تبدیلی مذہب مخالف قوانین کاآئینی جائزہ لینے میں تاخیر کیوں؟
مختلف ریاستوں میں منظورہ قوانین کا بے جا استعمال
نور اللہ جاوید، کولکاتا
عیسائیوں اور مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات کا ادارہ جاتی سلسلہ جاری
عیسائی مشنریز اور مسلم اداروں کو منظم انداز میں پھنسایا جارہا ہے
قومی کمیشن تحفظ حقوق اطفال کے چیئرمین پریانک کانونگو کا 11 اکتوبر 2023 کو مہاراشٹر کے چیف سکریٹری کو لکھا گیا ایک خط سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ احمد نگر کے ایک گاؤں میں مسلمانوں کا ایک گینگ سرگرم ہے جو نابالغ ہندو لڑکیوں کو لالچ کے ذریعہ تبدیلی مذہب کروا رہا ہے۔ یہ گینگ ہندو لڑکیوں کو بلیک میل بھی کرتا ہے۔خط میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کام ٹیوشن کلاس کی آڑ میں انجام دیا جا رہا ہے۔ کمیشن کے چیئرمین نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ مقامی ضلع انتظامیہ نے اس معاملے میں صحیح سے کارروائی نہیں کی ہے اس لیے ضلع انتظامیہ کو اس معاملے کی جانچ سے ہٹا دیا جائے اور اس کی سی بی آئی تحقیقات کروائی جائیں۔ پریانک کانونگو نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچنے سے قبل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ذریعہ سروے کراچکے ہیں اور اس کے بعد ہی یہ خط لکھ رہے ہیں۔ برادران وطن کے لیے یہ موسم تہواروں کا ہے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی ہنگامہ خیز خبروں اور اسرائیل کی حمایت میں سرگرم قومی میڈیا جو بھارت کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ہے، اس کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ہوسکی ہے اس لیے اس پر زیادہ تبصرے سننے میں نہیں آئے۔ حالیہ برسوں میں جس طریقے سے آئینی اداروں کی آزادی اور غیر جانب داری کو مجروح و کمزور کیا گیا ہے اس کے بعد ملک کے کسی بھی ادارے سے متعلق یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ آزادی و خود مختاری کے ساتھ کام کرتا ہے۔ تاہم قومی اطفال کمیشن جیسا خود مختار اور آزاد ادارہ جو مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور اس کا بنیادی کام بچوں کے حقوق کی حفاظت اور بچوں کی صحت، بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات کو روکنا اور اس کی نگرانی کرنا ہے، اگر وہ اس طرح کی رپورٹس اور اعلیٰ حکام کو خط لکھ کر کسی بھی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اطفال کمیشن کے چیرمین پریانک کانونگو نے مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر کے جس گاؤں سے متعلق دعوے کیے ہیں اس گاؤں میں گزشتہ کئی مہینوں سے فرقہ وارانہ تناو کا ماحول ہے۔ مسجد میں توڑ پھوڑ اور مسلمانوں کو دربدر کرنے کے لیے ہنگامہ آرائی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی گاؤں میں بچے اور بچیوں کو ٹیوشن پڑھانے والی ایک مسلم خاتون پر تبدیلی مذہب کے الزامات کا معاملے سامنے آیا۔ ظاہر ہے کہ اس پورے واقعے پر شک و شبہ پیدا ہونا فطری بات ہے۔ خط سامنے آنے کے بعد انگریزی نیوز ویب سائٹ نیوز لانڈری نے اس پورے واقعے پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اگر انگریزی ویب سائٹ کی رپورٹ کو مہاراشٹر میں حالیہ چند مہینوں میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائی، مسلم مخالف بیانات اور نام نہاد لوجہاد کے خلاف دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی مہمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ قومی اطفال کمیشن جس کی ذمہ داری ملک بھر کے بچوں کے حقوق کی حفاظت ہے وہ اپنے اہداف پر توجہ دینے کے بجائے مسلم مخالف مہم کا شعوری یا غیر شعوری طور پر حصہ بن گیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت، قومی اطفال کمیشن کے چیرمین کے خط پر کیا کارروائی کرے گی، یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اطفال کمیشن کے چیرمین اور ان کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اس نتیجے پر کیسے پہنچی؟ کیا احمد نگر کے اس گاؤں میں لالچ دے کر تبدیلی مذہب کا کوئی ایک بھی واقعہ پیش آیا ہے؟ اگر پیش آیا ہے تو گاؤں والوں کی طرف سے درج ایف آئی آر میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ جب ایف آئی آر میں تبدیلی مذہب کی باضابطہ کوئی شکایت نہیں ہے تو پھر قومی اطفال کمیشن کو اپنے خط میں گینگ جیسے بھاری بھرکم لفظ کا استعمال کرنے اور ماحول کو سنسنی خیز بنانے کی ضرورت کیا تھی؟
تحقیقاتی خبروں کے لیے مشہور انگریزی ویب سائٹ ’www.artical-14.com نے اسی مہینے تین قسطوں میں اتر پردیش میں تبدیلی مذہب اور لو جہاد کے قوانین کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف مقدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ پہلی قسط میں ویب سائٹ نے عیسائی مشنریوں اور پادریوں کے خلاف جبراً یا پھر لالچ دے کر تبدیلی مذہب کرانے کے الزامات کے تحت درج 100 ایف آئی آروں کا جائزہ لیش کیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 100 ایف آئی آروں میں سے 63 ایسی ہیں جو مکمل طور پر غیر قانونی ہیں کیوں کہ تبدیلی مذہب مخالف قانون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ شکایت، تبدیلی مذہب کرنے والے کا خونی رشتہ دار ہی درج کراسکتا ہے مگر بیشتر ایف آئی آریں تیسرے فرد یا پھر دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں نے درج کرائی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایف آئی آریں مذہبی کتابیں تقسیم کرنے پر درج کرائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرتے وقت حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ یہ سوال کیا کہ ایف آئی آر درج کرانے کا اختیار آپ کو نہیں ہے۔ دوسری قسط میں عدالتوں میں جاری مقدمات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تبدیلی مذہب کے بیشتر کیسوں میں عدالتوں میں ملزمین کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں پولس ناکام رہی ہے۔
مئی 2023 میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل لا اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے بتایا تھا کہ 2020 میں تبدیلی مذہب مخالف قانون پاس ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 433 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایکٹ کا سیکشن 5 (1) سزا کا تعین کرتا ہے، جس میں جرمانے کے ساتھ کم از کم ایک سال قید اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک کی سزا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایکٹ کے دفعہ 4 میں کہا گیا ہے کہ تبدیلی مذہب کے خلاف شکایت کرنے والے کا تعلق براہ راست تبدیلی مذہب کرنے والے سے ہونا چاہیے مگر جب ان 100 ایف آئی آروں کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ ان میں سے 62 فیصد میں ہندوتوا تنظیم کے ارکان سمیت تیسرے فریق کی طرف سے درج کردہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایف آئی آروں میں ایک ہی طرح کے جملے دہراے گئے ہیں کہ ’’ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ متعلقہ جگہ پر تبدیلی مذہب کروایا جا رہا ہے۔ عیسائیوں کی دعائیہ مجلس پر تبدیلی مذہب کرانے کا الزام لگا کر شکایت درج کرائی گئی ہے۔ کمزور شواہد اور سنی سنائی باتوں پر پولیس انتظامیہ کا ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت دینا ایکٹ کے غلط استعمال کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی تیسرا شخص آسانی سے کیس میں فریق بن سکتا ہے۔ہندوتوا تنظیم کے ارکان کی طرف سے درج کرائی گئی کچھ ایف آئی آروں میں ایک عام بات یہ ہے کہ ہندو دیوتاؤں کی کسی بھی قسم کی بے عزتی کو بھی جبری تبدیلی کا ایک ذریعہ شمار کیا گیا ہے۔ یو پی کے پاس تبدیلی مخالف ایکٹ کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ تبدیلی مذہب مخالف قانون کی دفعہ 12 میں شکایت کرنے والے پر ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے بلکہ ملزمان کی ذمہ داری ہے وہ یہ ثابت کریں کہ وہ بے قصور ہیں۔ اس طرح کی زبان سے قانون، پولیس اور عوام کے ہاتھ میں ایک آلہ بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جعلی ایف آئی آریں بنتی ہیں۔
احمد نگر کے واقعات کے حقائق
کانونگو کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گاؤں کی ایک خاتون (چوں کہ پوکسو کے تحت اس وقت مقدمہ چل رہا ہے اس لیے اصلی نام ظاہر نہیں کیے جا رہے ہیں) کم عمر لڑکیوں کو ٹیوشن دینے کے بہانے مذہبی تبدیلی کا ایک منظم ریکیٹ چلا رہی ہے۔ مسلم خاتون مبینہ طور پر اسلام قبول کرنے پر گاؤں کی ہندو لڑکیوں کو مجبور کرتی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں دودھ اور چاول میں کسی قسم کا پاؤڈر ملا کر کھلاتی ہے۔ اس سے متعلق دعویٰ ہے کہ اس سے اسلام کی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ خاتون ٹیچر پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے وہ ہندو لڑکیوں کو گاؤں کے ایک مسلم نوجوان سے بات کرنے اور اس کے ساتھ بھاگنے پر مجبور کر رہی تھی۔اس کے علاوہ یہ بھی الزام ہے کہ خاتون مسلم ٹیچر اور مسلم نوجوان کی مدد گاؤں کے کئی نوجوان کر رہے تھے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی اس رپورٹ پر کئی سوالات اس لیے کھڑے ہو رہے ہیں کہ مسلم خاتون ٹیچر ایک اسکول میں پڑھاتی ہیں اور 2016 سے ہی گاؤں میں کوچنگ کلاس بھی چلاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ ساری شکایتیں جولائی 2023 کے بعد ہی سامنے کیوں آئیں؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2021 سے ہی تبدیلی مذہب کا ریاکٹ چلایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ 2020 اور 2021 میں کورونا کی وجہ سے آف لائن کلاسیس ہی نہیں ہوئیں تو تبدیلی مذہب کا سوال کہاں سے آگیا۔ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی رپورٹ میں احمد نگر کے اس گاؤں میں جولائی میں ہونے والے واقعات کو نظر انداز کیوں کر دیا گیا ہے؟
دراصل احمد نگر کا 20 سالہ مسلم نوجوان عمران (نام کی تبدیلی کے ساتھ) جو ممبئی میں تعمیراتی کام کرتا ہے، اس کی 16 سالہ بہن کی پڑوس میں رہنے والی ایک 13 سالہ غیر مسلم لڑکی سے دوستی تھی۔ اس سال عید کے موقع پر تینوں نے سیلفی لی تھی۔ اس پورے تنازع کے پیچھے اسی سیلفی کا رول ہے۔ سیلفی کی تصویر عام ہونے کے بعد گاؤں کے ہندو نوجوان ناخوش تھے کہ مسلم نوجوان نے ہندو لڑکی کے ساتھ سیلفی کیوں لی۔ جولائی میں جب وہ مسلم نوجوان شہر سے گاؤں میں آیا تو گاؤں کے چند ہندو نوجوانوں نے اس پر حملہ کر دیا جس میں عمران اور اس کا دوست شدید زخمی ہوگئے۔ دونوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ عمران کا ہاتھ اس واقعے میں ٹوٹ گیا۔ گاؤں والوں کی مداخلت کے بعد اس معاملے میں شکایت درج نہیں کرائی گئی مگر پولیس نے ہسپتال پہنچ کر عمران کے بیانات کو درج کیا جس میں عمران نے پانچ ہندو لڑکوں پر حملہ کرنے کا الزام لگایا۔ اس واقعے کے ایک دن بعد 26 جولائی کی شام کو تقریباً 50 ہندو نوجوانوں کا ایک گروپ جمع ہوا جس میں وہ پانچ یا چھ افراد بھی شامل تھے جنہوں نے مبینہ طور پر عمران پر حملہ کیا تھا۔ اس گروپ نے مسجد میں توڑ پھوڑ کی۔ اس واقعے کے خلاف گاؤں کے ایک نوجوان محمد جاوید نے پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی جس کے مطابق، ہجوم نے مسجد میں توڑ پھوڑ کی، مسلمانوں کی دکانوں کو تباہ کیا اور مذہبی گالیاں دیں، لوہے کی سلاخوں اور لاٹھیوں سے مسلح ہجوم نے قریب ہی جاوید کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔ ہجوم نے دھمکی دی کہ وہ مسلمانوں کو گاؤں میں نہیں رہنے دیں گے۔ اگر کسی نے پولیس سے رابطہ کیا تو جان سے مار دیں گے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ کچھ مسلمان خوف کے مارے گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس ایف آئی آر میں 25 افراد کے نام درج کرائے گئے ہیں۔ جاوید نے 27 جولائی کی صبح 3.30 بجے مسجد پر حملہ کے واقعے پر ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ اس کے محض تین گھنٹے بعد ہندو نابالغ لڑکی تنوی اور اس کے گھر والوں نے صبح 6.30 بجے عمران اور اس کی 16 سالہ بہن کے خلاف پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی کہ عمران کی بہن نے تنوی کو گزشتہ سال عید پر مٹھائی کھانے کی دعوت دی تھی۔ اس کے بعد عمران کی بہن نے ان تینوں کی سیلفی لی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ عید کے دو دن بعد عمران کی بہن نے تنوی کو اپنے بھائی سے بات کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے اسے بتایا کہ عمران نے ان کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا ہے اور اسے چیٹنگ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر تنوی نے عمران سے بات نہیں کی تو عمران کی بہن ان تصاویر اور چیٹس کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دے گی۔اس معاملے میں تعزیرات ہند کی کئی دفعات کے ساتھ پوکسو ایکٹ اور IT ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا۔ چوں کہ اس وقت عمران اسپتال میں تھا اور بہن نابالغ تھی اس لیے گرفتاری نہیں ہوسکی۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاوید کی بھابھی جو اسکول ٹیچر ہے اور کوچنگ کلاس کراتی ہے اسے کوچنگ کلاس میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ 28 اور 29 جولائی کو اسی پولیس اسٹیشن میں دو مزید ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔ دونوں ایف آئی آریں ایک ہی گاؤں کی نابالغ ہندو لڑکیوں نے درج کرائی ہیں۔ ایک لڑکی نے بتایا کہ اس نے 2021 میں جاوید کی بھابھی کی ٹیوشن کلاس میں پڑھا تھا۔ دوسری نے بتایا کہ اس نے 2022 میں کلاس لی تھی۔ دونوں نے دعویٰ کیا کہ جاوید کی بھابھی اپنی کلاس میں نابالغ ہندو لڑکیوں پر زور دیتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دوستی کریں اور مسلمانوں کی طرح رہیں۔ ٹیچر عمران کے ساتھ بات کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ عمران کوچنگ کلاس آتا تھا اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کرتا تھا۔اس ایف آئی آر میں جاوید سمیت دیگر چھ نوجوانوں کے خلاف بھی شکایت کی گئی کہ یہ لوگ عمران کی مدد کرتے تھے۔ پولیس نے ان تینوں ایف آئی آروں پر کارروائی کرتے ہوئے خاتون ٹیچر، عمران، جاوید، ضمیر، عرفان، ساحر اور احمد کو گرفتار کیا۔ اس معاملے میں جاوید، ضمیر اور احمد کو احمد نگر سیشن کورٹ نے 19 اگست کو ضمانت دی تھی۔ عرفان اور ساحر کو 16 اکتوبر کو ضمانت دی گئی تھی۔ مہر اور عمران اب بھی مقامی سب جیل میں بند ہیں۔ انہوں نے بامبے ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواستیں دائر کی ہے۔ یہ پورا واقعہ اشارہ کرتا ہے کہ کس طریقے سے ایک چھوٹے سے واقعے کو لے کر تبدیلی مذہب کی پوری کہانی گھڑی کی گئی ہے۔ خاتون ٹیچر 2016 سے پڑھا رہی ہیں مگر اس سے قبل کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔ آخر میں درج ہونے والی دونوں ایف آئی آروں میں ایک ہی طرح کے الزامات اور الفاظ ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عمران اور اس کی بہن کی ہندو لڑکی تنوی اور اس کے گھر والوں سے دوستی کئی سالوں سے ہے۔ دونوں گھرانوں کا باہمی میل جول بھی ہے۔
جبری تبدیلی مذہب قانون کا از سرنو جائزہ لینا کیوں ضروری ہے؟
جبری تبدیلی مذہب کی بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی اس پر بحث کا آغاز ہوگیا تھا۔ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں پر حکومتوں کی نظریں رہی ہیں۔ آزادی کے 20 سال بعد ہی 1967 میں پہلی مرتبہ اڑیسہ کی حکومت نے ’’فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 1967‘‘ پاس کیا اور اس کے ذریعہ تبدیلی مذہب کی کوششوں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ایک سال بعد مدھیہ پردیش کی حکومت نے اڑیسہ کے ایکٹ کی طرح ’’ایم پی دھرما سوانتریہ ادھیم 1968‘‘ پاس کیا۔ اس کے بعد مزید دس ریاستوں نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین پاس کیے۔ اڑیسہ میں جب پہلی مرتبہ قانون پاس کیا گیا تھا اس وقت ریاست میں عیسائیوں کی آبادی دو لاکھ یا آبادی کا 1.1 فیصد تھی جبکہ ہندوؤں کی آبادی 1.7 کروڑ تھی۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اڑیسہ میں عیسائی، جملہ آبادی کا صرف 0.29 فیصد ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اڑیسہ میں اب بھی عیسائی مشنریوں پر تبدیلی مذہب کے الزامات لگتے ہیں۔ تقسیم کے بعد سے مذہبی آبادی نسبتاً مستحکم رہی ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کا 79.8 فیصد ہندو ہیں جبکہ مسلمان 14.2 فیصد ہیں۔ بقیہ 6 فیصد میں سے زیادہ تر عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جینی ہیں۔ 1951 اور 2011 کے درمیان، ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں 4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔جب کہ ہندوؤں کی آبادی میں 4 فیصد کمی آئی ہے اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی کی شرح میں گراوٹ آئی ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں آبادی مستحکم رہی ہے۔ آبادی کی نمو کے تناظر میں تبدیلی مذہب کو بڑا مسئلہ بنانے والوں سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر لالچ دے کر مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے تو اس کی وجہ سے ڈیموگرافی میں تبدیلی کیوں نہیں آئی؟ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہونے والی 7 مردم شماریوں میں ڈیموگرافی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دکھائی گئی ہے۔
اڑیسہ اور مدھیہ پردیش کے بعد 1978 میں اروناچل پردیش میں، 2000 میں چھتیس گڑھ میں، 2006 میں گجرات میں، 2003 میں ہماچل پردیش میں، 2006 اور 2019 میں جھارکھنڈ میں اور 2017 میں اتراکھنڈ میں تبدیلی مذہب مخالف قانون پاس کیا گیا۔ ہماچل پریش اور اتراکھنڈ کے قانون میں ایسی شادی کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس میں تبدیلی مذہب کی گئی ہو۔ 2002 میں تمل ناڈو میں اور 2006 میں راجستھان میں یہ قانون منظور کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بلوں کو براہ راست مذہبی تبدیلی کی ممانعت کا بل نہیں کہا جاتا ہے بلکہ مذہب کی آزادی قانون سازی کہا جاتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ 1977 میں سپریم کورٹ نے اڑیسہ کے ’’فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 1967‘‘ اور مدھیہ پردیش کے ’’ایم پی دھرما سوانتریہ ادھیم 1968‘‘ ایکٹ کو آئین قرار دیا ہے مگر ان دونوں ایکٹوں اور حالیہ برسوں میں پاس ہپونے والے ایکٹ میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ 2014 میں مرکز میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کی زیر اقتدار پانچ ریاستوں نے تبدیلی مذہب قوانین میں ترمیم کی یا پھر از سرنو قانون پاس کیے ہیں۔ جھارکھنڈ، ہماچل پردیش، کرناٹک، اتر پردیش، ہریانہ اور اتراکھنڈ میں منظور کیے گئے مذہب تبدیلی مخالف قوانین کا جائزہ لینے سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین اور نابالغوں کے مذہب تبدیل کرنے والوں کے لیے اعلیٰ ذات کے مرد کے تبدیلی مذہب کرنے کے مقابلے میں زیادہ سزا کا انتظام کیا گیا ہے۔ جھارکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2017 کے مطابق جب کوئی بالغ اعلیٰ ذات کا مرد مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کے لیے تین سال قید یا 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے۔ جبکہ ایس سی، ایس ٹی، خواتین اور نابالغ کو مذہب تبدیل کرنے پر چار سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔ یو پی میں غیر قانونی تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 میں بھی نابالغ اور خواتین کے علاوہ نچلی ذاتوں اور آدیواسیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر زیادہ سزا ہے۔
2017 کے بعد جن ریاستوں نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین میں ترمیم کی یا پھر ازسر نو پاس کیا ان میں کئی ایسی دفعات ہیں جو آئین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں جن میں آئین کے بنیادی دفعات آرٹیکل 25 کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کئی ایسی بنیادی خامیاں ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ اور مختلف ریاستوں کے ہائی کورٹوں میں ان قوانین کو چیلنج کیا گیا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس اہم مقدمہ کو جس سے براہ راست شہری متاثر ہو رہے ہیں، پولیس کی پشت پناہی سے دائیں بازوں کی تنظیمیں ان قوانین کی آڑ میں اقلیتوں کو ہراساں کر رہی ہیں، ترجیحی بنیاد پر سماعت نہ کیا جانا انصاف کے خلاف ہے۔
اسی سال مارچ میں جاری کردہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی مختلف ریاستی حکومتوں کے ذریعہ نافذ کردہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین بھارت کے ذریعہ دستخط شدہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ 14 مارچ 2023 کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 ریاستوں میں نافذ کیے گئے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (ICCPR) کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 12 ریاستوں میں تبدیلی مخالف قانون، مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحفظات کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے قوانین موجودہ حکومتی ایذا رسانی، تشدد اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن ک حوصلہ بخشتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بھارت کو تشویش ناک ملک کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
امریکی ادارے کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں نے بھی تبدیلی مذاہب مخالف قانون پر اعتراضات کیے ہیں اور قانون سازی کی نیت اور اس کے غلط استعمال پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ اترپردیش، ہریانہ اور اتراکھنڈ میں بڑے پیمانے پر قانون کے غلط استعمال کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اترپردیش کے مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی کا مقدمہ ہمارے سامنے ہے۔ ان کو بھی تیسرے فریق کی شکایت کی بنیاد پر طویل مدت تک جیل میں رکھا گیا ہے۔ یہی صورت حال عمر گوتم کی بھی ہے جنہیں اس مقدمے میں ضمانت مل چکی ہے مگر منی لانڈرنگ کے معاملے میں ضمانت ملنی باقی ہے۔ دراصل تبدیلی مذہب سے متعلق پروپیگنڈا اور میڈیا کا شور وغل، جھوٹے اعداد و شمار اس قدر بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے ہیں کہ بسا اوقات عدالتیں بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔ پولیس انتظامیہ تو ہمیشہ سیاست دانوں کے دباؤ میں رہتا ہے۔ اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی عدالتیں حالیہ برسوں میں منظورہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین کا آئین کے بنیادی اصولوں کے تناظر میں جائزہ لیں۔ جھوٹے مقدمات اور غلط ایف آئی آریں درج کرانے والوں کے خلاف بھی قانونی سازی کی جائے۔ اگر فوری طور پر یہ اقدامات نہیں کیے گئے تو اندیشہ ہے کہ اقلیتوں اور ان کے اداروں کے خلاف اس قانون کے بے جا استعمال کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جائے گا۔
***
***
جبری تبدیلی مذہب کی بحث کوئی نئی نہیں ہے۔آزادی کے بعد سے ہی اس پر بحث کا آغاز ہوگیا تھا۔عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں پر حکومتوں کی نظریں رہی ہیں ۔آزادی کے 20سال بعد ہی 1967میں پہلی مرتبہ اڑیسہ حکومت نے ’’فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 1967‘‘ پاس کیا اور اس کے ذریعہ تبدیلی مذہب کی کوششوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ۔اس کے ایک سال بعد ہی مدھیہ پردیش حکومت اڑیسہ کے ایکٹ کی طرح ’’ایم پی دھرما سوانتریہ ادھیم 1968‘‘ پاس کیا۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے 10 ریاستوں نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین پاس کئے۔اڑیسہ میں جب پہلی مرتبہ قانون پاس کیا گیا تھا اس وقت ریاست میں عیسائیوں کی آبادی 2 لاکھ یا آبادی کا 1.1فیصد تھی، ہندوؤں کی آبادی 1.7کروڑ تھی۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اڑیسہ میں عیسائی آبادی کا صرف 0.29فیصد ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اڑیسہ میں اب بھی عیسائی مشنریوں پر تبدیلی مذہب کے الزامات لگتے رہے ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023