عدالتِ عظمیٰ 2 اگست سے دفعہ 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعتوں کا آغاز کرے گی
نئی دہلی، جولائی 11: سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ وہ 2 اگست سے آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کرے گی۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنچ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور سابقہ ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے حکومت کے فیصلوں کو چیلنج کرنے والی 20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کی۔
بنچ نے کہا کہ وہ پیر اور جمعہ کو چھوڑ کر 2 اگست سے درخواست گزاروں اور مرکز کے دلائل کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی۔
عدالت نے درخواست گزاروں اور مرکز کو ہدایت کی کہ وہ 27 جولائی تک تمام تحریری گذارشات داخل کریں۔
پیر کو مرکز نے ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے اس کے فیصلے سے جموں و کشمیر میں ایسا امن، ترقی اور استحکام آیا جو ریاست میں پہلے نہیں تھا۔
سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے منگل کو بنچ کو بتایا کہ یہ حلف نامہ محض مرکزی زیر انتظام علاقے کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ مرکز کے اس حلف نامے کا فیصلوں کی آئینی حیثیت سے متعلق معاملے کی خوبیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے منگل کو کارکن شہلا رشید اور بیوروکریٹ شاہ فیصل کو درخواست گزاروں کی فہرست سے اپنے نام ہٹانے کی اجازت دے دی۔
فیصل نے گذشتہ سال ستمبر میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر کے طور پر بحال ہونے کے چند دن بعد ہی اپنی درخواست واپس لینے کی کوشش کی تھی۔ اس نے جنوری 2019 میں ’’کشمیر میں بے لگام ہلاکتوں‘‘ اور مرکز کی جانب سے اقدام کی مبینہ کمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سول سروسز کو چھوڑ دیا تھا۔ چند ماہ بعد انھوں نے اپنی سیاسی جماعت جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ کا آغاز کیا تھا۔
تاہم انھیں سول سروسز میں بحال کر دیا گیا اور اگست میں وزارت ثقافت میں ڈپٹی سیکریٹری مقرر کر دیا گیا۔
شہلا رشید، فیصل کی پارٹی کی رکن تھیں، لیکن اکتوبر 2019 میں انھوں نے انتخابی سیاست چھوڑ دی۔