سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکسے نے استعفیٰ دیا
نئی دہلی، مئی 9: سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکسے نے پیر کو ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کے درمیان اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے اپنا استعفیٰ صدر گوتابایا راجا پکسے کو سونپ دیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب سری لنکا کے حکام نے راجا پکسے کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی حکومتی حامیوں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا تھا اور فوج کو تعینات کر دیا تھا۔ تشدد میں 78 افراد زخمی ہوئے۔
اے ایف پی کے مطابق تصادم کے نتیجے میں سری لنکا کی حکمراں جماعت کے ایک رکن پارلیمنٹ کی موت بھی واقع ہوئی۔
پولیس نے بتایا کہ ایم پی امرکیرتھی اتھوکورالا نے نیتمبوا ٹاؤن میں اپنی کار کو روکنے والے دو لوگوں کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ بعد میں وہ قریبی عمارت میں مردہ پائے گئے۔
گذشتہ ماہ سے سیکڑوں مظاہرین صدر گوتابایا کے گھر کے باہر دھرنا دے رہے ہیں کیوں کہ سری لنکا عوامی قرضوں میں ڈوب گیا ہے، جس کے نتیجے میں 1948 میں اپنی آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کے ساتھ سری لنکا کو ادویات، دودھ کا پاؤڈر، کھانا پکانے کی گیس، مٹی کا تیل اور دیگر ضروری اشیا کی قلت کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے حکام نے ایک ماہ سے کم عرصے میں دوسری بار ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ سری لنکا کی حکومت نے پہلی بار یکم اپریل کو ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا، جس میں راجا پکسے کو مظاہرین کو حراست میں لینے اور املاک کو ضبط کرنے کے وسیع اختیارات دیے گئے تھے۔
پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے ایندھن کی کمی کے باعث حکام نے روزانہ 13 گھنٹے بجلی کی کٹوتی بھی کر دی ہے۔ 17 اپریل کو سرکاری پٹرولیم کارپوریشن نے ایندھن کی راشننگ شروع کر دی تھی، جوملک میں قلت کی شکار بہت سی اشیا میں سے ایک ہے۔
12 اپریل کو حکومت نے کہا کہ جب تک اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ نہیں مل جاتا وہ 51 بلین ڈالر (3.88 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ) کے اپنے پورے بیرونی قرضوں کو ڈیفالٹ کر لے گی۔
کسی ملک کے بیرونی قرض کا تعلق اس رقم سے ہوتا ہے جو اس نے تجارتی بینکوں، حکومتوں یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے غیر ملکی قرض دہندگان سے لیا تھا۔