سونا خریدنے کا جنون

پیلی دھات پر قرض دینے کے رجحان میں اضافہ

زعیم الدین احمد حیدرآباد

ہمارے ملک میں سونے کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے، لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب سونا خریدیں۔ کوئی تقریب نہیں چھوٹتی جس میں لوگ سونا نہیں خریدتے ہیں۔ رہی شادی تو وہ اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ لڑکی کی پیدائش کا موقع ہو سالگرہ ہو یا پھر کوئی اور تیوہار ہو، لوگ سونا خریدنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمارے ملک میں مختلف وجوہات و مواقع سے سونے کی خریداری کی جاتی ہے۔ غیر مسلم بھائیوں میں تو سونا خریدنا ایک مذہبی رسم ہے۔ ان کے ہاں اکشیا ترتیا کے نام سے ایک تیوہار منایا جاتا ہے جس میں ان کے عقیدے کے مطابق اس عرصے میں کچھ نہ کچھ مقدار میں سونا خریدنا اچھی قسمت کا باعث ہوتا ہے۔
بین الاقوامی سونا خریداری کی کونسل ’ورلڈ گولڈ کونسل‘ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ سونا خریدنے والے سر فہرست ممالک میں ہمارے ملک کا نمبر پہلا ہے۔ چلیے ہمارا ملک کہیں تو پہلے مقام پر فائز ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ مقدار میں یعنی 25 ہزار ٹن سونا ہمارے عوام کے پاس ہے۔ اس سونے کی موجودہ قیمت کیا ہو گی آپ ہی حساب لگا لیں۔ اتنی بھاری مقدار میں بھارتی عوام سونا خرید کر محفوظ کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی عوام اتنی بھاری مقدار میں سونا کیوں خریدتے ہیں؟ عوام کے پاس اس کی وجوہات الگ ہیں اور معاشی ماہرین کے پاس الگ۔ سونا خریدنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سونا قیمت کے بے قابو ہونے سے بچاتا ہے، اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر اسے نقدی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سونا خریدنے کی عام وجہ یہ ہے کہ اسے کسی بھی وقت بیچا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اتنی ہی قدر کی زمین ہو تب بھی آپ اپنی ضرورت پر فوری طور پر اسے بیچ نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ تہذیبی و ثقافتی طور پر بھی لوگ سونا خریدتے ہیں۔ مذہبی رسم بھی ایک وجہ ہے۔ اس کے علاوہ مختلف وجوہات کی بنا پر لوگ سونا خریدتے ہیں۔
لیکن معیشت میں سونا خریدنے کو انتہائی غیر منافع بخش سرمایہ کاری کہا جاتا ہے، آپ اس بات سے متحیر ہوں گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ سونے کی اپنی انفرادیت ہے، عوام تو اسے ایک آلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں پھر بھلا یہ کیسے غیر سود مند ہو سکتا ہے؟ لوگ اپنی بچت کی رقم کو مختلف چیزوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، کوئی زمین خریدتا ہے تو کوئی کسی کمپنی کے شیئرز خریدتا ہے، بالکل اسی طرح سونا بھی خریدا جاتا ہے۔ بے شک انفرادی طور پر تو یہ تھوڑا بہت فائدہ بخش ثابت ہوسکتا ہے لیکن ملک کی معیشت کے اعتبار سے یہ بہت نقصان دہ رجحان ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ ملک کی معیشت کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم ہر سال ایک ہزار ٹن سونا درآمد کرتے ہیں۔ یہ قانونی طور حکومت کی اجازت سے درآمد ہونے والے سونے کی مقدار ہے۔ غیر قانونی طور پر، اسمگلنگ اور دوسرے ذرائع سے مزید دو سو ٹن سونا ہمارے ملک میں آتا ہے، اس طرح ہم ہر سال جملہ ایک ہزار 2 سو ٹن سونا درآمد کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ہر سال اتنی بھاری مقدار میں سونا خریدنے کے لیے اپنا بیرونی زرِ مبادلہ خرچ کر رہے ہیں۔ بیرونی زرِ مبادلہ کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ سونا کوئی اور چیز پیدا نہیں کر سکتا۔ مثلا اگر آپ نے کچھ رقم بینکوں میں جمع کی ہو گی تو وہ رقم بینک کسی کو قرض دے گا، جمع شدہ رقم سے بینک کسی صنعت لگانے والے کو قرض فراہم کرے گا، یعنی جمع شدہ رقم کو کسی اور کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ سرمایہ میں تبدیل ہو گا اس سے کوئی اور پیداوار ہو سکتی ہے جس سے معیشت میں استحکام پیدا ہو گا۔ اس کے برعکس سونے سے کوئی پیداوار ممکن نہیں ہے، اس کو کسی اور کام میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، وہ صرف ایک فرد کے استعمال میں آسکتا ہے یا پھر بینک کے لاکر میں پڑا رہ سکتا ہے۔ معیشت کے استحکام میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں عوام کو سونا خریدنے پر نہیں ابھارتیں۔
1965 میں حکومت نے ایک اسکیم متعارف کروائی تھی، جس کے تحت کسی کہ پاس غیر معلنہ سونا ہوتا تو اسے ظاہر کرنے پر کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا تھا، یعنی اگر غیر قانونی سونا ہو تب بھی اسے ظاہر کرنے پر ٹیکس سے مستثنٰی کیا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ معافی کی درخواستیں ہوتی تھیں۔ سال 1968 میں ایک قانون بنایا گیا جسے گولڈ کنٹرول ایکٹ کہا جاتا ہے، اس قانون میں یہ وضاحت تھی کہ ایک فرد کتنا سونا اپنے پاس رکھ سکتا ہے یا ایک دکان دار کتنا سونا بیچ و خرید سکتا ہے۔ ان تمام چیزوں پر حکومت کا کنٹرول ہوتا تھا، لیکن حقیقت میں اس قانون پر عمل درآمد کرنا نا ممکن تھا۔ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں اس طرح کے قانون کا نفاذ ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس مستند ادارے ہی سونا نہیں بیچتے ہیں بلکہ سنار کی چھوٹی دکانوں میں بھی سونا خریدا و بیچا جاتا ہے۔
سونے کی خرید وفروخت کو ضبط میں رکھنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں یہ قانون موجود تھا۔
1990 کی دہائی کے بعد جب ملک میں معاشی آزادی کا دور شروع ہوا تب گولڈ کنٹرول ایکٹ کو منسوخ کر دیا گیا، یعنی کسی فرد کو متعین مقدار میں سونا رکھنے کی پابندی ختم ہو گئی اور دکان دار بھی اس پابندی سے آزاد ہو گیا۔ اس سے کالا دھن رکھنے والوں کو بڑی آسانی ہو گئی۔ بنیادی طور پر کالا دھن رکھنے والے یا تو زرعی زمین خریدتے ہیں یا پھر سونا خریدتے ہیں۔ زرعی زمین خریدنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سرکاری قیمت خرید کم ہوتی ہے، اسی طرح سونا غیر قانونی دولت رکھنے والوں کے لیے سرمایہ کاری کے طور پر ہوتا ہے۔ اپنی غیر قانونی دولت محفوظ کرنے کے لیے سونا خریدا جاتا ہے۔ اسی لیے حکومت نے پانچ لاکھ روپے سے زیادہ سونا خریدنے پر پان کارڈ اور آدھار کارڈ کو لازم کیا ہے۔ لیکن یہاں سونا خریدنے والے بھی چالاک اور فروخت کرنے والے بھی چالاک ہیں، وہ یہ کرتے ہیں کہ پانچ لاکھ کے بجائے دو لاکھ یا تین لاکھ روپیوں کا بل بناتے ہیں، اس طرح وہ دس لاکھ روپے تک کا سونا خرید لیتے ہیں۔ حکومت کی یہ ساری حکمت عملیاں غیر کارگر ثابت ہوئیں۔ حکومت لاکھ کوششوں کے باوجود سونا خریداری میں باضابطگی نہیں لا پا رہی ہے۔ پھر حکومت نے ایک اور اسکیم ’’گولڈ سورنڈ بانڈز‘‘ کے نام سے جاری کی۔ اگر آپ سونے کو بطور سرمایہ کاری خریدنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے سونے کو دھات کی شکل میں خریدنے کے بجائے ان بانڈز کو خریدنا کافی ہو گا، جیسے جیسے سونے کی قیمت بڑھے گی ویسے ویسے ہی ان بانڈز کی قیمت بھی بڑھے گی۔ یہ بانڈز سونے سے منسلک ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں پر بھی ایک پیچ ہے، وہ یہ کہ بانڈز صرف سفید دھن والے ہی خرید سکتے ہیں، پھر بھلا جن کے پاس کالا دھن ہو گا وہ کیسے ان بانڈز کو خرید پائیں گے؟ سونا خریدنے والوں میں اکثر کالا دھن رکھنے والے ہی ہوتے ہیں، ان بانڈز میں ایسے لوگوں کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، اسی لیے ان بانڈز میں لوگوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ ایک اور مشکل ان بانڈز کو خریدنے میں یہ ہے کہ سونے کو دھات کی شکل میں رکھنے سے ایک طرح کا قلبی سکون حاصل ہوتا ہے جب کہ بانڈز کے معاملے میں یہ کیفیت نہیں ہوتی، سونا زیور کی شکل میں استعمال بھی کیا جا سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر فروخت بھی کیا جا سکتا ہے، بانڈز کو فروخت تو کیا جا سکتا ہے لیکن استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سونا خریدنے میں عوام کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔
ایک اور معاملہ بھی اس وقت زور پکڑتا جا رہا ہے، وہ ہے سونے پر قرضوں کی اسکیم، یعنی سونے پر قرض دینے کے رجحان میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آر بی آئی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 81 ہزار کروڑ روپے کا مختلف بینکوں نے گولڈ لون فراہم کیا ہے، یعنی بینکوں نے سونے کے بدلے میں قرض فراہم کیا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں ہر سال 32 فیصد کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح گولڈ لون اسکیم میں مثبت پہلو یہ ہے کہ سونا معیشت میں کسی طرح سے کام توآرہا ہے۔ قرض کسی چھوٹی صنعت کے لیے لیا جا رہا ہو گا یا کوئی دکان کھولنے کے لیے لیا گیا ہو گا، یا کسی دوسرے کام کے لیے لیا گیا ہو گا، جو بھی ہو اس کے ذریعے سے نقدی بازار میں تو گشت کر رہی ہے۔ لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے وہ یہ کہ گولڈ لون ملنے میں آسانی دیکھ کر لوگ اس کی طرف مزید راغب ہوں گے اور سونا خریدیں گے، کیوں کہ سونے پر قرض آسانی سے مل رہا ہے، وہیں اگر کسی کے پاس گھر ہو گا یا کسی قسم کے بانڈز ہوں گے تو اس پر قرض ملنا بہت مشکل ہے۔ اسی لیے لوگ سونا خریدنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں اور ہزار کوششوں کے باوجود بھی سونا خریدنے کا جنون کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ انسان کی سونے سے یہ دلچسپی یہ خواہش اور یہ جنون شاید لب گور تک پہنچ کر ہی ختم ہو گا۔

 

***

 آر بی آئی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 81 ہزار کروڑ روپے کا مختلف بینکوں نے گولڈ لون فراہم کیا ہے، یعنی بینکوں نے سونے کے بدلے میں قرض فراہم کیا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں ہر سال 32 فیصد کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔ گولڈ لون ملنے میں آسانی دیکھ کر لوگ اس کی طرف مزید راغب ہوں گے اور سونا خریدیں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023