سپریم کورٹ اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا سیاست دانوں کے لیے آزادی اظہار پر قدغن لگائی جا سکتی ہے
نئی دہلی، ستمبر 28: سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے پیر کو کہا کہ وہ 15 نومبر سے سیاست دانوں کے لیے آزادی اظہار اور اظہار رائے کی حدود سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
درخواستوں کی سماعت دسہرہ کی تعطیل کے بعد جسٹس ایس عبدالنذیر، بی آر گوائی، اے ایس بوپنا، وی راما سبرامنیم اور بی وی ناگارتھنا پر مشتمل بنچ کرے گا۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق پیر کو آئینی بنچ اس سوال پر ایک ریفرنس کی سماعت کر رہا تھا کہ کیا سیاست دانوں کی آزادی اظہار اور اظہار رائے کے حق کے لیے زیادہ پابندیوں کی ضرورت ہے۔
یہ مقدمہ 2016 میں اتر پردیش کے سابق وزیر اور سماج وادی پارٹی کے رہنما اعظم خان کے خلاف بلند شہر میں عصمت دری کی متاثرہ خاتون کے خاندان والوں کی طرف سے دائر کی گئی درخواست سے نکلا ہے۔ انھوں نے اس پر اعتراض کیا تھا جب اعظم خان نے عصمت دری کو ’’سیاسی سازش اور کچھ نہیں‘‘ بتایا تھا۔
سپریم کورٹ نے دسمبر 2016 میں خان کو اپنے ریمارکس کے لیے غیر مشروط معافی مانگنے کی ہدایت کی تھی۔ اس نے حساس معاملات میں سیاست دانوں کی آزادی اظہار پر پابندی عائد کرنے سے متعلق سوال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے اس وقت پوچھا تھا کہ کیا اعلیٰ عہدہ رکھنے والے افراد اور پرائیویٹ کارپوریشنز پر مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
پیر کے روز جسٹس ناگارتھنا نے مشاہدہ کیا کہ آزادی اظہار پر پابندیوں کو بڑھانا آئین کی طرف سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ ناگارتھنا نے نوٹ کیا ’’آزادی اظہار اور اظہار رائے کا حق بنیادی طور پر ریاست کے خلاف ہے۔‘‘ دفعہ 19(2) معقول پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اب اگر کسی خاص شخص نے کوئی ایسی تقریر کی ہے جو کسی کو پسند نہیں ہے تو وہ دوسرے قوانین کے تحت ہمیشہ کارروائی کرسکتا ہے۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے قبول کیا کہ سیاست دانوں کو تقریر میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ عدالت تمام سیاست دانوں پر مکمل پابندی عائد کرے۔