‘سبحان تجھے سلام’

بلڈوزر کے ذریعہ نو افراد کی جان بچانے والے بہادر کی داستان

ابو حرم ابن ایاز عمری
ریسرچ اسکالر،شعبہ قانون،مانولاءاسکول،حیدرآباد

کھمم کے سبحان خان کی ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت
سال رواں کے خطرناک مانسون کی آمد سے ملک بھر میں کئی عوامی مقامات شدید متاثر ہوئے کہیں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تو کہیں مسلسل بارش نے سیلابی کیفیت پیدا کردی جس کے سبب کئی گاؤں اور شہر ندیوں اور تالابوں کاسا منظر پیش کرنے لگے ۔ایسے وقت میں سرکاری ریلیف اور بچاؤ مہم کے علاوہ متعدد نجی اداروں اور سماجی کارکنوں نے کلیدی کردار پیش کیا ۔ جن میں سے بعض لوگوں کی کوششوں کو دنیا نے سراہا تو بعض مخلصین گمنامی کی تاریکیوں میں کھو گئے ۔
اسی طرح کا ایک معاملہ ریاست تلنگانہ کے ضلع کھمم میں پیش آیا ۔دراصل سر زمینِ کھمم کے آبی وسائل میں سے ایک اہم ذریعہ ’منیرو ندی‘ ہے جو مشہور و معروف ’دریائے کرشنا ‘ کی معاون ندی کہلاتی ہے ۔جس میں عمومی طور پر پانی کی رفتار اور اس کی اونچائی نقصاندہ پیمانے کی نہیں رہتی ہے مگر قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ؟
ہوا یوں کہ یکم ستمبر سے پہلے مسلسل بارش اور کئی علاقوں سے آنے والے سیلابی پانی کی وجہ سے مذکورہ ندی کا بہاؤ کافی تیز ہوگیا تھا اور پانی کی مقدار بھی مسلسل بڑھ رہی تھی ۔جملۂ معترضہ کے بطور بتادیں کہ شہر کھمم میں عوام کی آمدورفت اور دیگر سہولیات کے لیے منیرو ندی پر ایک پل بھی بنایا گیا ہے جو ’پرکاش نگر برج‘ کے نام سے موسوم ہے ۔ لہذا پانی کی رفتار و مقدار اس قدر تیز و زیادہ تھی کہ عوامی سہولت کے لیے تیار شدہ پُل تقریباً 09 لوگوں کے لیے آفتِ جان بن گیا ۔یعنی یہ لوگ جب پُل پر سے گزرنے کی کوشش کررہے تھے توپانی اس قدر تیزی سے آنے لگا کہ انہیں اتنی بھی مہلت نہیں مل پائی کہ وہ بسلامت پُل پار کرجائیں اور سیلابی قہر سے اپنی جان بچا پائیں لہذا وہ پُل کے درمیانی حصے پر ٹہر گئے اور اس کے دونوں کنارے پانی کی زد میں آگئے ۔
جب حکومتی اہلکاروں کو اس بارے میں پتہ چلا کہ کُل نو افراد جن میں دو عمر رسیدہ شخصیات ،دو معصوم بچے ،ایک خاتون اور چار نوجوان پُل پر پھنسے ہوئے ہیں تو وہ فوراً حرکت میں آگئے اور ان کی دانست میں جو مناسب لگا اور جو وسائل انہیں مقامی پیمانے پر میسر تھے انہوں نے ان کا استعمال کرنے کی کوشش کی ۔مگر قدرتی قہر کے سامنے تمام کوششیں بے سودثابت ہوئیں ۔بالآخر انہوں نے حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ہیلی کاپٹر کی درخواست کی تاکہ 09 جانیں بچائی جاسکیں ۔مگر افسوس صد افسو س کہ خراب موسم یعنی طوفانی ہوائیں ،مسلسل بارش اور دیگر وجوہات کا سبب بتاکر یہ آخری سرکاری امید بھی معذرت اور مہلت کے چند الفاظ کے ساتھ ختم کردی گئی۔اب اس صورتحال میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ ان لوگوں کی زندگیوں کا کیا ہوگا ؟کیا یہ لوگ صحیح سلامت واپس آپائیں گے یا پھر لقمۂ اجل بن جائیں گے ؟ کیونکہ پانی کی مقدار میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا ۔سارے لوگ اور سرکاری اہلکار اسی فکر میں تھے کہ اب کیا ہوگا؟ ایسے میں قدرت کو یہ منظور تھا کہ ان بے سھارا لوگوں کو بچایا جائے اور انہیں اس مصیبت سے نجات دی جائے تو ایک فرشتے کی شکل میں ’سبحان خان‘ کو بھیج دیا۔
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
’سبحان خان ‘ ریاست ہریانہ کے ضلوع میواتسے تعلق رکھنے والے ایک معذور شخص ہیں جن کا داہنا پیر’ پولیو‘ کے سبب قابلِ استعمال نہیں ہے مگر روزی روٹی کمانے کی غرض سے سیکڑوں کلو میٹر کا سفر طئے کرکے وہ تلنگانہ کے ضلع کھمم میں ’بلڈوزر آپریٹر‘کا کام کیا کرتے ہیں ۔وہی بدنامِ زمانہ بلڈوزر جسے بھارت کی کئی ریاستی حکومتیں معصوم لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے لیے استعمال کررہی ہیں مگر سبحان خان نے اسی کا استعمال کرکے نو زندگیوں کو ہلاک ہونے سے بچالیا ۔کوئی بھی آلہ بذات خود نقصاندہ یا نفع بخش نہیں ہوتا بلکہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیسے استعمال کرتا ہے یا تو چاقو سے پھل اور ترکاریاں کاٹے یا قتل و غارت گری میں ملوث ہوجائے ۔
الغرض ہفت روزہ دعوت نے شخصِ واقعہ یعنی سبحان خان سے تمام تفصیلات جاننے کے لیے ایک ٹیلی فونک انٹرویو کیا جس میں انہوں نے اس حادثے کی کئی ساری تفصیلات بیان کیں ۔سبحان خان کے مطابق جب حکومت تمام دستیاب وسائل کو آزما کر مایوس ہوچکی تو ان کے سامنے ایک آخری امید یہی تھی کہ کوئی مرد مجاہد میدان میں اترے اور اپنے بل بوتے پر ایک تاریخ رقم کردے۔لہذا سبحان خان نے عابد ادیب کے الفاظ میں
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے
اسی مقام سے اب اپنا راستہ ہوگا
کہتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ تیز رفتار سیلابی پانی میں اترنے کا ارادہ کیا ۔ان کی اس تجویز پر وہاں موجود لوگوں میں سے بعض نے ان کی ہمت بڑھائی تو بعض افراد نے ممکنہ خدشات کا اظہار بھی کیا ۔ ایسی صورت میں سبحان کہتے ہیں کہ وہ ابتدا ءاً عجیب مخمصے میں الجھے رہے کہ آخر وہ کریں توکیا کریں ؟ بالآخر انہوں نےجوانمردانہ فیصلہ کرلیا کہ نو زندگیوں کی حفاظت کے خاطر وہ اپنی جان پر کھیل جائیں گے ۔ اس سوال پر کہ آخر اس وقت آپ کے ذہن میں چل کیا رہا تھا؟ جواب دیتے ہوئے سبحان خان نے کہا کہ ’’میرے ذہن میں اس وقت یہ چل رہا تھا کہ اگر میں مرجاتاہوں تو صرف ایک زندگی کا خاتمہ ہوگا لیکن اگر میں کامیابی کے ساتھ واپس لوٹوں گا تو وہ صرف میری کامیابی نہیں ہوگی بلکہ نو زندگیوں کی حفاظت کہلائے گی۔ ‘‘لیکن اس وقت ایک اور سوال سبحان کے سامنےکھڑا تھا کہ ان کےاہل خانہ جن کی ذمہ داریاں ان کے کاندھے پر تھیں اور جن کے لیے وہ مادر وطن سے دور دراز کے علاقے میں غریب الدیار بن کر خون پسینہ ایک کررہے تھے ان لوگوں کا کیا ہوگا؟لہذا انہوں نے ایک مرتبہ اپنے گھر والوں سے گفتگو کرنے کا سوچا۔اور فون کرکے ساری صورتحال گھر والوں کو سنائی۔
عموماً ایسے حالات میں گھر والے جذباتی ہوجاتے ہیں اور اپنے لاڈلے کو مصائب میں کودنے سے منع کرتے ہیں مگر قربان جائیں اس دلیر سبحان کے بہادر خانوادے پر کہ جنہوں نے اپنے عزیز ترین فردِ خانہ کے سامنے مختلف خدشات کا اظہار کرکے ان کے قدم روکنے کے بجائے ان کی مزید ہمت افزائی کرتے ہوئے اس نیک کام کو کر گزرنے کی تلقین کی اور اپنی نگاہوں کے سامنے انسانی جانوں کے ضیاع سے روکا ۔سبحان خان کہتے ہیں کہ ان کے اہل خانہ کی جانب سے ہمت بندھانے کے بعد ان کے حوصلے گویا آسمان سے باتیں کرنے لگے اور وہ مکمل کامیابی کے ساتھ واپس لوٹنے کے عزم سے اپنے مالک کی اجازت کے ساتھ بلڈوزر لے کر پانی میں اتر گئے ۔
سبحان کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ موسم نہایت ہی خراب تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ وہاں پر روڈ بھی اتنی متاثر ہوچکی تھی کہ اس میں گڑھے پڑ چکے تھے جس میں ان کا بلڈوزر پھنس گیاتھا مگر وہ مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھے ۔پہلی بار جب وہ پانی میں اترے تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔مگر وہ دوبارہ آگے بڑھے جب دوسری مرتبہ بھی آگے بڑھے تو مزید دشواریوں کا انہیں علم ہونے لگا۔اس موقع پر بھی اگر وہ چاہتے تو وہیں سے واپس لوٹ سکتے تھے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔اور زبانِ حال سے یہ کہتےہوئے کہ
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے
وہ تیسری مرتبہ بلند ہمت اور پُرعزم ارادے کے ساتھ تمام امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھے ۔جب وہ یہ کوششیں کررہے تھے تو ’منیرو ندی‘کے دونوں جانب عوام کی ایک بڑی تعداد سانسیں روکے ہوئے دعائیں کررہی تھی کہ کسی طرح یہ مشن کامیاب ہوجائے اور نو لوگوں کی زندگیاں بچ جائیں ۔سبھوں کی نظریں سبحان خان اور ان کے بلڈوزر کا ہی تعاقب کررہی تھیں ۔لازمی بات ہے کہ اتنی کوششوں اور تمام لوگوں کی دعاؤں کے بعد کامیابی ان کا مقدر تھی اور وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پانی میں آگے بڑھے اور ایک چھوٹے سے درخت سے رسی باندھنے میں کامیاب ہوئے اور اسی کے سھارے تمام لوگوں کو بلڈوزر میں بٹھایا اور بمشکل تمام سارے پھنسے ہوئے افراد کو لے کر بخیر و عافیت باہر آگئے ۔اور ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
سبحان خان کی اس کامیابی کے بعد نہ صرف کھمم میں بلکہ ہریانہ کے میوات ضلع میں بھی جشن کا سا سماں بندھ گیا تھا ۔ اور سوشل میڈیا پر ’سبحان تجھے سلام‘ ٹرینڈ کرنے لگا ۔ جن لوگوں کی سبحان نے مدد کی وہ بھی انہیں دعائیں دیتے نہیں تھک رہے تھے ۔کئی لوگ ان کی سراہنا میں مصروف تھے تو ان کی بیٹی نے بھی فخر سے اپنی گردن اونچی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’’میں پھولی نہیں سمارہی ہوں کہ میرے والد نے وہ کارنامہ انجام دیا جو انہوں نے ٹھان لیا تھا۔ ‘‘
سبحان خان کہتے ہیں ان کے اس کارنامے کی ہر جگہ پذیرائی کی گئی ،کئی لوگوں نے ان کی تہنیت کی ۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر جناب اسد الدین اویسی نے ان کی ستائش کرتے ہوئے انہیں اکّاوَن ہزار روپئے کی رقم پیش کی ۔ اور وزیر ہاؤسنگ ،ریونیواور اطلاعات و تعلقات عامہ تلنگانہ پونگولیٹی سری نواس ریڈی کے نام ایک خط لکھ کر باقاعدہ ملاقات بھی کی اور اس بات کی سفارش کی کہ کھمم میں سبحان خان کو’ 2بی ایچ کے‘ گھر حکومت کی جانب سے دیا جائے ۔ وزیر ہاؤسنگ نے فوراً کھمم کے کلکٹر سے رابطہ کرکے سبحان خان کے نام کوگھر دئے جانے والے افارد کی لسٹ میں سر فہرست کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا ۔امید ہے کہ جلداز جلد سبحان خان کو یہ انعام بھی مل جائے گا ۔اسی طرح جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ اور جماعت اسلامی ہند ضلع کھمم کی جانب سے امیر حلقہ جناب خالد مبشرالظفر صاحب کے بدست سبحان خان کوپچیس ہزارروپیوں کا نذرانہ پیش کیا گیا اور ان کے کامیاب مستقبل کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی ۔ساتھ ہی اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن تلنگانہ کی جانب سے بھی سبحان خان کی تہنیت کی گئی ۔اس کے علاوہ دیگر سیاسی و غیر سیاسی شخصیات نے بھی سبحان کی ہمت افزائی کرنے کی کوشش کی ہے۔
سبحان خان کے اس واقعے سے جو بنیادی پہلو نکل کر سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ اگر اخلاص کے ساتھ انسانیت کی خدمت کی جائے تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔یا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہی اس کا بدلہ عطا کرتے ہیں یا پھر آخرت میں تو کامیابی یقینی ہوتی ہے ۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024