
سپریم کورٹ کا اردو کے استعمال کی حمایت میں تاریخی فیصلہ، لسانی یکجہتی کی اہمیت اجاگر
مہاراشٹر میں میونسپل بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو کے استعمال کی اجازت
نئی دلّی: (دعوت نیوز ڈیسک)
عدالت عظمیٰ نے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ زبان کی سیاست سے اجتناب کا پیغام
بھارت کے لسانی تنوع کو فروغ دینے والے ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے ایک میونسپل کونسل کے بورڈ پر اردو کے استعمال کو تسلیم کر لیا۔ کورٹ نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس حکم کو برقرار رکھا جس میں ضلع آکولا کے پاتور میونسپل کونسل کو اپنے نام کو مراٹھی کے ساتھ اردو میں بھی ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے فیصلہ دیا کہ اردو کا استعمال مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز (آفیشل لینگویجز) ایکٹ 2022 کی خلاف ورزی نہیں ہے جو کہ مقامی اتھارٹیوں کے لیے مراٹھی کو سرکاری زبان کے طور پر لازمی قرار دیتا ہے۔ بنچ نے واضح کیا کہ یہ ایکٹ اضافی زبانوں کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں لگاتا جو صرف رابطے کے مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہوں۔
فیصلے کی تحریر میں جسٹس سدھانشو دھولیا نے بھارت کی لسانی تنوع کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ زبان کو کبھی بھی لوگوں کے درمیان تقسیم کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ ’’اگر کوئی علاقہ اپنی مقامی زبان کے ساتھ اردو میں بات چیت کرنے میں راحت محسوس کرتا ہے تو اس کا استعمال کوئی غلط بات نہیں ہے‘‘۔
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اردو نہ صرف بھارت کی ایک اہم زبان ہے بلکہ یہ مراٹھی اور ہندی کی طرح ایک ہند۔آریائی زبان ہے جو بر صغیر میں پروان چڑھی۔ اردو نے مختلف ثقافتی پس منظر والے لوگوں کے درمیان مؤثر رابطے کے لیے ایک مضبوط ذریعہ فراہم کیا۔
فیصلے میں اردو کے بھارت کی زبانوں اور روزمرہ کی گفتگو پر گہرے اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے، خاص طور پر قانونی زبان میں جہاں ’’عدالت‘‘،’’حلف نامہ‘‘ اور ’’پیشی‘‘ جیسے الفاظ کا باقاعدگی سے استعمال ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ آئین کے تحت انگریزی ہی اعلیٰ عدلیہ کی سرکاری زبان ہے، اردو سے ماخوذ اصطلاحات جیسے’’وکیل نامہ‘‘اور ’’دستی‘‘ اب بھی روزمرہ میں استعمال ہو رہی ہیں۔
عدالت نے زبان اور مذہب کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا ’’زبان مذہب نہیں ہے۔ یہ کسی طبقے، علاقے یا لوگوں کی ہوتی ہے، نہ کہ کسی خاص مذہب کی۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو گنگا جمنی تہذیب کا ایک نمائندہ نمونہ ہے اور شمالی اور وسطی ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کو مجسم کرتی ہے۔‘‘
فیصلہ ایک مشہور شاعر مولود بنزادی کے قول سے شروع ہوا، ’’جب آپ ایک زبان سیکھتے ہیں تو صرف اس زبان کو نہیں سیکھتے بلکہ آپ کھلے دل، لبرل، تحمل اور انسانیت کے لیے بھی کھلا رہنا سیکھتے ہیں‘‘
یہ مقدمہ پاتور میونسپل کونسل کی ایک سابق رکن کی طرف سے دائر کیا گیا تھا، جنہوں نے میونسپل عمارت کے نئے بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ ابتدائی طور پر ان کی درخواست کو میونسپل کونسل نے مسترد کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے یہ معاملہ مہاراشٹر میونسپل کونسل ایکٹ 1965 کے تحت دائر کیا۔ اگرچہ ایک ماتحت اتھارٹی نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور مراٹھی کے صد فیصد استعمال کا حکم دیا، لیکن اس فیصلے کو ڈویژنل کمشنر، امراوتی نے واپس لے لیا۔ اس کے بعد بمبئی ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ 2022 کا ایکٹ صرف سرکاری کارروائیوں کے لیے مراٹھی کو لازمی قرار دیتا ہے مگر بورڈز پر اضافی زبان کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اردو میں کونسل کا نام دکھانے سے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ نے اس خصوصی درخواست (SLP) کو مسترد کرتے ہوئے اسی بات کو دہرایا اور کہا کہ لسانی شمولیت سے رابطے میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ملک کے متنوع ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025