سپریم کورٹ کا تعلیمی اداروں میں حجاب پر منقسم فیصلہ

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر منقسم فیصلہ سنایا ہے۔ ‘اختلاف رائے’ کے پیش نظر عدالت نے مناسب ہدایات کے لیے اس معاملے کو چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے رکھنے کی ہدایت دے دی ہے۔

درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے متعدد وکلاء کا اصرار  تھا کہ مسلم بچیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں جانے سے روکنے  کی وجہ سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ وہ کلاس میں جانا بند کر سکتی ہیں۔بچیوں کو تعلیم میں حجاب کو مسئلہ نہیں بننے دینا چاہیے اوراگر انہیں حجاب یا اسکارف باندھنے سے روکا جائے گا تو یہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہوگا۔

جسٹس گپتا جنہوں نے سب سے پہلے اپنا فیصلہ پڑھا، بالکل شروع میں کہا کہ ’رائے کا اختلاف ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے 11 سوالات تیار کیے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ کیا سبریمالا معاملے کے ساتھ اپیل کی سماعت کی جائے جو نو ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے زیر التوا ہے۔

سوالات میں یہ شامل تھا کہ کیا کالج انتظامیہ طلبہ کے یونیفارم کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے اور کیا حجاب پہننے پر پابندی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 25 کے تحت ضمیر اور مذہب کی آزادی کا دائرہ کار کیاہے؟

خیال رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاست کرناٹک میں اس سال مارچ میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ ایک بڑی مسلم اکثریت والے ملک کے باقی حصوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے کاز لسٹ کے مطابق جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا پر مبنی دو رکنی بنچ نے جمعرات کو اس معاملے میں فیصلہ سنایا۔ بنچ نے 10 دن تک اس معاملے میں دلائل سننے کے بعد 22 ستمبر کو درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

کرناٹک میں پانچ فروری 2022 کو تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب لینے پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے خلاف مسلمان طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ان مظاہروں کی مخالفت میں ہندو طلبہ نے بھی احتجاج شروع کر دیا  تھاجس کی وجہ سے حکام اس ماہ کے آغاز میں تعلیمی ادارے بند کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو مزید پسماندہ کیا جارہا ہے اور جہاں بی جے پی کی حکومتیں برسراقتدار ہیں وہاں اقلیتی کمیونیٹی کو متواتر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے متعدد وکیلوں نے اصرار کیا تھا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں جانے سے روکنے سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ وہ کلاس میں جانا بند کر سکتی ہیں۔کچھ وکلا نے یہ بھی استدلال کیا تھا کہ اس معاملے کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا جائے۔

دوسری طرف، ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے دلیل دی تھی کہ کرناٹک حکومت کا حکم جس نے حجاب پر تنازعہ کھڑا کیا تھا وہ ’مذہبی طور پر غیر جانبدار‘ فیصلہ تھا۔

ہائی کورٹ کے  فیصلے میں کیا تھا؟

کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے فیصلے میں کہا کہ ‘ہماری رائے ہے کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔’انہوں نے حکم کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یکساں رہنما اصول تجویز کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے۔

فیصلے سے قبل کرناٹک کے حکام نے سکولوں اور کالجوں کو بند کرنے کا اعلان کیا اور ممکنہ مشکلات کے تدارک کے لیے ریاست کے کچھ حصوں میں عوامی اجتماعات پر پابندیاں عائد کر دیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ طلبا کسی مذہبی لباس کی بجائے اسکول یونیفارم کو ترجیح دیں جبکہ حجاب پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے والے طلبہ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا بھارت کے آئین کے تحت ایک بنیادی حق اور اسلام کا لازمی عمل ہے۔

بنچ نے اس معاملے کو چیف جسٹس  آف انڈیا جسٹس ادے امیش للت کو بھیج دیا ہے تاکہ وہ لارجر بنچ تشکیل دیں۔تاہم اس دوران کرناٹک ہائی کورٹ کا جاری کردہ فیصلہ نافذ العمل ہو گا۔