سپریم کورٹ نئے فتنوں کا دروازہ بند کرے،عبادت گاہوں سے متعلق قانون پر عمل ضروری
فلسطین کا مسئلہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ عالم اسلام مشکل وقت میں جرأت کا مظاہرہ کرے
وقف کے قانون پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ۔ اہم مسائل پر تجاویز منظور
مسئلہ فلسطین کا پرامن حل،گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے سلسلے میں تنازعات ،یونیفارم سیول کوڈ کے نقصانات، اوقاف کے مسائل، نکاح کو آسان بنانا اور اصلاح معاشرہ جیسے اہم موضوعات پر پچھلے دنوں المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں:
۱۔ مجلس عاملہ کا اجلاس وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں جو نئے تنازعات پیدا کیے گئے ہیں، اس کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اجلاس کا احساس ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا، اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ، جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شر پسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔ متھرا کی عیدگاہ کے متعلق ۱۹۶۸ء میں کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ اس تنازعہ کو حل کر لیا گیا تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت عظمیٰ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ ان نئے فتنوں کا دروازہ بند کر کے ملک میں امن وامان اور قانون کی حکم رانی کو یقینی بنائے گا۔ اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے این ڈی ایم سی نے ٹرافک کا بہانہ بنا کر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا، سرِ دست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے؛ تاہم اجلاس کا احساس ہے کہ سنہری مسجد اور لنٹن ژون میں دیگر چھ مساجد شر پسندوں کے نشانے پر ہیں، بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان 123 جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے دے رکھا ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیریٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہیں ؛ لہٰذا ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔
۲۔ بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلا وطن کرنے پر تُلی ہوئی ہے ، اس نے ظلم و جبر کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے، اس جنگ کی ابتداء 7؍ اکتوبر 2023ء سے نہیں بلکہ جون 1967ء سے ہوئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ ،غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد ’’مسجد اقصیٰ‘‘ پر بھی قابض ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے؛ مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعماری طاقتوں کی شہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔ یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کی سخت مذمت کرتا ہے اور ان مسلم ملکوں کی بھی جنہوں نے فلسطینیوں کو بچانے کے لیے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور حد درجہ بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک اور بعد کی حکومتوں میں بھی ہمیشہ ہندوستان نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، حکومت ہندکو اپنے اسی دیرینہ موقف پر قائم رہنا چاہیے کیوں کہ فلسطینیوں کی لڑائی اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی، اور اپنے آپ پر ظلم کو روکنے کی جدوجہد ہے نہ کہ دوسروں پر ظلم کرنے کے لیے؟ یہ اجلاس غزہ کے مرد و خواتین، بچوں و بزرگوں اور نوجوانوں کے عزم واستقلال، پامردی وشجاعت اور صبر واستقامت کے جذبوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، اس کی ستائش کرتا ہے۔ یہ اجلاس عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں جرأت کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے؛ کیوں کہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ دینا اسلامی فریضہ بھی ہے اور انسانی فریضہ بھی ہے۔
۳۔ بورڈ پہلے بھی اس بات کو واضح کر چکا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لیے یونیفارم سیول کوڈ بالکل مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کے روح کے بھی خلاف ہیں۔اقلیتوں کو دستور میں جو ضمانت دی گئی ہے، یونیفارم سیول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا؛ اس لیے نہ مرکزی حکومت کو اور نہ کسی ریاستی حکومت کو یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات ہرگز نہیں کرنی چاہیے، یہ بات قطعاََ ناقابل قبول ہوگی۔
۴۔ اجلاس کا احساس ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے مؤثر تدابیر نہیں ہو رہی ہیں۔ آئے دن عورتوں کی عزت وآبرو پامال کی جا رہی ہے، افسوس کا مقام ہے کہ خواتین کی عزت وعفت کی پامالی میں حکم راں جماعت کے اہم افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں، اجلاس کا یہ بھی احساس ہے کہ خواتین کو اپنے جائز اور قانونی حقوق کو حاصل کرنے کے لیے طویل عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جس میں بہت وقت بھی صرف ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ بھی۔یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کر کے ان جرائم پر تیزی سے قابو پائے، محض قانون ساز اداروں میں 33 فیصد ریزرویشن دے دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
۵۔ اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لیے مسلمانوں کے دیے ہوئے مقدس اثاثے ہیں اور مسلمان ہی اس کے متولی ومنتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہے، اس لیے اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بازار کی شرح (مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشأ وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کرے؛ تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہوئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ کی ملکیت کہلاتی ہے ، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتا؛ بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کرنا واجب ہے، یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کرتا رہا ہے؛ چنانچہ آزادی سے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہوتی رہیں، یہاں تک کہ 2013ء میں اس قانون نے آخری شکل اختیار کی۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لیے عدالتی اختیارات دیے جائیں؛ تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔نیز یہ اجلاس قانون وقف کو منسوخ کرنے کے سلسلے میں کیے جانے والے ہر اقدام کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
یہ اجلاس اوقاف کے متولیوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے ناجائز استعمال سے بچیں، دوسروں سے بھی ان کو بچائیں اور وقف کی املاک کے سلسلہ میں اللہ سے ڈریں؛ کیوں کہ وقف کی جائیداد پر ناجائز قبضہ اور وقف کرنے والے کی منشاء کے خلاف ذاتی مفاد کے لیے اس کا استعمال بدترین خیانت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔
۶۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیر اُمت بنایا ہے اور ان کو دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لیے بھیجا ہے؛ لیکن افسوس کہ خود مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہے اور مختلف طبقات کے ساتھ خاص کر بوڑھے والدین اور خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے کثرت سے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ خاص کر نکاح کو مشکل بنا دینے کی وجہ سے سماج میں طرح طرح کی برائیاں پنپ رہی ہیں؛ اس لیے یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح جیسی مقدس تقریب کو آسان بنائیں، سنت کے مطابق نکاح کی تقریب رکھیں، لڑکی والوں سے کسی بھی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں؛ کیوں کہ یہ شریعت میں ناجائز اور حرام ہے۔
۷۔ یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عائلی اور سماجی معاملات میں احکام شریعت کے پابند رہیں، شوہر وبیوی اور رشتہ داروں کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو جائے تو دارالقضاء سے ہی رجوع کریں،اور قرآن وحدیث اور شریعت اسلامی کے مطابق جو فیصلہ ہو اس کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں۔اسی میں آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی بھی ہے۔ دارالقضاء کے ذریعہ کم وقت اور کم خرچ میں انصاف حاصل ہو سکے گا۔
۷۔ علماء سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ جمعہ کے بیانات ، مدارس کے جلسوں اور دیگر اجتماعات میں زیادہ سے زیادہ اصلاح معاشرہ پر گفتگو کریں اور خاص کر رمضان المبارک میں اس ماہ کو اصلاح معاشرہ کے مہینہ کے طور پر منائیں، جہیز اور فضول خرچی کے خلاف خطاب کریں اور لوگوں سے اس پر عمل کرنے کے سلسلہ میں عہد بھی لیں۔ علماء وائمہ بورڈ سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بورڈ کے نکاح نامہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے پر توجہ دیں۔
۸۔ یہ اجلاس مسلم خواتین سے اپیل کرتا ہے کہ وہ معاشرہ کی اصلاح میں اہم رول ادا کریں، خاص کر طلاق کے واقعات کو کم کرنے، بیٹے اور بہو کے درمیان تعلقات کو خوشگوار بنانے، غیر شرعی رسوم ورواج کو روکنے، بیٹیوں کو حق میراث دلانے اور نئی نسل کی دینی تربیت کرنے میں؛ کیونکہ سماج اور خاندان کی اصلاح میں ان کا ایک مثالی کردار ادا کریں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر بورڈ نے مذکورہ اجلاس کی صدارت کی اور بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کارروائی چلائی۔ بورڈ کے نائب صدر جناب سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے سکریٹریز مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی (مالیگاؤں) مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (بہار) مولانا ڈاکٹر یٰسین علی عثمانی(بدایوں) بورڈ کے خازن پروفیسر ریاض عمر کے علاوہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، جسٹس سید شاہ محمد قادری، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، مولانا صغیر احمد رشادی، مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر آف پارلیمنٹ جناب اسدالدین اویسی، مولانا نثار حسین حیدر آغا (اثناء عشریہ) مولانا محمد جعفر پاشا، مولانا مسعودحسین مجتہدی (مہدویہ) سینئر ایڈووکیٹ جناب یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، ترجمان(دہلی) مولانا عبدالعلیم قاسمی (بھٹکل) ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی (ممبئی) جناب محمد طاہر حکیم ایڈووکیٹ( گجرات) جناب کمال فاروقی (دہلی) جناب ضیاءالدین نیر، ڈاکٹر محمد مشتاق علی، مولانا سید اکبر نظام الدین، ڈاکٹر متین الدین قادری، جلیسہ سلطانہ یٰسین ایڈووکیٹ، عطیہ صدیقہ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، محترمہ فاطمہ مظفر اور ملک بھر سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024