سپریم کورٹ نے اعظم خان کے خلاف درج مقدمات کو اتر پردیش سے باہر منتقل کرنے کی درخواست مسترد کر دی
نئی دہلی، جنوری 4: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز سماج وادی پارٹی لیڈر اعظم خان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں ان کے خلاف مقدمات کو اتر پردیش سے باہر دوسری ریاست میں منتقل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ نے سابق ایم ایل اے سے اپنی درخواست کے ساتھ الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ اس نے ہائی کورٹ کو بھی اس معاملے کو جلد اٹھانے کی ہدایت کی۔
خان کو نفرت انگیز تقریر، بدعنوانی اور چوری سمیت دیگر الزامات کے تحت تقریباً 90 مقدمات کا سامنا ہے۔
بدھ کی سماعت میں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے، جو خان کی طرف سے پیش ہوئے، دلیل دی کہ سابق ایم ایل اے کو اتر پردیش میں منصفانہ ٹرائل نہیں ملے گا۔ سبل نے عدالت کو بتایا کہ خان کو ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے حالاں کہ ان کی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
سبل نے نوٹ کیا کہ سزا کی وجہ سے خان کو رام پور سیٹ ہارنا پڑا۔ سینئر ایڈووکیٹ 2019 کے نفرت انگیز تقریر کیس میں خان کی سزا کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بعد میں انھیں سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کی بنیاد پر رام پور صدر کے رکن اسمبلی کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایک ایم ایل اے، ایم ایل سی یا ایم پی، جسے مجرمانہ کیس میں دو سال کی سزا ہوئی ہو، وہ ایوان کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا۔
سبل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خان کو ہراساں کیا جا رہا ہے کیوں کہ ان کے خلاف اتر پردیش میں سینکڑوں فرسٹ انفارمیشن رپورٹس درج کرائی گئی ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے جعلی دستاویزات پیش کیں اور ٹرائل کورٹ ان کے اعتراضات کا نوٹس نہیں لے رہا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ خان کے خلاف مقدمات کی منتقلی کی وجوہات سے قائل نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ غلط حکم تعصب کا اندازہ لگانے اور مقدمے کو ریاست سے منتقل کرنے کی بنیاد نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’’آج ٹرائل ہو رہا ہے اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں۔ یہ منتقلی کی بنیاد نہیں ہے۔ کیا آپ اس حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کر سکتے؟ آپ یوپی ریاست کے کسی دوسرے ضلع میں منتقلی کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ ریاست میں کہیں بھی آپ کی درخواست نہیں سنیں گے۔ معذرت ہم منتقل نہیں کر سکتے۔‘‘
سبل نے کہا کہ مقدمات کو کسی دوسرے ضلع میں منتقل کرنا مددگار نہیں ہوگا۔
لیکن سپریم کورٹ نے کہا ’’ہم آپ کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی آزادی دے رہے ہیں لیکن ہم منتقلی نہیں کر سکتے۔‘‘