
طبقاتی اونچ نیچ پر مسلم ادیبوں کی خامہ فرسائیوں کا جائزہ
اپنی نوعیت کے منفرد موضوع پر بہترین اور قابل مطالعہ کتاب
عرفان الٰہی ندوی
طبقاتی اونچ نیچ اور ذات برادری کے نام پر تفریق بھارتی معاشرے کی ایک کڑوی سچائی ہے جس پر ماہرین عمرانیات اور دیگر سماجی علوم کے ماہرین نے ٹھوس تحقیق کرکے مختلف پہلوؤں سے لکھا ہے۔ برصغیر کے ادیبوں نے بھی سماج کے مختلف مسائل و معاملات کی عکاسی کرتے ہوئے طبقاتی کشمکش اور ذات برادری کی اونچ نیچ کو اپنی تخلیقی کاوشوں کا محور بنایا تاہم اردو ادب میں اس پر زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔
معروف کہانی نویس، صحافی اور قلمکار سہیل وحید نے اردو کے ’’عصبیتی افسانے‘‘ میں اس کمی کو حقیقت کا آئینہ دکھانے کی جرات رندانہ اور کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے مشہور افسانہ ’’خانم نورانی‘‘ کے علاوہ 17 افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو شامل کیا ہے۔ ان میں مسلم معاشرے کے ان داغوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ہمارے معاشرے میں طبقاتی اونچ نیچ اور ذات برادری کے نام پر آج بھی موجود ہیں۔
سہیل وحید ایک تجربہ کار صحافی کے ساتھ ایک کہنہ مشق ادیب بھی ہیں، عصری اردو صحافت اور اس کی زبان کے موضوع پر دہلی یونیورسٹی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے علاوہ ان کی پہلی تصنیف صحافتی زبان 1996 میں شائع ہو چکی ہے۔ اردو روزنامہ قومی آواز سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے کے بعد ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمز اور نئی دنیا میں مختلف ادارتی عہدوں پر فائز رہے ۔وہ ڈی ڈبلیو ریڈیو جرمنی کے جنوبی ایشیا سیکشن کے ادارتی شعبے سے بھی منسلک رہے اور محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ یوپی کے ماہانہ رسالہ نیا دور کی ادارتی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔
مرتب نے افسانوں سے پہلے’’اہل نظر ائے اہل ذوق نظر‘‘ کے عنوان سے تخلیق کاروں کی حسیت کو مہمیز دینے کے لیے فکر انگیز دیباچہ تحریر کیا ہے اس میں انہوں نے بڑے ہی بے باک انداز میں بڑے بڑوں کی خبر لی ہے۔ اس دیباچے میں ان کی ادبی شخصیت کے ساتھ صحافتی عنصر نمایاں ہے۔ دیباچے سے پہلے انہوں نے اس عنوان پر اپنے دلی تاثرات کے اظہار کے لیے جون ایلیا کے ایک مشہور شعر کا سہارا لیا ہے:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
سہیل وحید اپنے دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ ’’عام خیال ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان ذات برادری کے کھیل کو ہندوؤں سے مستعار لیا گیا ہے اور ان کی صحبت نے اسے دائمی بنا دیا، لیکن دراصل حقیقت کچھ اور بھی ہے۔ مسلمانوں کی حکومتوں کے قیام کے بعد سیاسی سماجی اور معاشی وجوہات کی بنا پر یہاں کے مقامی لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا جس کا مسلم حکام پر نامناسب رد عمل یہ ہوا کہ انہوں نے ان نو مسلموں کے ساتھ نا برابری کا سلوک محض اس لیے روا رکھا کہ اگر ان کے ساتھ مساواتی رویہ رکھا گیا اور انہیں اقتدار میں شامل کر لیا گیا تو انہیں بھی مراعات میں حصہ داری دینی ہوگی جسے بعد میں یہ دیسی لوگ اپنا حق سمجھنے لگیں گے۔‘‘
مرتب کتاب نے اس دعوے کی دلیل میں کئی تاریخی حوالے پیش کیے ہیں حالانکہ یہ بھی سولہ آنے سچ ہے کہ اسلام کا مقصد عدل وانصاف اور مساوات کا قائم کرنا تھا یعنی عربی و عجمی، گورا اور کالا، شاہ و گدا سب برابر ہیں۔ ہر شخص ترقی کے کسی بھی انتہائی درجے تک پہنچ سکتا ہے۔ اس بنا پر آنحضرتؐ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا :’’الناس من آدم و آدم من تراب‘‘ (تم سب اولادِ آدم ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے) اسی مساوات کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں یوں بیان کیا ہے:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
پھر انہوں نے مسلم معاشرے میں رائج ذات برادری پر گہری چوٹ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ:
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
سہیل وحید اپنے دیباچے میں اردو شاعری کا جائزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں کہ قریب 1200 سالہ تاریخ میں رائج مسلم ذات برادری کے نظام پر اردو شعرا نے ڈیڑھ درجن شعر بھی نہیں کہے صد حیف!
سہیل وحید اس مجموعے کے سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں کہ ’’حیرت اس بات پر ہے کہ سچائی اور حقیقت نگاری کے اظہار کا ڈنکا پیٹنے والے اردو ادیبوں نے اپنے یہاں ذات برادری کی بنیاد پر ہونے والی نا برابری اور بھید بھاو پر قلم نہیں اٹھایا، پرانے لوگوں میں احمد ندیم قاسمی کے علاوہ کسی نے حوصلہ نہیں دکھایا‘‘۔ اس مجموعے میں شامل ان کے پہلے افسانے ’’عالاں‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو ‘‘ٹھیک ہے میں نے سوچا اچھی لڑکی ہے پیاری بھی ہے شوخ بھی ہے! سب ہے مگر آخر میں موچی کی لڑکی ہے اور خاندان کے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ بلندی پر کھڑے ہو کر گہرے کھڈ میں نہیں جھانکنا چاہیے ورنہ آدمی گر جاتا ہے‘‘۔ سہیل وحید کے افسانے نورانی خانم کا ایک اقتباس بھی ملاحظہ ہو ‘’’اس قسم کی جنگ میں وہ سب ایک دوسرے کی ذات برادری کی پول کھول دیتے تھے کہ کون کس نسل کا ہے اور کتنا نیچ قوم کا ہے اور کہاں سے یہاں آ کر اپنے نام کے ساتھ اس ذات کا لقب لگا کر بس گیا ہے‘‘ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں میں ذات برادری کی بنیاد پر طعن و تشنیع کتنی عام بات ہے۔ پروفیسر سید سراج اجملی اس مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اردو کے جن عصبیتی افسانوں کا انتخاب سہیل وحید نے کیا ہے ان میں بھی اکثر زور طبقاتی کشمکش اور معاشی نا برابری پر زیادہ ہے اور اردو معاشرے میں ذات پات کے جس تعصب پر مرتب مجموعہ کا ناطقہ سر بگریباں ہے اس کی طرف کوئی توجہ نظر نہیں آتی جبکہ اردو کے افسانہ نگار مسلمانوں کے علاوہ دوسرے معاشروں میں ذات پات کے تعصب کو خوب خوب موضوع بحث بناتے ہیں۔‘‘
بہرحال سہیل وحید نے مرض کی تشخیص کا کام کر دیا ہے اب دیگر ادیبوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ مسلم سماج اور ادب کے قارئین کو حساس بنانے میں اپنا رول ادا کریں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025