سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

کلام اقبال میں حج و قربانی کا ذکر۔اور صنعت تلمیح کا استعمال

سید احمد سالک ندوی، بھٹکل

شاعری میں صنعتِ تلمیح کا استعمال بہت عام بات ہے۔ تلمیح یعنی ایک لفظ کے ذریعے سے کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرنا اور اس ایک اشارے سے پوری بات بتا دینا اسے اصطلاحِ شعر و ادب میں ’ تلمیح‘ کہا جاتا ہے۔اس صنعت کے استعمال سے شعر میں نہ صرف یہ کہ حُسن پیدا ہوتا ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی شعر کی وسعت بڑھ جاتی ہے۔اردو شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو شعراء نے تلمیحات کا بے حد استعمال کیا ہے مثلاً حُسنِ یوسف، دامنِ مریم، کوہِ طور، آتشِ نمرود، آدم و خلد، دمِ عیسی، صبرِ ایوب، لَن تَرَانِی، اعجازِ مسیحائی اور ماہِ کنعاں جیسی بیشتر تلمیحات اردو شاعری میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
اردو شاعری کی کم و بیش تین سو سالہ تاریخ میں سیکڑوں شعراء نے ان اسلامی اور قرآنی تلمیحات کو استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال نے چونکہ اردو شاعری میں جابجا اسلامی افکار کو پیش کیا ہے اور ایک فکر کو یقین کی روشنی عطا کی ہے اس لیے ان کے یہاں ایسی تلمیحات کا استعمال زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات ہی علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا محور رہے ہیں۔ محققین کے مطابق کلامِ اقبال میں کم و بیش ایسے پانچ سو‌ اشعار ملیں گے جن میں قرانی آیات کی ترجمانی کی گئی ہے۔
اسلامی موضوعات کے لحاظ سے بھی ہم علامہ اقبال کی شاعری کا جائزہ لے سکتے ہیں لیکن سرِدست حج و قربانی اور اس سے متعلق یادگاروں پر ان کے کچھ اشعار پر ہم گفتگو کریں گے۔حج اور قربانی کے موضوعات پر جب وہ کچھ لکھتے ہیں تو ان کے یہاں ان مقاماتِ مقدسہ کا بے حد احترام اور آخری درجے کی عظمت دیکھنے کو ملتی ہے۔ 1905 میں علامہ اقبال جب اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے اور ان کا جہاز عدن کے بندرگاہ سے ہو کر گزرا تو ان میں عجیب و غریب کیفیت پیدا ہوگئی۔ ساحلِ عرب کے تصور سے ہی ان کی جو کیفیت ہوئی اس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک دوست کو لکھے گئے خط‌ میں کیا ہے۔علامہ اقبال کے یہاں ارضِ مقدسہ کی خاک کا بھی بڑا احترام ہے۔یہ ایمان اور یقین کی آخری حد ہے جس میں انسان خود اپنے وجود کو فنا کر دیتا ہے اور اپنی جان کو راہِ حق میں قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔
حج اور قربانی کا تصور اسی جذبۂ قربانی کی یادگاریں ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے کلام میں غلبۂ اسلام کے لیے پیش کی جانے والی تاریخ کی دو عظیم قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا ایک سرا حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملتا ہے تو دوسرا سرا حضرت حسینؓ سے۔ یعنی جس قربانی کی ابتدا حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہوئی تھی حضرت سیدنا حسینؓ نے اس سلسلے کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
علامہ اقبال کے اشعار کا مطالعہ کریں گے تو مسلمانوں میں پائی جانے والی بے دینی پر ان کی تڑپ کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔ اخلاقی اقدار کی پامالی، فرائض میں کوتاہی اور بے روح عبادتوں کے ساتھ ایمان کے کھوکھلے دعوؤں کے معاملے میں ملت کی بے راہ روی پر علامہ اقبال کے یہاں بے انتہا کڑھن دکھائی دیتی ہے۔اسلامی احکام کی برائے نام ادائیگی کا تصور ان کے یہاں بے روح عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں
علامہ اقبال کہتے ہیں:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے
اسلام کے تصور حج کو واضح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے جس فکر کو نظم کے دھاگے میں پرویا ہے اس کے مطابق ایک صاحب ایمان کو اس راہ میں دیوانہ وار آگے بڑھ جانا چاہیے اور اس راہ میں سب کچھ لٹا دینے اور قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے کیونکہ اسی جذبہ جاں نثاری کی روح کی اس وقت ملت اسلامیہ کو ضرورت ہے۔
مغرب کی دانش گاہوں میں دنیا کی چمک دمک دیکھنے والے علامہ اقبال نے سر زمین مقدس کو دنیا کے تمام مقامات سے افضل قرار دے کر واضح کیا ہے کہ ارض مقدسہ کی خاک بھی سرمہ بنانے کے لائق ہے۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
تعلیم اور تربیت کے معاملے کو علامہ اقبال ہمیشہ صفہ نبوی سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ آج جدید ترین زمانے کی تعلیم گاہوں سے کسب فیض کرنے والے دل و نظر کی اس فکری تربیت سے محروم ہیں جس تربیت سے لیس علامہ اقبال اپنی ملت کے شاہینوں کو دیکھنا چاہتے تھے۔ حضرات انبیاء کرام کے صحبت یافتہ انسانوں نے دنیا میں اپنے اخلاق کے جو نقوش چھوڑے ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ علامہ اقبال نے اسی حوالے سے لوگوں کو بیدار کرنے والے انداز میں سوال کیا ہے کہ
وہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
حج اور قربانی کے تعلق سے علامہ اقبال کے بہت سے اشعار جو مشہور ہوئے انہیں پڑھ کر علامہ اقبال کی فکر مندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔معذرت کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ آج بہت سے زائرین حرم عبادت سے زیادہ تفریح کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس زاویے سے بھی زائرین حرم کا جائزہ لیا ہے۔ زائرین کے سامنے علامہ اقبال نے اس مقدس سفر کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک حاجی کو زاد راہ کے طور پر یہاں سے کیا لے کر جانا چاہیے تاکہ دنیا کو حرم کے ایمانی نور سے منور کیا جا سکے۔
زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
اسی طرح صرف حج ادا کرکے مناسک ادا کر کے دلوں میں ایمان کی روشنی پیدا کیے بغیر واپس لوٹنے والوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ
دیکھی نہ تیری آنکھ نے ایماں کے نظارے
افسوس صد افسوس کہ حاجی نہ بنا تو
اس کے علاوہ بھی علامہ اقبال کی شاعری میں حج و کعبہ زیارت مدینہ اور دوسری تلمیحات پر مبنی بہت سے اشعار دل و نظر کی روشنی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
***

 

***

 اردو شاعری کی کم و بیش تین سو سالہ تاریخ میں سیکڑوں شعراء نے ان اسلامی اور قرآنی تلمیحات کو استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال نے چونکہ اردو شاعری میں جابجا اسلامی افکار کو پیش کیا ہے اور ایک فکر کو یقین کی روشنی عطا کی ہے اس لیے ان کے یہاں ایسی تلمیحات کا استعمال زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات ہی علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا محور رہے ہیں۔ محققین کے مطابق کلامِ اقبال میں کم و بیش ایسے پانچ سو‌ اشعار ملیں گے جن میں قرانی آیات کی ترجمانی کی گئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024