجم؟
مترجم جناب عثمان حسن محتشم مرحوم ایک بھٹکل کے سنجیدہ اور سیلم الفکر انسان تھے۔ 74 برس کی عمر گزارنے کے بعد 2018 میں مختصر علالت کے بعد بھٹکل میں ہی ان کا انتقال ہوا تھا۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن تحریکی لٹریچر کے مطالعہ نے ان میں گہری اسلامی فکر پیدا کی تھی۔ اکاونٹ میں ماہر تھے، اسی سلسلے میں تمل ناڈو کے کوئمبتور اور ممبئی وغیرہ میں انہوں نے مختلف تجارتی کمپنیوں کے ساتھ کام کیا۔ ایک طویل عرصہ دبئی کے سرکاری دواخانہ ’راشد ہاسپٹل‘ میں بطور اکاؤنٹنٹ کام کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹکل میں تحریکی اداروں کا حساب کتاب دیکھتے رہے۔
کیسے پیدا ہوا فہم قرآن کا ذوق؟
معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے جب بھٹکل سے کچھ لوگوں نے خلیجی ممالک کا سفر کیا تو وہاں بھی وہ اپنی تحریکی فکر کو جِلا بخشنے کی کوشش کرتے رہے۔ نتیجہ کے طور پر دبئی میں ’جمعیت تربیت اسلامی‘ کے نام سے ایک جمعیت قائم کر کے اس کے تحت دروس قرآن کی محفلیں سجاتے رہے، اسی طرح اجتماعی مطالعہ قرآن اور اسٹڈی سرکل جیسی سرگرمیوں کے ذریعہ مشاہیر اہل علم کی تفاسیر سے استفادہ کیا جاتا رہا۔ شاید اسی لیے ان میں تحریکی فکر اس قدر پختہ ہوئی کہ جماعت میں رکنیت کی منظوری کے بعد وہ امارات کے شارجہ میں جماعت کے ذمہ دار رہے۔
نوائطی زبان میں تراجم قرآن:
نوائطی ساحلی کرناٹک کے بھٹکل اور آس پاس کے علاقوں میں بولی جانے والی مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہ ایک خاص برادری کی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس زبان میں اخبارات، شاعری اور گرامر کی کتابوں سمیت ایک بڑی تعداد میں اصلاحی لٹریچر موجود ہے۔ اس سے پہلے بھٹکل کے انتہائی متحرک اور تحریکی فکر کےحامل عالم دین اور کئی عربی کتابوں کے مترجم و مصنف ڈاکٹر عبدالحمید اطہر رکن الدین ندوی نے اپنے طور پر قرآن مجید کا نوائطی زبان میں ترجمہ کیا تھا جو کافی حد تک مقبول ہوا۔ اس دوران جناب عثمان حسن محتشم نے تفہیم القرآن کا نوائطی ترجمہ کیا جس کو اپنے ذاتی صرفے پر ان کے فرزندوں نے بھٹکل کی ایک مقامی این جی او نوائط محفل کے زیر اہتمام شائع کیا ہے۔ اس ترجمہ کو تیار کرتے ہوئے بھٹکل میں جماعت اسلامی ہند کے ارکان میں جناب قادر میراں پٹیل، جناب سعدا میراں مرحوم اور جناب طلحہ سدی باپا کا گراں قدر تعاون انہیں حاصل تھا۔
رسم اجراء کی پر وقار تقریب:
اس نوائطی ترجمہ قرآن کی رسم اجرا کی تقریب شہر بھٹکل کے قلب میں واقع ایک عالی شان ہال ’’آمنہ پیلیس‘‘ میں نوائط محفل کی جانب سے منعقد کی گئی۔ ’نوائط محفل‘ بھٹکل میں نوائط تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا ایک ادارہ ہے جو زبان و تہذیب کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے۔ نوائط محفل کی جانب سے منعقدہ رسم اجرا تقریب میں شہر کے ممتاز علماء اور قاضی صاحبان سمیت عمائدین شہر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قاضی مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین مولانا خواجہ معین الدین اکرمی مدنی نے کہا کہ قرآن سے جڑ جانے والے زندہ جاوید ہوتے ہیں۔ اب چونکہ نوائط محفل نے عثمان حسن کے ترجمہ کو شائع کر کے قرآن سے اپنے آپ کو منسلک کیا ہے لہٰذا یہ چیز اب نوائط محفل کو بھی دوام بخشے گی۔
اجلاس میں بھٹکل کی سب سے بڑی دینی درس گاہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے مہتمم مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی نے عثمان حسن محتشم کی تحریکی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودی نے مغربی فکر سے متاثر ہزاروں لوگوں کو اسلامی فکر سے روشناس کیا، انہوں نے کہا کہ ایک مفکر ہونے کی حیثیت سے ان کی بعض تحریروں سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن مجموعی اعتبار سے ان کی صحیح اسلامی فکر نے ہزاروں بندگان خدا کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف کرنے میں مدد کی۔ اجلاس میں قاضی جماعت المسلمین مولانا عبدالرب ندوی نے فہم قرآن کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مولانا سید زبیر جامعی نے عثمان حسن کی خدمات کے اعتراف میں سپاس نامہ پیش کیا۔
ان کے علاوہ شہر کے دیگر علماء میں مولانا اقبال نائطی ندوی، ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی، مولانا جعفر ندوی و دیگر نے پر مغز خطابات کیے۔ نوائطی زبان کے مشہور شاعر سید سمیع اللہ برماور نے قرآن سے متعلق ایک خوبصورت نظم پیش کر کے اجلاس کی رونق میں اضافہ کیا، اسی طرح ایک خوش الحان نوجوان نوفل دامودی نے جناب مصطفی تابش کا کلام خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
اس موقع پر نوائط محفل کے صدر مولانا عبدالعلیم قاسمی، جنرل سکریٹری اشتیاق رکن الدین، شبیر عجائب، محتشم عبدالرحمن، مصطفیٰ تابش، اقبال سعیدی اور جماعت اسلامی ہند کے امیر مقامی مولانا سید زبیر مارکیٹ کے علاوہ دیگر معززین شہر بڑی تعداد میں موجود تھے۔
***
اردو کے علاوہ ملک کی دوسری زبانوں میں بھی تفہیم القرآن کے ترجمے ہوئے اور ایک بڑے طبقے تک اسلام کا صاف اور سیدھا پیغام پہنچایا گیا۔ ادھر کچھ دنوں قبل تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کو نوائطی زبان میں بھی منتقل کیا گیا اور یہ کام بھٹکل کے ایک سابق رکن جماعت مرحوم عثمان حسن محتشم نے انجام دیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025