تفرقہ انگیز سفارشات پر حکومت کی غیر جانب دارانہ نظر ثانی ضروری
مدارس کے بارے میں ’این سی پی سی آر‘ کے اقدامات غیر منصفانہ ہیں : سکریٹری مرکزی تعلیمی بورڈ
نئی دلی(دعوت نیوز ڈیسک)
’نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘ ( این سی پی سی آر) کی جانب سے مدارس کے بارے میں غیر منصفافہ اور بے بنیاد سفارشات پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی تعلیمی بورڈ ( ایم ٹی بی ) کے سکریٹری سید تنویر احمد نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’ اس طرح کی سفارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح متعلقہ سرکاری ادارہ مدارس کو غیر منصفانہ طریقے پر نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’این سی پی سی آر‘ کے چیئر پرسن پریانک کانونگو کی طرف سے ملک کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریوں اور ایڈمنسٹریٹروں کو سرکلر جاری کرکے مدارس کے کردار کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں کئی گمراہ کن دعوے کیے گئے ہیں۔ اس سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ’ آر ٹی ای ‘ ایکٹ 2009 سے مدارس کو مستثنیٰ قرار دینا بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ سچر کی رپورٹ کے مطابق محض چار فیصد مسلم طلبہ مدارس میں پڑھتے ہیں لیکن 96 فیصد طلباء جو عصری علوم کے اداروں سے وابستہ ہیں ان کو نظر انداز کرتے ہوئے محض سیاسی مقاصد کے تحت مستقل مدارس اور طلباء مدارس کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ الزام کہ مدارس کے طلباء مکمل طور پر عصری علوم سے محروم رہتے ہیں پوری طرح بے بنیاد ہے۔ بڑی تعداد میں مدارس میں جدید مضامین جیسے سائنس، ریاضی کمپیوٹر و لسانیات وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ جہاں تک مذہبی تعلیم (تھیالوجی) پڑھائے جانے کی بات ہے تو ملک کی بہت سی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی یہ کورس شامل ہے۔ ’ این سی پی سی آر‘ نے مدارس کو ملنے والی سرکاری امداد اور مدرسہ بورڈ کو بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ مرکزی تعلیمی بورڈ واضح کرنا چاہتا ہے کہ مدارس کی بنیادی ضرورتیں مسلمانوں کی مالی اعانتوں سے پوری کی جاتی ہیں۔ حکومت سے ملنے والے فنڈ کا استعمال جدید کاری، عصری علوم کے اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کی فراہمی تک ہی محدود ہے‘‘۔
سید تنویر احمد نے کہا کہ ’ این سی پی سی آر‘ نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت مدرسہ بورڈ کو بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سفارش کے پیچھے سیاسی منشا کار فرما ہے ورنہ این سی پی سی آر کو مدارس کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کے بجائے بچوں کی فلاح و بہبود کے حقیقی مسائل، بچہ مزدوری، غذائیت کی کمی، صحت، ڈراپ آؤٹس جیسے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ سرکلر میں غیر مسلم بچوں کو مدارس سے نکال کر اسکولوں میں داخل کرنے کی بھی تجویز ہے۔ یہ سفارش شہریوں کے آئینی حق ’ انتخاب کی آزادی‘ کے خلاف ہے۔ اگر غیر مسلم والدین اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانا چاہتے ہیں یا مسلم اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا مکمل اختیار ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان مدارس نے ملک و قوم کی سماجی و تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ مدارس کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے پورے معاملے کا غیر جانب دارانہ جائزہ لے۔ مرکزی تعلیمی بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت ’این سی پی سی آر‘ کی سفارشات پر نظر ثانی کرے اور اقلیتوں کے تعلیمی و آئینی حقوق کو مجروح کرنے والے تفرقہ انگیز سفارشات کو عمل میں لانے کے بجائے حقیقی زمینی مسائل پر توجہ دے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024