ڈاکٹر سلیم خان
دو قطبی دنیا کے وجود سے 500 سالہ یوروپی تسلط خاتمے کی دہلیز پر
طوفان الاقصیٰ کے تحت عالم اسلام پھر سے متحد – نئی دنیا کیلئے خوشیوں کا تازیانہ
عالم انسانیت کے ساتھ عالمِ ا سلام کی صورتحال بھی بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ یہ تبدیلیاں مثبت اور منفی دونوں طرح کی ہیں۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ عام طور پر وہ مثبت تبدیلی کو بہت جلد فراموش کردیتا ہے مگر منفی تبدیلیوں کو خوب یاد رکھتا ہے مثلاً ہم فلسطین کے مظالم کوبجا طور پر یاد رکھتے ہیں اور یاد رکھنا بھی چاہیے لیکن اس کے ساتھ افغانستان کی زبردست کامیابی کو بھول جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی کامیابی تھی کہ جس میں اہل اسلام نے یکے بعد دیگرے دو سُپر پاورس کو شکست فاش سے دوچار کیا اور سوویت یونین کوتو صفحۂ ہستی سے مٹادیا تھا ۔اب یہ حالت ہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل پر حملے کو فلسطینی عوام کی اجتماعی سزا کا جواز بنانا قابل قبول نہیں ہے۔ روسی وزیر خارجہ بولے کہ روس اور میں منافق نہیں ہیں اور اسرائیل پر حماس کا حملہ خلا میں نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ روس غزہ کی پٹی میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے سیاسی دباؤ جاری رکھے گا۔ اسی طرح قومی سطح پر مسلمانوں کو اس کا تو بہت افسوس ہے کہ بی جے پی نے کانگریس سے چھتیس گڑھ اور راجستھان کا اقتدار چھین لیا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلے دنوں ہماچل پردیش اور کرناٹک میں کانگریس نے یہی کام بی جے پی کے ساتھ کیا تھا ۔تبدیلیوں کے اس سلسلے کو انگریزی میں The only thing constant is change کہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
قرآن مجید میں ان تبدیلیوں کے اغراض و مقاصد بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ آیات غزوہ احد کے بعد دلاسے کے طور نازل کی گئیں لیکن ان کی معنویت ہر زمانے میں زندہ و تابندہ ہے۔ تمہید کے طور پر ڈھارس بندھاتے ہوئے بلکہ حوصلہ بڑھانے کے بعد ارشادِ قرآنی ہے :’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ اس آیت میں واضح اشارہ موجود ہے کہ غزوۂ احد کی ناکامی نے مسلمانوں کو پژمردہ کردیا تھا۔ اس مایوسی کی کیفیت کو دور کرنے کی خاطر ایک سال قبل بدر کے میدان میں ملنے والی کامیابی کو نہایت خوبصورت انداز میں یاد دلاتے ہوئے فرمایا : ’’ ا س وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے‘‘۔ اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر اس قانونِ فطرت کی معرفت بہت مشکل ہے کہ:’’ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ اس حقیقت پر نبیٔ کریم ﷺ کے زمانے میں تو بدر و احد کا معرکہ بے مثال تھا مگر عصر حاضر میں فلسطین اور افغانستان کی مثالیں ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات شاہد ہیں لیکن اس سے قبل سنت الٰہی کی حکمت جاننا ضروری ہے!
قرآنِ حکیم میں مذکورہ بالا آیت کے فوراً بعد والی آیت میں یہ عقدہ اس طرح کھول دیا گیاکہ:’’ تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، ‘‘۔ اس دیکھنے میں ہمیں دکھانے کا مفہوم موجود ہے کیونکہ آزمائش کے بعد ہی ایمانی کیفیت کا حقیقی اندازہ ہوپاتا ہے ورنہ بلند بانگ دعویٰ تو ہر کوئی کرسکتا ہے۔ ایمان کی جانچ پڑتال کے بعد کا مرحلہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ :’’اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں‘‘۔ راستی کے گواہوں کو چھانٹ کر الگ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے ’’کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں‘‘۔ یعنی اس امتحان میں ناکام ہونے والے بدبخت خود اپنے اوپر ظلم کا ارتکاب کرکےاللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لیتے ہیں ۔ یہ تو خیر ناکام ہونے والوں کا انجام ہے لیکن کامیاب ہونے والوں کو یہ بشارت بھی دی گئی ہےکہ :’’اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا ‘‘۔کافروں کی سرکوبی کی سعادت کے مستحق تو آزمائش سے گزر کر اس میں سرخ رو ہونے والے ہی ہیں ۔
اس حقیقت کی سب سے بڑی مثال حماس کا موجودہ حملہ ہے۔ 1967 کی 6 ؍ روزہ جنگ میں تین مسلم ممالک مصر ، شام اوراردن نے مل کر اسرائیل پر مشترکہ حملہ کردیا تھا ۔ امریکہ کی مداخلت کے سبب 6 ؍ دن کے اندر وہ تینوں شکست فاش سے دوچار ہوگئے تھے ۔حماس کی جنگ کو دو ماہ سے زیادہ ہوگئے مگر وہ ہنوز ڈٹے ہوئے ہیں۔ غزہ کے اندر اس کشمکش کے دوران جو جانی اور مالی نقصان ہوا اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مگر اس کی کامیابیاں بھی غیر معمولی ہیں۔ اسرائیل ساری تباہی و بربادی کے باوجود اپنے قیدیوں کو بزورِ قوت چھڑانے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے لیے وہ اوچھے حربے استعمال کرنے پرمجبورہے۔ عام شہریوں کو گرفتار کرکے انہیں ہتھیار ڈالنے والے مجاہدین قرار دینے کی کذب گوئی کررہا ہے۔ جنگ بندی کو شکست کے مترادف کہنے کے باوجود اسے عارضی طور پر سہی جنگ بندی پر راضی ہونا پڑا۔ قیدیوں کے تبادلے میں حماس کا پلڑہ بھاری تھا اور جنگ بندی کی شرائط حماس کی منظوری سے طے ہوئی تھیں۔ جنگ بندی سے قبل راکٹ چلا کر اس نے یہ ثابت کردیاکہ حماس کو ختم کرنےکا اسرائیلی دعویٰ بے بنیاد ہے اور وہ اس مقصد میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔جنگ بندی کے بعد بھی حماس نے تل ابیب تک میں راکٹوں سے حملے کیے اور بعد میں بھی اس سلسلے کو جاری رکھا۔ اب یہ حالت ہے کہ خود اسرائیلی میڈیا حکومت پر فوجیوں کی موت کو چھپانے کا الزام لگا رہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پچھلے ۶۶؍ دنوں میں اسرائیل کا جانی و مالی نقصان نسبتاً بہت کم ہوا مگر اسرائیل کے آبادکاروں میں عدم تحفظ کازبردست احساس پیدا ہوگیا جوانہیں ملک چھوڑنے پر آمادہ کررہا ہے۔ اب تک ملک سے فرار ہونے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے نیز دس لاکھ افراد کے تیاری میں ہونے کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔ یہ رجحان اسرائیل کے وجود کی خاطر سمِ قاتل ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی باہر سے آکر بسنے والوں پر ہے۔ اسرائیل کے ناپاک وجود کی دوسری بنیاد اس کے حق میں پائی جانے والی عالمی رائے عامہ ہے لیکن اس دوران وہ جس قدر خلاف ہوئی اتنی کبھی نہیں تھی۔ اقوام متحدہ میں بارہا اس کا مظاہرہ ہوچکا ہے۔ جنرل اسمبلی میں اس کے جملہ 179 ؍ میں سے صرف14؍ اس کے حامی بچے ہیں ۔ امریکہ کے اندر 75 ؍ فیصد ڈیموکریٹس اورنصف سے زیادہ ریپبلکن پارٹی کے حامی جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے اپنی حکومت سے اس کے لیے کوشش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکی استعمار خود اپنے لوگوں کی مرضی کے خلاف جنگ بندی کی تجویز کو ویٹو کردیتا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے جہاں حکومت کے عوام کی مرضی کے مطابق چلنے کا کھوکھلا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مجاہدین غزہ کے صبرو استقامت نے امریکیوں کو قرآن مجید کے مطالعہ کی جانب راغب کیا ہے اور قبول اسلام کے واقعات بھی منظرعام پر آرہے ہیں۔ جہادکے توسط سے دعوت اسلامی کی اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے کہ ایسا اس سے قبل کی ۶؍ دن کی جنگ کے بعد نہیں ہوا تھا ۔
موجودہ کشمکش نے عالمِ اسلام کے اندر غیر معمولی اتحاد پیدا کر دیاہے۔ اسرائیل اور مغربی طاقتیں حماس کو داعش کا ہم پلہ بناکر ساری دنیا کو اس کا مخالف بنانا چاہتی تھیں ۔ وہ اگر اس مقصد میں کامیاب ہوجاتیں تو کئی اسلامی ممالک اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے مگر انہیں اس میں ناکامی ہوئی ۔ فلسطین کے مسئلہ پر سارے مسلم ممالک متحد رہے اور انہیں چین اور روس کی حمایت حاصل ہوگئی۔ عالمی سطح پر یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران مسلم دنیا امریکہ اور سوویت یونین کے حامیوں میں بنٹی رہی مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیل آف سنچری اور ابراہام اکارڈ کی دھجیاں اڑ گئیں۔ جس فلسطین کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی وہ دنیا کا اہم ترین مسئلہ بن کر سامنے آگیا۔مسلم حکمرانوں سے علی الرغم عوام کی ہمدردیاں فلسطین کے ساتھ ہیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ ان کے حکمراں اس آیت پر عمل کریں جس میں کہا گیا ہے:’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے ‘‘۔
مسلم ممالک غالباً اس لیے ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں کیونکہ انہیں تیسری عالمی جنگ کے چھڑ جانے کا خوف ستا رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں 20؍ملین لوگ مارے گئے تھے اور 21 ملین زخمی ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں 70 سے 85؍ ملین لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔انہیں جنگوں کی آڑ میں اسرائیل کاخنجر مسلم دنیا کے سینے میں گھونپ دیا گیا تھا۔دوسری جنگ عظیم یورپ میں لڑی گئی تھی مگر یہ تیسری جنگ اسلامی ممالک میں ہونے کے شدید امکانات ہیں اس لیے لوگ احتیاط کررہے ہیں لیکن یہ بزدلانہ حکمت عملی کارگر نہیں ہوگی ۔ اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے مسلم ممالک کو آگے آنا ہی ہوگا ۔ آزمائش کے حوالے سے جو آیت اوپر مذکور ہے اس سلسلے میں آگے فرمایا گیا ہے کہ :’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں‘‘۔ اس طرح حصولِ جنت کے لیے جان و مال کی قربانی پر ابھارا گیا ہے۔ مسلم دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلی کا اندازہ لگانے کے لیے ماضی کےچند اہم واقعات کا جائزہ لینا کافی ہے۔ پچھلی صدی کا سب سے غیر معمولی سانحہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تھا۔ 3؍ مارچ 1924 کو ترکی میں خلافت کے خاتمہ کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔اس پر علامہ اقبال نے افسوس کے ساتھ فرمایا تھا
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
لارڈ کرزن نے اس موقع پریہ تاریخی جملہ کہاتھا کہ:’’ ترکی تباہ ہوچکا اور اب کبھی دوبارہ نہیں اٹھ سکے گاکیونکہ ہم نے اس کی روحانی طاقت یعنی اسلام اور خلافت کو تباہ کردیا ہے‘‘۔ لارڈ کرذن کی پیشنگوئی گزشتہ صدی کے اختتام تک غلط ثابت ہوگئی اور ترکی میں اسلام کی بادِ نسیم چلنے لگی ۔1997ء میں رجب طیب اردوغان نے سیرت شہر کے ایک جلسہ عام میں کہا تھا : گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں ، مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں ، صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں ،کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انہیں جیل جانا پڑا، مگر 2003ء میں رجب طیب اردوغان نےاسی حلقہ انتخاب سے85% ووٹ حاصل کیےاور وزیر اعظم بن گئے اور 2014سے صدارتی نظام نافذ کیا نیز ہنوز صدر ہیں.۔اس طرح ترکی میں اسلام لوٹ آیا اور یہ مغرب کی بہت بڑی شکست تھی۔ ترکی میں تختہ پلٹنے کی بھی کئی بار کوشش کی گئی مگر بفضلِ تعالیٰ وہ سب ناکام رہیں۔
خلافت عثمانیہ کے ساتھ ہی روس میں ایک الحادی اشتراکی انقلاب نمودار ہوا۔ اس کے جواب میں سرمایہ داروں نے بھی لادینیت کا شور بپا کردیا۔اس طرح ساری دنیا میں دین بیزاری اور قوم پرستی کی زبردست لہر چل پڑی ۔اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اخوان المسلون اور جماعت اسلامی جیسی تحریکیں اٹھیں لیکن امریکہ اور سویت یونین کی دو قطبی دنیا میں مسلم ممالک تقسیم ہوگئے مسلمانوں کے طاقتور ممالک جیسے مصر ، شام اور عراق اشتراکیت کا ترنوالہ بن گئے ۔اس کے برعکس ایران ، سعودی عرب وغیرہ امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے باوجود دشمن بنے رہے کیونکہ شاہ ایران اسلامی اقدار کا مخالف اور شاہ فیصل حامی تھے ۔ اب صورتحال الٹ چکی ہے۔ ایران اسلامی اقدار کا پاسدار ہے اورسعودی عرب میں شکیرہ کارقص ہورہا ہے لیکن حماس اور فلسطین پر دونوں کا موقف یکساں ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو اس کے خلاف امریکہ اور روس دونوں نے عراق کو اس سے برسرِ پیکار کردیا ۔ اس طویل جنگ میں عراق سمیت مغربی قوتیں ایرانی انقلاب کو سبوتاژ کرنے میں بری طرح ناکام رہیں۔
سوویت یونین مشرقی یوروپ کو اپنی گرفت میں لینے کے بعد افغانستان میں داخل ہوگیا ۔وہاں مجاہدین اسلام نے اسے شکست فاش سے دوچار کرکے اس کا نام ونشان مٹا دیا ۔ دنیا یک قطبی ہوگئی تو امریکہ اپنا نیو ورلڈ آرڈرنافذ کرنےکا خواب دیکھنے لگا مگر ۱۱؍۹ کے حملے نے اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اپنا غصہ اتارنے کے لیے اس نے افغانستان پر چڑھائی کی اور پچھلے سال رسوا ہوکر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ افغانستان میں جب امریکہ کی دال نہیں گلی تو اس نے اپنے دوست صدام حسین پر عمومی تباہی کے اسلحہ کا جھوٹا الزام لگا کر حملہ کردیا۔ وہاں سے بھی اسے رسوا ہوکر بھاگنا پڑا مگر عراق میں ایران نواز حکومت کا اقتدار میں آنا اس کا بڑا خسارہ تھا۔ اس صدی کی ایک بہت بڑی تبدیلی عرب بہار تھی ۔ 2010 میں تیونس سے شروع ہونے والا احتجاج مختلف ممالک میں پھیل گیا اور بہت سارے آمر اقتدار سے بے دخل کر دئیےگئے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی تبدیلی یعنی مصر میں ڈاکٹر محمدمرسی کی کامیابی اس بات کا ثبوت تھی ملک کے عوام نہ صرف اسلام بلکہ اسلامی تحریک کے ساتھ ہیں۔
اسرائیل کے لیے یہ بہت بڑا خطرہ تھا۔ سن 2012ء کو غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ جارحیت کے موقع پرصدر ڈاکٹر محمد مرسی شہید نے کہا تھا کہ ‘غزہ کوتنہا نہیں چھوڑیں گے‘، افسوس کہ آج کا مصر ماضی سے بہت مختلف ہے۔ خیر صدر مرسی کایہی وہ جملہ تھا جو غاصب صہیونیوں کے قلب میں تیر کی طرح پیوست ہوگیا۔انہوں نے اس وقت اپنے وزیراعظم ہشام قندیل کو ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ غزہ بھیجا تھا جس میں مصری وزاء اور مختلف ملکوں کے سفیر بھی شامل تھے۔رفح گذرگاہ کو کھول کرعرب اور عالمی امدادی کارکنوں کو غزہ تک رسائی کی مکمل اجازت اور سہولت فراہم کی تھی۔ غزہ کے عوام کی فوری طبی امداد اور فلسطینی اسپتالوں میں ادویات اور عملے کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی گئی تھی ۔ مغرب کے لیےیہ ناقابلِ برداشت تھا اس لیے فوجی بغاوت کے ذریعہ ان کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا ۔ آج اگرمصر میں اخوان کی حکومت ہوتی تو غزہ کی یہ صورتحال نہیں ہوتی اور اسرائیل یہ جرأت نہیں کرپاتا۔
امریکہ نے جب یہ دیکھا کہ اب وہی ایک سپر پاور رہ گیا ہے تو مسلم ممالک کو اسرائیل کا دوست بنا کر فلسطینی مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور یمن میں جنگ چھیڑ کر ایران کے ساتھ سعودی عرب اور امارات کو لڑایا گیا لیکن اس سال مارچ میں چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کرادی ۔ اس طرح ایک دو قطبی دنیا وجود میں آگئی اورحماس کے حملے نے سو سال بعد سارے مسلم ممالک کو ایک کیمپ میں جمع کردیا ۔ عالمی سطح پر اور اسلامی دنیا میں یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔اس سے خیر کے بڑے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال کی اس پیشنگوئی کے درست ہونے کا وقت آگیا جس کی جانب روسی وزیر خارجہ نے اشارہ کیا ہے۔ جنگ بندی پر ایک آن لائن کانفرنس میں روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے اعتراف کیا کہ دنیا پر مغرب کے 500 سالہ تسلط کا دور اب ختم ہو رہا ہے۔ شاعرِ مشرق نے یہی کہا تھا ؎
جہانِ نَو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پِیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مُقامِروں نے بنا دیا ہے قِمار خانہ
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023