مقررین نے عالمی رپورٹس میں ہندوستان کی حییثیت گر کر’’جزوی طور پر آزاد ملک‘‘ ہونے پرسخت تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، مارچ 17: جماعت اسلامی ہند کے ایک پروگرام میں مقررین نے بین الاقوامی رپورٹس میں ہندوستان کی حیثیت ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’’، ’’انتخابی طور پر خودمختار‘‘ اور ’’آزاد ملک‘‘ سے گر کر ’’جزوی طور پر آزاد ملک‘‘ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

یہ ریمارکس جے آئی ایچ کے زیر اہتمام، ملک پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے اثرات اور ووٹرز کی ذمہ داریوں کے موضوع پر منعقدہ ایک گروپ مباحثے کے دوران دیے گئے۔

اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے جے آئی ایچ کے سکریٹری ملک معتصم خان نے کہا کہ انتخابات جمہوریت کے لیے بہت اہم ہیں۔ ’’انتخابات کے ذریعے لوگ اپنے پسندیدہ نمائندوں کا انتخاب کرکے اور ناپسندیدہ افراد کو مسترد کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ عوام اپنی ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے اور نااہل نمائندوں کو نکالنے کے لیے اپنی ووٹنگ کی طاقت استعمال کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔‘‘

اس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ اب انتخابات کو لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، جے آئی ایچ کے سکریٹری نے موجودہ فضا کے بارے میں بات کی جہاں معمولی باتوں پر بھی ملک بغاوت کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں، طلبا اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا جارہا ہے۔

مسٹر ملک معتصم نے کہا ’’حالیہ برسوں میں کچھ سیاسی جماعتوں کے ذریعہ جو ماحول پیدا ہوا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات کی آڑ میں عوام اور ملک کو منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ لہذا حالیہ بین الاقوامی رپورٹس نے ہندوستان کو جزوی طور پر آزاد ملک قرار دے دیا ہے۔‘‘

سینئر صحافی مسٹر پرشانت ٹنڈن نے ہندوستان سے متعلق بین الاقوامی رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہم نہ تو ان کی تردید کرسکتے ہیں اور نہ ہی انھیں متعصبانہ رپورٹس کہہ سکتے ہیں کیونکہ ملک کی صورت حال کی کشش ثقل واضح ہے۔ جمہوریت ایک ایسا ادارہ ہے جو رائے عامہ کی بنیاد پر چلتا ہے۔ حکومت سازی کے لیے ووٹنگ سے پہلے معاملات اٹھانا بہت ضروری ہے۔ ہم تعلیم، صحت، صفائی ستھرائی، روزگار، انسانی حقوق، ترقی اور صنعت جیسے معاملات پر ووٹ ڈالنے کے بجائے مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ اب کچھ سالوں سے نفرت کی بنیاد پر پولرائزیشن کی سیاست کھیلی جارہی ہے۔ جمہوری ملک کے لیے یہ اچھا نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں شہریوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی مفاد اور ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹنگ کے دوران محتاط رہیں اور صرف ایماندار نمائندوں کا انتخاب کریں۔ اسمبلی یا پارلیمنٹ میں نمائندہ بھیجنے کے بعد پانچ سال تک بیکار نہ بیٹھیں، بلکہ وہ ملک کے لیے جو کچھ کررہے ہیں اس کے لیے انھیں باقاعدگی سے جوابدہ رکھیں۔‘‘

ملک کی پانچ ریاستوں میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی نے کہا ’’کارپوریٹ میڈیا‘‘ یہ پیش کررہا ہے کہ بی جے پی کے سوا کوئی پارٹی اسمبلی انتخابات نہیں لڑ رہی ہے۔ در حقیقت بی جے پی کو بیشتر نشستیں ملک کے وسطی اور مغربی علاقوں سے ملتی ہیں اور آئندہ انتخابات مشرقی اور جنوبی ہندوستان میں ہوں گے، جہاں بھگوا پارٹی کی تھوڑی بہت موجودگی ہے۔

اس موقع پر آسام سے فردوس بربھوہیا، مغربی بنگال سے امرال کوائس اور کیرل سے مہر نوشاد نے متعلقہ ریاستوں میں موجودہ سیاسی منظرنامے پر تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا۔