سستی اور کاہلی

شریعت اسلامیہ میں ایک ناپسندیدہ عمل

سہیل بشیر کار، بارہمولہ

دنیا کی ترقی تبھی ممکن ہے جب لوگ متحرک ہوں۔ دین اسلام اپنے پیروکاروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دنیوی زندگی بھی بہتر طریقے سے بسر کریں، معاشرہ میں ہر طرف حرکت ہو۔ وہ ایسے معاشرہ کو پسند نہیں کرتا جہاں کے لوگ سست اور کاہل ہوں۔ رسول رحمت حضرت محمد ﷺ کی دعاوں میں ایک دعا ہمیں یہ بھی ملتی ہے: ’’ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے، سُستی سے، نکمی عمر سے، عذابِ قبر سے، دجال کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے‘‘(بخاری) آپ لوگوں کو محنت کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "محنت و مشقت کسی بھی کام کو لگن سے کرنا اور کسی بھی کام کو آگے بڑھ چڑھ کر کرنا مومنین کا شیوہ ہے‘‘ اسلام چاہتا ہے کہ مسلم معاشرہ ایسا ہو جہاں ہر طرف گہما گہمی ہو، مگر بدقسمتی سے آج امت مسلمہ سستی اور کاہلی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے دنیا کے تمام ممالک کا سروے کرکے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں سُستی کے حوالے سے تمام ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس میں سر فہرست اسلام کے مرکز یعنی سعودی عرب کو رکھا گیا ہے۔ دین اسلام عبادات کے معاملے میں بندے سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عبادت میں کاہلی نہ کرے۔ عبادت میں کاہلی کو قرآن منافقین کا شیوہ قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بعض سست لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ ’’وہ نماز کے لیے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں‘‘ (سورۃ التوبہ: 54) اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے عام راستے پر چلنے میں بھی مریل چال پسند نہیں کرتا۔ مزاج شناس رسول حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکاتے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار کر کہا: ’’سر اٹھا کر چل اسلام مریض نہیں ہے‘‘ ایک اور شخص کو انہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا: ’’ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے‘‘ یہ اس لیے کیونکہ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں یہ خطرہ لاحق ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کےسامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کردے گی ۔ ایسا ہی واقعہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا جب انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے چل رہے ہیں ۔ پوچھا کہ انہیں کیا ہوا؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا : عمر سید القراء تھے مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے تھے‘‘ (تفہیم القرآن) جو دین راستہ چلنے میں سستی نہیں برداشت کرتا وہ باقی کاموں میں سستی کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟
سادہ لفظوں میں کسی فریضہ کو بر وقت اور صحیح رنگ میں انجام نہ دینا سستی کہلاتا ہے۔ طبیعت کا بوجھل پن اور کام کاج کو جی نہ چاہنا بھی سستی کہلاتا ہے۔ اسی طرح کاموں کو بار بار معرض التواء میں ڈالنا ’’اچھا کر لیتے ہیں‘‘ کی جھوٹی تسلیاں خود کو اور دوسروں کو دینا یہ سب سستی کا حصہ ہیں۔سستی کی حالت میں دماغ و اعصاب سوئے سوئے اور تھکے تھکے رہتے ہیں۔ کام میں دلچسپی، سبک رفتاری، لگن شوق، امنگ، ولولہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کام کی رفتار، استعداد کار دونوں متاثر ہوتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ جہاں وہ بہت متحرک زندگی گزار سکتا ہے وہیں وہ کاہلی بھی کر سکتا ہے۔ یہ کاہلی دراصل ایک امتحان ہے۔ کاہلی اور سستی کے جہاں اور نقصانات ہیں، وہیں بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کی صحت بگڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین صحت انسان کو جسمانی محنت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق سستی و کاہلی ملک کی ایک تہائی آبادی کو بیمار کر رہی ہے۔ WHO کے مطابق بھارت کی 125 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 34 فیصد یعنی 42 کروڑ لوگ کاہلی اور سستی کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں۔ کینیڈین ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ دن میں گھنٹوں ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہتے ہیں اور چلنے پھرنے یا جسمانی مشقت سے جی چراتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ بھی دوسروں کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے۔ بحیثیت امت مسلمہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہوں، ہم زندگی کے ہر مرحلے میں دنیا کو دینے والے بنیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے اندر سستی و کاہلی نہ ہو۔
سستی اور کاہلی کا علاج
1۔ اپنے مقصد زندگی پر نظر :
اللہ رب العزت نے انسان کو دنیا میں ایک مقصد کے تحت پیدا کیا۔ انسان سے سوال کیا جائے گا کہ اس نے کیسی زندگی گزاری۔ جب انسان بامقصد زندگی گزارے اور آخرت میں جوابدہی کا احساس بھی ہو تو وہ کبھی کاہلی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اسے اس امر کا ادراک ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی ایک مہلت ہے۔ اس لیے وہ اس مہلت کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوششں کرتا ہے۔
2۔ اچھے لوگوں کی صحبت :
وہ لوگ جو متحرک رہتے ہیں، اپنی توانائیاں، صلاحیتیں اعلیٰ مقاصد کی حصولیابی کے لیے لگاتے ہیں، انسان کو ان کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ وہ بھی زندگی کے مقصد سے واقف ہو اور اپنی توانائیاں مثبت کاموں میں لگا سکے۔
3۔ دن کے کاموں کی فہرست مرتب کرنا :
ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ایک ڈائری میں ہر روز ان چیزوں کی فہرست مرتب کرے جو وہ دن بھر کرے گا۔ اور شام کو اس فہرست کی جانچ کرے کہ کتنے ٹاسک پورے کیے۔ آجکل موبائل فون کے نوٹس میں بھی یہ فہرست بنا سکتے ہیں۔ یہ عادت آہستہ آہستہ آدمی کو سستی سے نجات دے گی۔
4۔ صبح جلدی اٹھنا :
ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ کہہ کر پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔ پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرنے لگے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بند اور خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ بد مزاج اور سست رہتا ہے“ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ نماز چھوڑ کر صبح دیر تک سوتے رہنا بھی سست مزاجی کا ایک سبب ہے۔
5۔ ورزش :
ورزش کے ذریعے آپ خود کو چاق و چوبند رکھ سکتے ہیں۔ روزانہ ورزش کے لیے وقت ضرور نکالیں۔ صحتمند مومن لاغر و کمزور مومن سے افضل ہے اور اپنی صحت کا خیال رکھنے والا شخص ہر کام کا حق ادا کرسکتا ہے۔
6۔ منفی سوچ سے دوری:
کبھی کبھار ہماری سوچ بھی ہمارے منفی رویے و مزاج کا سبب بنتی ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کے منفی جملے آرہے ہیں کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا، میں بہت کاہل ہوں، تو فوراً ایسی سوچ سے چھٹکارا حاصل کریں اور مثبت سوچ کی طرف اپنے آپ کو موڑ دیں۔ آپ کے فکر کے دھارے میں تبدیلی آپ کے نقطہ نظر کو تبدیل کرسکتی ہے۔
7۔ مسنون دعاؤں کو اپنے معمولات کاحصہ بنائیں:
رسول رحمت ﷺ جن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے ان میں ایک سستی اور کاہلی ہے، اس لیے کہ استعانت و استعاذہ یعنی اللہ سے مدد اور شیطان سے پناہ چاہے بغیر سستی جیسی بیماری سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
8۔ نیند پوری کیجیے:
نیند اللہ کی رحمت ہے۔ صحت مند زندگی کے لیے اچھی نیند ضروری ہے، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے بھی سُستی پیدا ہوسکتی ہے۔ اپنی عمر کے مطابِق 7 یا 8 گھنٹوں کی نیند ضرور لیجیے۔
دنیا میں انسان ایام معدود کے لیے ہی آیا ہے۔ یہ زندگی آرام کے لیے نہیں ہے، آرام تو موت کے بعد کرنا ہی ہے، اس وقت کرنے کا کام یہی ہے کہ ہم اپنے شب و روز کو ایک نظم کا پابند بنا کر بسر کریں۔ جو بھی امور طے کرنے ہوں خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ہوں انسان کا بنیادی شرف یہ ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر کسی بھی قیمت پر وہ کام پورا کرنے کی کوشش کرے۔ سستی و کاہلی، رفتار کی موت ہے اور جو افراد یا اقوام وقت کے ساتھ مسابقت نہیں کرتے وہ تنہا ہو کر گمنامی کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں۔ پھر تاریخ کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتا کہ وہ کبھی دنیا میں رہے تھے یا نہیں۔
***

 

***

 سادہ لفظوں میں کسی فریضہ کو بر وقت اور صحیح رنگ میں انجام نہ دینا سستی کہلاتا ہے۔ طبیعت کا بوجھل پن اور کام کاج کو جی نہ چاہنا بھی سستی کہلاتا ہے۔ اسی طرح کاموں کو بار بار معرض التواء میں ڈالنا ’’اچھا کر لیتے ہیں‘‘ کی جھوٹی تسلیاں خود کو اور دوسروں کو دینا یہ سب سستی کا حصہ ہیں۔سستی کی حالت میں دماغ و اعصاب سوئے سوئے اور تھکے تھکے رہتے ہیں۔ کام میں دلچسپی، سبک رفتاری، لگن شوق، امنگ، ولولہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کام کی رفتار، استعداد کار دونوں متاثر ہوتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023