
!سوڈان اور متحدہ عرب امارات کا تنازعہ: ایک خفیہ جنگ
سوڈانی خانہ جنگی کے پیچھے کون؟ کیا افریقہ ایک نئی سرد جنگ کا میدان بن چکا؟
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
خلیجی طاقت کا افریقی کھیل: عرب امارات کے عزائم پر سوالیہ نشان!بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ درج
پچھلے دنوں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں ایک مقدمہ پر سماعت کا آغاز ہوا، یہ مقدمہ کسی فرد یا کسی خفیہ ایجنسی پر نہیں تھا بلکہ خلیج کے ایک معاشی لحاظ سے طاقتور ملک کے خلاف دائر کیا گیا ہے۔ سوڈان، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کئی برسوں سے سیاسی، عسکری اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہے اور گزشتہ دو سال سے بڑی خون ریز خانہ جنگی بھی چل رہی ہے، سوڈان نے اس خانہ جنگی کی اصل وجہ متحدہ عرب امارات کو قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات ایک مستحکم اور اقتصادی طور پر مضبوط خلیجی ملک ہے جو مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ اسی سپریمیسی کی لڑائی نے سوڈان اور امارات کے درمیان تنازعہ پیدا کر دیا ہے اور یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سوڈانی فوجی حکام نے متحدہ عرب امارات پر اپنے داخلی تنازع میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں مقدمہ دائر کر دیا۔
سوڈان کا تعارف اور اس کا جغرافیائی محلِ وقوع
"سوڈان، شمال مشرقی افریقی ملک ہے، جس کی سرحدیں سات ممالک سے جڑی ہوئی ہیں۔ جس میں مصر، لیبیا، چاڈ، وسطی افریقی جمہوریہ، جنوبی سوڈان اور ایتھوپیا وغیرہ شامل ہیں۔ سوڈان کا دارالحکومت خرطوم ہے اور یہ افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس کا محلِ وقوع افریقہ، عرب دنیا اور مشرقی افریقہ کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے اسے اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہے۔
سوڈان میں اب تک کئی جنگیں ہو چکی ہیں، پہلی جنگ 1956 میں ہوئی اور اسی جنگ میں سوڈان نے برطانیہ اور مصر سے آزادی حاصل کی۔ آزادی کے بعد یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ جنوبی اور شمالی سوڈان کے درمیان علاقے کو لے کر یہ جنگ لڑی گئی، جس میں تقریباً پانچ لاکھ لوگ مارے گئے، دوسری خانہ جنگی 1983 سے 2005 یعنی بائیس سال تک جاری رہی، یہ خانہ جنگی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہوئی، اس میں تقریباً بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ تیسری خانہ جنگی جو ابھی چل رہی ہے، جس کی شروعات اپریل 2023 میں ہوئی۔
آزادی کے بعد سے ملک میں سیاسی عدم استحکام، فوجی بغاوتیں اور خانہ جنگیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 1989 میں عمر البشیر نے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سنبھالا اور تین دہائیوں تک اس نے سوڈان پر حکومت کی۔ 2019 میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں عمر البشیر کے اقتدار کا خاتمہ ہوا جس کے بعد ایک عبوری حکومت قائم ہوئی۔ مگر 2021 میں فوجی جنرل عبدالفتاح البرہان نے ایک بار پھر بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
حالیہ خانہ جنگی اور آر ایس ایف
2023 میں سوڈانی فوج اور نیم فوجی تنظیم "ریپڈ سپورٹ فورسز” (RSF)کے درمیان خانہ جنگی چھڑ گئی۔ RSF کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو (حمیدی) نے فوج کے خلاف مسلح بغاوت کردی۔ اس تنازع نے سوڈان کو شدید انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
آر ایس ایف کیا ہے؟
آر ایس ایف قبائلیوں پر مشتمل ایک فورس ہے جو سوڈان میں بسنے والے قبائلیوں کو لے کر بنائی گئی تھی، ان میں سے اکثر کا تعلق عربی نسل سے ہے، یہ عمر البشیر کے وفادار تھے، لیکن جب 2019 میں عمر البشیر کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا تو یہ بھی عمر البشیر کے خلاف ہوگئے، یعنی فوج اور آر ایس ایف نے مل کر عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا۔ 2021 میں جب عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس میں مختلف عوامی نمائندے، فوج اور آر ایس ایف کے لوگوں کو شامل کیا گیا اور آر ایس ایف کے سربراہ دقلو کو نائب بنایا گیا۔ اس وقت یہ بات طے ہوئی تھی کہ جب حالات معمول پر آجائیں گے تو انتخابات کروا کے حکومت کی باگ ڈور منتخب نمائندوں کے حوالے کردی جائے گی۔ لیکن برہان جو فوج کی قیادت کر رہا تھا اس نے عبوری حکومت میں سے عوامی یعنی سویلین نمائندوں کو بے دخل کر دیا اور خود مختار بن گیا۔
اس کے ساتھ برہان یہ چاہتا تھا کہ دقلو جو آر ایس ایف کا سربراہ ہے وہ اور اس کی ایک لاکھ ملیشیا اس کے ماتحت آ جائے، کیوں کہ اس کو خوف تھا کہ دقلو اس کی حکومت کا تختہ الٹ دے گا، وہ چاہتا تھا کہ آر ایس ایف اس کے ماتحت آ جائے، لیکن دقلو کے پاس تقریباً ایک لاکھ فوجی تھے، چنانچہ اس نے ماتحتی قبول کرنے سے انکار کر دیا، پھر کیا تھا دونوں کے درمیان 2023 میں جنگ شروع ہوگئی۔ دو سال گزر گئے لیکن اب بھی جنگ جاری ہے، ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ڈیڑھ کروڑ لوگ گھر سے بے گھر ہوگئے اور تقریباً ساٹھ لاکھ لوگ دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔
سوڈان کے فوجی حکام کا الزام ہے کہ RSF کو عرب امارات کی جانب سے اسلحہ، مالی امداد اور لاجسٹک سے مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں ایسے شواہد بھی منظر عام پر آئے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب امارات سے آنے والی پروازیں چاڈ کے راستے RSF کو اسلحہ سپلائی کر رہی ہیں۔ اسی بات کو لے کر سوڈان نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں عرب امارات کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے چنانچہ دس اپریل کو اس کی پہلی سماعت بھی ہوئی۔ عرب امارات ان الزامات کی تردید کر رہا ہے اس کا دعویٰ ہے کہ وہ سوڈان میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔ سوڈانی فوج اور آر یس ایف دونوں طاقت چاہتے ہیں، اور دونوں عوام کو یرغمال بنائیے ہوئے ہیں۔”
عرب امارات کا مبینہ کردار
عرب امارات گزشتہ دہائی میں افریقی ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے مختلف معاشی و عسکری پالیسیوں پر عمل کرتا رہا ہے۔ چاہے وہ اریٹیریا میں فوجی اڈے کا قیام ہو یا لیبیا میں خلیفہ حفتر کی حمایت، عرب امارات نے کئی تنازعات میں واضح طور پر فریق بننے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ سوڈان میں RSF کی حمایت سے اس کا مقصد نہ صرف اپنے وفا دار اتحادی پیدا کرنا ہے بلکہ سوڈان کے قدرتی وسائل (خصوصاً سونا) پر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرنا بھی ہے۔ سوڈان کا یہ بھی الزام ہے کہ عرب امارات سوڈان میں موجود مسالت گروپ کی نسل کشی کر رہا ہے۔
مسالت گروپ کیا ہے؟
مسالت ایک افریقی نژاد نسلی گروہ ہے، جو مغربی سوڈان (خصوصاً دارفور) اور کچھ حد تک مشرقی چاڈ میں آباد ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہ تیونس سے آکر یہاں آباد ہوئے، ان میں اکثر زراعت پیشہ ہیں اور یہ سنی مسلمان ہیں، ان کی اپنی منفرد زبان ہے جو نائیلو-صحارا زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ تاریخی طور پر مسالت لوگ سلطنت دارفور میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
سوڈانی فوج کا کہنا ہے کہ عرب امارات آر ایس ایف کے ذریعے اس گروہ کی نسل کشی کر رہا ہے، ان کا قتل عام کر رہا ہے، ہمارے پاس اس کے پورے ثبوت ہیں، جب کہ امارات ان الزامات کی تردید کر رہا ہے، لیکن ثبوت کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔”
متحدہ عرب امارات کے مفادات
"سوال یہ ہے کہ عرب امارات کو سوڈان میں دلچسپی کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اس علاقے میں طاقت، سونا اور جغرافیائی برتری چاہتا ہے۔ سوڈان کے پاس افریقہ کا قیمتی ترین سونا ہے، اور عرب امارات افریقہ میں اپنی موجودگی مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ آر یس ایف اس کا ایک وفادار اتحادی اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا بن سکتا ہے، کیوں کہ ان میں سے اکثر عربی النسل ہیں۔”
بین الاقوامی ردِ عمل اور مستقبل
سوڈان کے حالیہ بیانات کے بعد عرب امارات پر عالمی توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ، افریقی یونین اور امریکہ نے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور بیرونی مداخلت سے گریز کریں۔ تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ دونوں فریقین بیرونی حمایت کے ذریعے جنگی پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
"اقوامِ متحدہ اور دنیا کے بڑے ممالک اس تنازع کو روکنے کی اپیلیں تو کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ اب بھی جاری ہے اور اس خانہ جنگی میں سب سے زیادہ نقصان سوڈان کی معصوم عوام کا ہو رہا ہے۔” سوڈان اور عرب امارات کے درمیان حالیہ تنازع نہ صرف سوڈان کے داخلی حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے بلکہ پورے خطے کے لیے خطرات کا باعث بن رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری اس تنازع پر سنجیدہ توجہ دے، بیرونی مداخلت روکی جائے اور سوڈان کے عوام کو خود اپنا سیاسی مستقبل طے کرنے دیا جائے کیونکہ یہ صرف دو ملکوں کا باہمی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ ایک پوری قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ کیا دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی یا سوڈان کے لیے امن کی کوئی راہ نکلے گی؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025