سوپر طاقتوں کا عروج و زوال اور اس کے اسباب

قرآنی اصول اور تاریخی تجزیہ

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

کائنات کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کا ایک خالق، مالک اور حاکم ہے۔ جب اقوام اور ان کے قائدین اللہ کی عطا کردہ عارضی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہوئے کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں، زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مہلت ختم ہونے پر انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کئی اقوام اور سلطنتیں اپنے وقت میں طاقت، علم، تمدن اور معیشت میں بامِ عروج تک پہنچیں مگر پھر زوال کا شکار ہوئیں۔ قرآن ان واقعات کو محض قصے کہانی کے طور پر نہیں بلکہ عبرت کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ امتِ مسلمہ سمیت دنیا کی ہر قوم ظلم، فسق و فجور اور تکبر سے بچنے کا شعور حاصل کرے۔
اس مضمون میں ان اسباب کا جائزہ لیا گیا ہے جو قرآن مجید قوموں کی تباہی کے پسِ منظر میں پیش کرتا ہے اور جو تاریخ میں بعد کی اقوام پر بھی صادق آتے ہیں۔ ان مثالوں میں خلافتِ راشدہ کے بعد بنو اُمیہ، بنو عباس، خلافتِ عثمانیہ، سلطنتِ اندلس، مغلیہ سلطنت، برطانوی سلطنت، سویت یونین اور امریکہ شامل ہیں۔
قرآن کی روشنی میں عروج کے اصول
1۔ ایمان اور تقویٰ:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی پاداش میں پکڑ لیا۔‘‘ (الاعراف: 96)
ایمان و تقویٰ انسان میں تواضع اور جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے جو ایک صالح معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دنیا میں بھی برکتوں سے نوازا جائے گا۔
کچھ غیر مسلم اقوام کے عروج کی وجہ ان کی اہلیت، نظم، اخلاقی اصولوں اور عسکری طاقت میں برتری ہوتی ہے۔ جیسا کہ اقبال نے کہا ہے:
’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ نیکی بغیر قوت کے اثر نہیں رکھتی اور قوت بغیر نیکی کے فساد برپا کرتی ہے۔
2۔ شکر گزاری:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم: 7)
شکر گزاری ترقی کا دروازہ کھولتی ہے، فرد اور قوم دونوں کے لیے۔
3۔ شریعت کا نفاذ:
جب اللہ کی شریعت کو نافذ کیا جاتا ہے تو وہ معاشرے کے لیے رحمت بن جاتی ہے، برائیاں دبتی ہیں، انصاف قائم ہوتا ہے اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
’’اگر وہ تورات، انجیل اور جو کچھ ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے، کو قائم رکھتے تو ان پر اوپر سے اور نیچے سے رزق برستا۔‘‘ (المائدہ: 66)
وہ اسباب جو عذابِ الٰہی کو دعوت دیتے ہیں
1۔ ظلم:
ظلم اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔
’’یہ بستیاں ہم نے ہلاک کر دیں جب انہوں نے ظلم کیا اور ان کی ہلاکت کے لیے وقت مقرر کر رکھا تھا۔‘‘ (الکہف: 59)
ظلم بڑھتا ہے تو عذاب قریب آتا ہے۔ خاموشی اختیار کرنا بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے، جیسا کہ آج اہلِ غزہ پر مظالم پر دنیا کی خاموشی۔
’’ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ (ہود: 18)
’’اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (آلِ عمران: 57)
2۔ کفر اور انکارِ رسالت:
جب رسولوں کی موجودگی میں اقوام اللہ کی آیات کو جھٹلاتی ہیں تو عذاب نازل ہوتا ہے۔
’’فرعون والوں اور ان سے پہلے کے لوگوں کی طرح جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔‘‘ (الانفال: 52)
عذابِ الٰہی کے اسباب
۳۔ تکبر:
جب انسان اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے تو وہ دوسروں کو حقیر جان کر ان پر ظلم کرنے لگتا ہے۔ یہ رویہ فرد میں بھی ہو سکتا ہے اور قوم میں بھی۔ فرعون نے بھی اسی تکبر کی بنا پر بنی اسرائیل کو غلام بنایا اور ظلم کیا جس کی سزا اسے دنیا ہی میں ملی۔
’’اس نے اور اُس کے لشکروں نے زمین میں ناحق بڑائی کا گھمنڈ کیا… تو ہم نے انہیں پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا۔ دیکھو، ظالموں کا کیسا انجام ہوا!‘‘ (القصص: 39-40)
۴۔ گناہوں کی کثرت:
جب قومیں اللہ کی آیات کو جھٹلا کر گناہوں میں ڈوب جاتی ہیں تو عذاب نازل ہوتا ہے۔
’’ہم نے ہر قوم کو ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑا… کسی پر پتھراؤ کیا، کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غرق کر دیا۔ اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔‘‘ (العنکبوت: 40)
۵۔ اخلاقی پستی:
جب خوش حال طبقات فحاشی، ظلم اور نافرمانی میں مگن ہو جاتے ہیں تو اللہ کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگ نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب ہم اس پر اپنا فیصلہ نافذ کر دیتے ہیں اور اسے برباد کر دیتے ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل: 16)
۶۔ کفرانِ نعمت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ایک بستی جو امن و سکون سے تھی، ہر طرف سے اسے رزق مل رہا تھا مگر اس نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کی سزا دی، جو اس کے اعمال کا نتیجہ تھی۔‘‘ (النحل: 112)
قدیم اقوام کی تباہی
قرآن میں قومِ نوح، عاد، ثمود، قومِ لوط اور قومِ فرعون کا بار بار ذکر آیا ہے۔ ان سب کا زوال اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا، حق کو رد کیا، اور ظلم و تکبر میں مبتلا ہو گئے۔
• قومِ نوح نے حضرت نوحؑ کی دعوت کو جھٹلایا۔
• قومِ عاد نے طاقت کے نشے میں تکبر کیا۔
• قومِ ثمود نے حضرت صالحؑ کی رسالت کا انکار کیا اور اللہ کی نشانی (اونٹنی) کو قتل کر دیا۔
• قومِ لوط فطری راستے سے ہٹ کر بد کاری میں مبتلا ہو گئی۔
• فرعون نے حضرت موسیٰؑ کے معجزات کو جھٹلایا اور بنی اسرائیل کی آزادی سے انکار کیا جس پر وہ اپنی فوج سمیت دریا میں غرق کر دیا گیا۔
یہ سب اقوام اپنے وقت کی مہذب اور طاقت ور تہذیبیں تھیں مگر اللہ کی نا فرمانی اور رسولوں کی تکذیب کی پاداش میں مٹ گئیں۔ آج بھی ان کی بربادی کے آثار باقی ہیں جو ہمارے لیے سامان عبرت ہیں۔
اسلامی خلافتوں کا عروج و زوال:
۱۔ خلافتِ بنو اُمیہ (۶۶۱ء تا ۷۵۰ء)
خلفائے راشدین کے بعد اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ خلافتِ راشدہ کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہونے کے باوجود اسلامی سلطنت وسعت اختیار کرتی گئی۔ حضرت معاویہؓ کے دورِ حکومت اور اس کے بعد بنو اُمیہ نے انتظامی اصلاحات، عدل و قانون اور عسکری طاقت کی بنیاد پر ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ اموی دور میں مراقش، الجزائر، لیبیا، اسپین (اندلس) بخارا، سمرقند، ازبکستان، تاجکستان اور برصغیر میں سندھ تک اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا۔
عبدالملک بن مروان نے عربی کو سرکاری زبان قرار دیا، اسلامی سکہ جاری کیا اور ڈاک کا منظم نظام قائم کیا۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیرِ نو ہوئی، قبۃ الصخرہ پہلی بار تعمیر کیا گیا اور دمشق کی عظیم جامع مسجد تعمیر ہوئی۔ بنو امیہ کے دور میں خلافتِ عمر بن عبدالعزیز (۷۱۷ء تا ۷۲۰ء) خلافتِ راشدہ کے طرز پر ایک مثالی دور تسلیم کیا جاتا ہے۔
زوال کے اسباب:
وراثتی بادشاہت، پر تعیش طرزِ زندگی، ظلم و جبر اور سیاسی مخالفین کا بے دردی سے خاتمہ۔ حکم راں عدلیہ سے بالا تر ہو چکے تھے۔ عوام میں اس قدر خوف تھا کہ اصلاح کی خاطر بھی کوئی لب کشائی نہیں کرتا تھا۔ بیت المال کو شاہی اخراجات کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اس جابرانہ طرزِ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت نے جنم لیا، جسے عباسی خاندان نے ’آلِ محمد‘ کے نام پر منظم تحریک کے ذریعے عملی جامہ پہنایا۔
۲۔ خلافتِ بنو عباس (۷۵۰ء تا ۱۲۵۸ء)
عباسی خلافت کے ابتدائی دور میں علم، فلسفہ، سائنس، طب اور فنونِ لطیفہ میں بے مثال ترقی ہوئی، یہاں تک کہ بغداد دنیا کا عظیم علمی و تہذیبی مرکز بن گیا۔
زوال کے داخلی اسباب:
عباسی خلفاء نے علوم و فنون کی سر پرستی ترک کرکے محلات کی آرائش، شاعری و موسیقی اور پر تعیش زندگی کو ترجیح دی۔ درباری سازشیں، اندرونی بغاوتیں اور صوبوں کی خود مختاریاں بڑھتی گئیں۔ شمالی افریقہ میں فاطمی خلافت قائم ہوئی۔ دربار میں ترک غلام (ممالیک) اتنے طاقتور ہو گئے کہ خلفاء محض علامتی سربراہ بن کر رہ گئے۔ فرقہ وارانہ انتشار میں اضافہ ہوا، جیسا کہ شیعہ، معتزلہ، خوارج وغیرہ کے درمیان۔ امام احمد بن حنبلؒ جیسے علمائے حق پر بھی تشدد کیا گیا۔ ٹیکس کا ظالمانہ نظام، شاہی فضول خرچیاں اور فوجی تیاریوں میں غفلت نے خلافت کو کم زور کر دیا۔
زوال کے خارجی اسباب:
عباسی خلافت کے دور میں ہی عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں صلیبی جنگیں (۱۰۹۵ء تا ۱۲۹۱ء) ہوئیں۔ بالآخر ۱۲۵۸ء میں منگول حکم راں ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کر کے شہر کو تباہ کیا، کتب خانے جلا دیے، اور خلیفہ متعصم باللہ کو قتل کر دیا، یوں عباسی خلافت کا مرکز ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
۳۔ خلافتِ عثمانیہ (۱۲۹۹ء تا ۱۹۲۴ء)
خلافتِ عثمانیہ اسلامی تاریخ کی سب سے طویل عرصے تک قائم رہنے والی خلافت تھی جو مشرق و مغرب میں کئی صدیوں تک ایک طاقت ور اور باوقار اسلامی سلطنت رہی۔ ۱۳ویں صدی میں سلجوقی سلطنت کے زوال کے بعد اناطولیہ (موجودہ ترکی) میں ترک قبائل نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں۔ انہی میں سے قبیلہ قائی کے سردار عثمان بن ارطغرل (عثمان اوّل) نے ۱۲۹۹ء میں خلافتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔
عثمانیوں نے بازنطینی سلطنت کو پیچھے دھکیلتے ہوئے قسطنطنیہ کو ۱۴۵۳ء میں فتح کیا۔ خلافت میں شریعت کا نفاذ، عدل و انصاف، امت کا اتحاد، عسکری کامیابیاں، مضبوط مالی و عدالتی نظام، اور مذہبی رواداری نمایاں عناصر تھے۔ عثمانیوں کے دور میں مساجد، مدارس، کتب خانے اور علمی ادارے قائم ہوئے۔ استنبول، قاہرہ، بغداد، اور دمشق تہذیب و علم کے مراکز بنے۔
سلطان سلیمان قانونی (۱۵۲۰ء تا ۱۵۶۶ء) کے دور کو خلافت کا ’زریں دور‘ کہا جاتا ہے، جب قانون، معیشت، فن تعمیر اور ثقافت میں شاندار ترقی ہوئی۔
زوال کے اسباب:
سلطنت کی بے انتہا وسعت کے باعث انتظامی دشواریاں بڑھیں۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خلافت پیچھے رہ گئی۔ اندرونی کرپشن، فرقہ وارانہ منافرت، عرب قوم پرستی اور ترک سیکولر ازم کی مقبولیت خلافت کو کھوکھلا کرنے لگیں۔
جنگِ عظیم اول (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) میں عثمانیوں نے جرمنی کا ساتھ دیا جو تباہ کن فیصلہ ثابت ہوا۔ یورپی سازشوں، عرب بغاوتوں اور سیاسی دباؤ کے نتیجے میں خلافت کم زور پڑتی گئی۔ بالآخر ۱۹۲۴ء میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت کا باضابطہ خاتمہ کر دیا اور آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید ثانی کو معزول کر کے جلاوطن کیا گیا۔
۴۔ اسپین میں مسلم دورِ حکومت کا عروج و زوال (۷۱۱ء تا ۱۴۹۲ء):
اسلامی تاریخ میں اندلس (موجودہ اسپین) کا دور ایک نہایت درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک علم، عدل و انصاف، فن، تہذیب اور حکم رانی کی شان دار مثالیں قائم کیں۔ اندلس کی فتح نہ صرف ایک عسکری کامیابی تھی بلکہ ایک تہذیبی انقلاب کا نقطۂ آغاز بھی ثابت ہوئی۔
اندلس کی فتح کا سہرا عظیم مسلم سپہ سالار طارق بن زیادؒ کے سر جاتا ہے، جنہوں نے ۷۱۱ء میں جبل الطارق عبور کیا اور عیسائی بادشاہ روڈرک کو فیصلہ کن شکست دی۔ ۷۱۳ء تک اسپین کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے زیرِ حکومت آ چکا تھا۔ قرطبہ کو دارالحکومت بنایا گیا۔ ابتدائی دور میں اندلس، خلافتِ بنو امیہ کا ایک صوبہ تھا۔ عباسی خلافت کے قیام کے بعد، بنو امیہ کے شہزادے عبدالرحمن الداخل نے عباسیوں کے ظلم سے بچ کر اندلس میں پناہ لی اور ۷۵۶ء میں ایک خود مختار اموی ریاست قائم کی۔
۹۲۹ء میں عبدالرحمن ثالث نے خود کو خلیفہ قرار دے کر خلافتِ قرطبہ کا اعلان کیا۔ اس دور میں اندلس علمی، سائنسی، ثقافتی، اور تمدنی لحاظ سے دنیا کی عظیم ترین ریاستوں میں شمار ہوتا تھا۔ قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیطلہ علم و ہنر کے عالمی مراکز بن گئے۔ اس زمانے میں عظیم مسلم سائنس دان، فلسفی اور طبیب پیدا ہوئے، جیسے:
ابن رشد (فلسفہ)
ابن زہر (طب)
الزہراوی (جراحی)
عباس بن فرناس (فلکیات و پرواز)۔
ہزاروں کتب خانے، مدارس اور تحقیقی مراکز قائم کیے گئے۔ اہلِ یورپ نے قرطبہ و طلیطلہ سے علوم حاصل کیے جو بعد میں یورپ کے ’’نشاۃِ ثانیہ‘‘ (Renaissance) کی بنیاد بنے۔
زوال کے اسباب:
۱۰۳۱ء سے ۱۰۹۰ء کے درمیان اندرونی اختلافات کی وجہ سے اندلس چھوٹی چھوٹی ریاستوں (طوائف الملوک) میں تقسیم ہو گیا۔ یہ ریاستیں آپس میں لڑتی رہیں اور اکثر عیسائی طاقتوں کو مدد کے لیے بلاتیں، جس سے مسلم اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ ۱۲۱۲ء میں ’’معرکۂ العقاب‘‘ میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے ہاتھوں فیصلہ کن شکست ہوئی۔
آخری مسلم ریاست غرناطہ میں ۱۲۳۸ء میں قائم ہوئی جو تقریباً ۲۵۰ سال تک قائم رہی، یہاں تک کہ ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کا المناک واقعہ پیش آیا۔ عیسائی حکم راں فرڈیننڈ اور ازابیلا نے غرناطہ پر قبضہ کر کے مسلم اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے گئے، لائبریریاں جلائی گئیں، جبری تبدیلیِ مذہب اور قتلِ عام کیا گیا۔
زوال کے اہم اسباب درج ذیل ہیں:
مسلم ریاستوں کا باہمی اختلاف و انتشار،
دین سے غفلت، دنیا پرستی اور عیش و عشرت،
دشمن سے مرعوب ہو کر صلح اور خراج کی پالیسی،
بزدلی اور عسکری کم زوری،
عیسائی ریاستوں نے مسلمانوں کی اندرونی کم زوریوں سے فائدہ اٹھایا اور انہیں مکمل طور پر اندلس سے بے دخل کر دیا۔
۲۔ سویت یونین (USSR):
سویت یونین کا عروج دراصل کمیونزم کے نظریے کی بنیاد پر ہوا۔ یہ نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کے رد عمل کے طور پر پیش کیا گیا جو سودی معیشت پر قائم ہونے کے باعث معاشرے کو امیر اور غریب دو طبقوں میں بانٹ چکا تھا۔ ابتدا میں عوام نے کمیونزم کو ایک متبادل اور نجات دہندہ نظام سمجھا اور اس کو اپنایا۔ اس نظریے نے دنیا کے نصف حصے کو متاثر کیا، یہاں تک کہ سویت یونین امریکہ کے مدِ مقابل ایک عالمی سپر پاور کے طور پر ابھرا۔
سویت یونین نے خلا، اسلحہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں برق رفتاری سے ترقی کی۔ تاہم کمیونزم کی غیر فطری معاشی مساوات نے ذاتی ملکیت کے فطری جذبے کو کچل ڈالا۔ مساوات کے نام پر استحصال کا ایسا نظام وجود میں آیا جس نے شخصی آزادی اور مذہبی حقوق کو سلب کر لیا۔ لاکھوں مذہبی افراد، بالخصوص مسلمان، ظلم و ستم کا شکار بنے۔
معاشی سطح پر ناکامی نے کمیونزم کی بنیادیں ہلا دیں۔ افغانستان میں سویت یونین کی شکست نے اس کے زوال میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یوں ۱۹۹۱ء میں سویت یونین تحلیل ہو کر روس تک محدود ہو گیا اور مشرقی یورپ کی کئی قومیں آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
۳۔ امریکہ: عروج، ممکنہ زوال اور اسباب
عروج:
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ذاتی ملکیت اور معاشی آزادی پر رکھی گئی تھی۔ اگرچہ اس نظام میں دولت کا ارتکاز ایک مسئلہ ہے لیکن جمہوریت اور سیکولرزم کی موجودگی نے اسے کمیونزم کے مقابلے میں قابلِ قبول بنایا۔ جمہوریت نے عوام کو حکم رانوں کی تبدیلی کا پُرامن راستہ دیا اور سیکولرزم نے مذہبی آزادی کا ماحول فراہم کیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب برطانیہ زوال پذیر تھا، امریکہ تیزی سے عالمی طاقت بن رہا تھا۔ تباہی سے محفوظ رہنے والی واحد بڑی معیشت ہونے کے ناطے امریکہ نے دنیا میں اقتصادی بالادستی حاصل کی۔ ۱۹۴۴ء میں بریٹن ووڈ معاہدے کے تحت امریکی ڈالر عالمی کرنسی بن گیا۔ امریکہ نے ایٹمی طاقت حاصل کی، نیٹو اتحاد کی قیادت سنبھالی اور دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈے قائم کیے۔
سائنس، ٹیکنالوجی اور تعلیم میں سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکہ نے چاند پر پہلا انسان اتارا، انٹرنیٹ اور بائیوٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں سبقت حاصل کی۔ امریکی ثقافت ہالی ووڈ، فیشن اور فاسٹ فوڈ کے ذریعے دنیا پر حاوی ہوگئی۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں امریکہ نے ساری دنیا کے ذہین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا۔ ۱۹۹۱ء میں سرد جنگ کے اختتام پر سویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی امریکہ واحد عالمی سوپر پاور بن گیا۔
زوال کے آثار:
۲۰۰۸ء کا عالمی مالی بحران امریکی سرمایہ داری کے نقائص کو بے نقاب کر گیا۔ معاشی طاقت چند کارپوریشنوں تک محدود ہو گئی۔ جمہوریت صرف نام کی رہ گئی کیونکہ انتخابات سرمایہ داروں کی پشت پناہی سے جیتے جاتے ہیں۔
عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں فوجی مداخلتوں نے امریکہ کی اخلاقی قیادت پر گہرے سوالات اٹھا دیے۔ ان جنگوں پر آنے والے اخراجات نے امریکی معیشت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ افغانستان سے ذلت آمیز انخلا اور اسرائیل کی اندھی حمایت، بالخصوص مسلم دنیا میں امریکہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا چکی ہے۔
داخلی سطح پر امریکہ کو گن وائلنس، نسل پرستی، منشیات، جنسی انحراف، ہم جنس پرستی اور خاندانوں کے بکھرتے نظام جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ فلاحی ریاست کے تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کم زور ہو گئی ہے۔
امریکی معاشرہ اخلاقی، روحانی اور سماجی سطح پر بحران کا شکار ہے۔ فرد کو محض صارف بنا دیا گیا ہے جبکہ انسانیت کے بجائے کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ جنگی صنعت، اسلحہ سازی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اسی دوران چین خاموشی سے عالمی معیشت کی سب سے بڑی قوت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے اور عسکری میدان میں اس کی ترقی امریکہ کے لیے چیلنج بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی کمپنیاں بھی مینوفیکچرنگ کے لیے چین پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
ممکنہ مستقبل:
اگر امریکہ اندرونی اصلاحات، سماجی انصاف اور عالمی سطح پر منصفانہ پالیسیاں اختیار کرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی ساکھ کو بحال کر لے وگرنہ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں انصاف اور اخلاقیات کو چھوڑ دیتی ہیں وہ جلد یا بدیر زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
قرآن کا اصول ہے:
‘‘یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘ (آل عمران: 140)
اور:
اللہ کسی قوم پر اپنی دی ہوئی نعمت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے رویے کو نہیں بدل دیتی۔ (الأنفال: 53)
لائحہ عمل اور سبق:
تاریخ کا گہرا مطالعہ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ قرآن کے اصول ہر زمانے پر لاگو ہوتے ہیں۔ جو قومیں ایمان، عدل، دیانت اور سماجی انصاف کو اپنا شعار بنائیں، وہی حقیقی عروج حاصل کر سکتی ہیں۔
امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ:
قرآن و سنت کی طرف رجوع کرے
علم، اتحاد اور نظم و نسق کو اپنائے
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو زندہ کرے
عسکری طاقت میں اتنی مہارت پیدا کرے کہ دشمن حملے سے پہلے ہی باز رہے (الأنفال: 60)
دعاؤں، تمناؤں یا خالی نعروں سے دنیا میں کامیابی نہیں ملتی۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ مادی اسباب کو اپنانے کے ساتھ ساتھ روحانی، اخلاقی اور سماجی سطح پر بلند ہونا بھی ضروری ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025