سودی قرضوں کے جال میں پھنسی دنیا انسانیت کو بھکمری سے کیسے بچائے گی؟

کروڑہا لوگ عالمی مالیاتی نظام کی بے رحمی سے متاثر

پروفیسر ظفیر احمد

پچاس ابھرتی معیشتوں کے لیے قرضوں پر سود کی واپسی آمدنی سے دس فیصد زائد: اقوام متحدہ
ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اپریل میں بھارت کی آبادی 142.86 کروڑ ہوگئی ہے جس نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی بڑی آبادی بھکمری کا شکار ہے اور کروڑوں افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے لوگوں کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ اور روس۔یوکرین جنگ کے جاری رہنے کے سبب 2020 کے بعد سے اب تک تقریباً سولہ کروڑ پچاس لاکھ لوگ انتہائی غربت کی حد پر پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ان جھٹکوں کی وجہ سے 2020 سے 2023 کے اخیر تک سات کروڑ پچاس لاکھ افراد انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ وہ یومیہ 2.15 ڈالر سے بھی کم پر اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ نو کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے کہ یومیہ 3.65 ڈالر کمانے والوں کو خط افلاس کے زمرے میں شامل رکھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں سب سے زیادہ متاثر غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ چہارشنبہ کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق 3.5 بلین افراد جو دنیا کی آبادی کے نصف سے کچھ ہی کم ہیں ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو صحت و تعلیم کے بجائے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ ترقی پذیر غریب ممالک قرضوں کی کم سطح رہنے کے باوجود سود ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ مالی اداروں کا قرضوں پر شرح سود زیادہ رہتی ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک قرض کے (Debit Trap) پھندے میں پھنس کر مزید بے حال ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس مالیاتی اداروں کے اصلاحات پر بہت پہلے سے زور دیتے آرہے ہیں کیونکہ موجودہ ’’فرسودہ مالیاتی نظام‘‘ اس قابل ہے کہ اس کی مذمت کی جائے۔ یہ اس دور کی نو آبادی استعماریت کی حرکیات کی عکاسی کرتا ہے جسے ختم کیا جانا چاہیے۔ ایک پریس کانفرنس میں سکریٹری جنرل نے یہاں تک کہا کہ اس قرض کے بحران کا شکار زیادہ تر غریب ترقی پذیر ممالک ہیں۔ اس لیے کہ اس سے گلوبل فائنانشیل سسٹم کو کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سراب ہے اور سسٹم کی ناکامی ہے۔ اس سے فائنانشیل مارکیٹس متاثر نہیں ہوتے مگر کروڑہا لوگ اس سسٹم کی بے رحمی سے متاثر ہو رہے ہیں اور عوامی قرضوں کی سطح ڈگمگا رہی ہے۔ ہمارے ملک پر بھی ایک سو ساٹھ لاکھ کروڑ روپے کا قرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 میں عالمی قرض (Global Debt) 92 ٹریلین ڈالر کے ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا۔ ترقی پذیر غریب ممالک ایک غیر متناسب رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں مقروض ممالک کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ 2011 میں بائیس ممالک سے 2022 میں انسٹھ ممالک تک کا اضافہ درج کیاگیا کیونکہ قرض کا بڑھتا حصہ خانگی کریڈیٹرس کے پاس ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک سے ظالمانہ طریقے سے سود وصول کرتے ہیں۔ قرض کے موجودہ بحران کی وجہ سے اقوام متحدہ کا ترقیاتی ہدف (یو این ڈیولپمنٹ ٹارگٹ) برائے 2030 میں سرمایہ کاری کرنے سے ایسے ممالک کسی حد تک قاصر ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی وجوہات کی وجہ سے عوامی قرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً کووڈ -19 کے اثرات کو قابو میں کرنے کی کوشش وغیرہ۔لوگوں کے اخراجات میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی کی مار کی وجہ سے گلوبل فائنانشیل آرکیٹکچر جو سود خوار ہوس پرستوں کا ٹولہ ہے، اس نے ترقی پذیر ممالک کے لیے مالیات کی فراہمی کو مہنگا اور ناکافی بنا دیا ہے۔ اس طرح وہ ایسے مالیاتی اداروں اور امیر ممالک کے شکنجہ میں روز بروز پھنستے جاتے ہیں۔
عالمی اعتبار سے پچاس ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے قرضوں پر سود کی واپسی آمدنی سے دس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ افریقہ میں سود کی ادائیگی کے لیے دی جانے والی رقم تعلیم و صحت کے خرچ سے زیادہ ہے جس سے ان ممالک کو قرض کی ادائیگی یا اپنے شہریوں کی خدمت کرنے کے مشکل انتخاب کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے کل بیرونی قرضوں کا باسٹھ فیصد نجی قرض دہندگان مثلاً بینک اور بانڈ ہولڈرس کا واجب الادا ہوتا ہے، اس لیے لاطینی امریکہ کے کسی بھی علاقہ کے لیے سرکاری قرضوں کے حامل نجی قرض دہندگان کا تناسب چوہتر فیصد تک جاتا ہے۔ اسی طرح افریقی ممالک میں یہ شرح سود جو تیس فیصد تھی وہ 2021 میں بڑھ کر انچاس فیصد ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا بھر میں ملکی اور بیرونی قرض پانچ گنا سے زائد ہوگیا ہے جس سے ملکوں کی اقتصادیترقی پچھڑتی جاتی ہے اور ترقی پذیر ممالک عالمی قرضوں کے تیس فیصد مقروض ہوگئے ہیں۔ جن میں سے ستر فیصد قرض بھارت، چین اور برازیل پر واجب الادا ہے۔ قرض لینے والے انسٹھ ترقی پذیر ممالک کے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ اس لیے قرض کے بڑھتے بوجھ، قرض کی زیادتی کی وجہ سے قرض تک محدود رسائی کا کرنسی کی قدروں میں گراوٹ اور سخت شرح نمو سے قرض پذیر ممالک کے قابل برداشت ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے سرچارجز کی عارضی معطلی کے ساتھ کثیر الجہتی قرض دینے والوں کو اپنی مالی تعاون میں اضافہ بھی کرنا چاہیے۔ قرض دہندگان کے خود غرضانہ رویوں کی وجہ سے عالمی سطح پر مجموعی قرضے 2022 میں نو سو بیس کھرب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
اب حکومتوں کا انحصار قرضوں پر بڑھتا گیا اس سے حکومت دفاع اور انتظامی امور پر خرچ کرنے کے بعد حکومت، صحت، تعلیم، سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، معاشی ترقی اور دیگر فلاحی منصوبوں کے لیے بہت کم وسائل بچنے لگے۔ لہذا انہیں مزید قرض کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرض کے بوجھ اس قدر بڑھ جانے کی وجہ سے ہم غربت کے ازالہ اور معاشی عدم مساوات کو دور کرنے میں ناکام رہے۔ یہی حال دنیا بھر کے ترقی پذیر ملکوں کا ہے جہاں غربت کا ناسور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتہ عالمی غذائی سلامتی پر ایک تشویش ناک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ سال 2.4 ارب لوگوں کو لگاتار خوراک میسر نہیں ہوئی اور 78.3 کروڑ لوگوں کو بھوک سے کشمکش کرنی پڑی۔ 14.8 کروڑ بچوں کی جسمانی ترقی میں رکاوٹ ہوئی۔ اقوام متحدہ کی پانچ ایجنسیوں نے غذائی سلامتی اور تغذیہ کی حالت کی رپورٹ 2023 میں کہا کہ 2021 اور 2022 کے درمیان دنیا میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوتی لیکن بہت سارے مقام پر لوگوں کو سنگین طور سے غذائی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ میں مغربی ایشیا، کریبیائی ممالک اور افریقہ کو نشان زد کیا گیا ہے جہاں بیس فیصد آبادی کو بھوکا رہنا پڑا۔ ایسے ممالک میں قرض کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ وہ اپنے عوام کو غذا فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ سود پر مبنی فرسودہ مالیاتی نظام پر قدغن لگے ورنہ دنیا کی بڑی آبادی بھکمری کا شکار ہوکر دم توڑتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں سود کی حرمت میں بڑی سختی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023