انشومن گائیکواڈ نہیں رہے! اگر یہ 2016 ہوتا تو شاید یہ خبر مجھے ٹویٹر سے نہ ملتی، مجھے خود سے پتہ چلتا اور میں سچن کے شارجہ والے معجزے کے بعد خوشی سے دوڑتے ہوئے اَنشومن جی کی تصویر اپنے دماغ میں لے کر غمگین ہو رہا ہوتا!
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اب نہ مجھے اس ریڑھ کی ہڈی سے محروم سچن سے فرق پڑتا ہے اور نہ ہی ایک بزرگ امیر بھارتی کے گزرنے سے! آج سے پانچ سات سال پہلے تک مجھے بھی بھارتی کرکٹ کی ہر بڑی شخصیت کے گزرنے اور بھارت کے ہارنے پر بہت غم ہوتا تھا!
کرکٹ میں بھارت کے کچھ بھی جیتنے پر بہت خوشی ہوتی تھی کیونکہ میں کرکٹ کا دیوانہ تھا جس نے آٹھ سال سے اٹھائیس سال کی عمر تک ہر کرکٹ میچ چاہے کسی ٹیم کا ہو، ضرور دیکھا اور وہ بھی پورے جذبے سے، خاص طور پر ٹیسٹ میچ بھارت میں ہے تو اسکول سے چھٹی لے کر۔ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ میں ہو تو صبح تین یا چار بجے اٹھ کر، افریقہ و انگلینڈ میں ہو تو دوپہر میں، ویسٹ انڈیز ہو تو شام سے رات تک!!
اسی طرح کا لگاو بالی ووڈ کے ساتھ بھی تھا۔ کوئی بڑا فنکار، خاص طور پر گلوکار یا میوزک ڈائریکٹر گزر جاتا تو غم ہوتا کیونکہ موسیقی کا شائق ہونے کی وجہ سے مجھے ہیمنت کمار جی سے لے کر ارجیت تک سب کے گانے پسند تھے! پاپا امیتابھ بچن کے دیوانے تھے تو ان کی دیکھا دیکھی میں بھی ان کا دیوانہ بن گیا۔ اور شاہ رخ کا دیوانہ تو میں نو سال کی عمر میں فلم پردیس کے بعد ہی ہو گیا تھا، باقی بھی بہت پسندیدہ تھے لیکن یہ دونوں ٹاپ پر تھے!
لیکن اب اس ریڑھ سے عاری مہا نالائق کے لیے کوئی احترام نہیں ہے۔ شاہ رخ سے محبت ہمیشہ رہے گی لیکن اب وہ دیوانگی نہیں رہی! ہاں، ٹویٹر بایو میں ویراٹ اور شاہ رخ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ ان دونوں کی شخصیت مجھے کرکٹ اور سنیما سے کہیں زیادہ متاثر کرتی ہے، ان میں ایک الگ مثبت توانائی ہے۔
لکھنے کا شوق بچپن سے تھا خاص طور پر انگریزی میں اور ساتھ ہی اردو شاعری سننے کا بھی! قدرت اور خواتین کی خوبصورتی پر سیکڑوں انگریزی نظمیں لکھیں اور نہ جانے کتنے دوستوں کو ان کی محبوباؤں کو پانے میں مدد کی۔ میری اپنی بیوی کو بھی جو کبھی میری محبوبہ تھی، میں نے خود کی لکھی شاعری سے حاصل کیا!
لیکن اب کرکٹ، سنیما اور محبت کے ادب سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی! کیا میں اتنا نروس ہو چکا ہوں؟ شاید ہاں، کیونکہ سنگھیوں سے دل سے نفرت ہونے کی وجہ سے 2014 سے ہی میرا دل سماجی مسائل میں زیادہ لگنے لگا تھا لیکن 2016 کی نوٹ بندی کے بعد لوگوں کی حالت دیکھ کر میرا دل سوائے سماجی مسائل کے کہیں نہیں لگتا!
*سماج میں پھیلی ہوئی نفرت، دم توڑ رہا اصلی بھارت اور چھپی ہوئی قوم پرستی اور مذہبی شدت پسندی کے نام پر پھیلی ہوئی یہ عجیب سی افسردگی مجھے گھیرے ہوئے ہے! اب مجھے صرف گرتے پل، مرتے سپاہی، پٹتے طلباء، بھوک سے بلکتے بچے، پھانسی پر لٹکتے کسان اور بے روزگار، دم توڑتی جمہوریت، جلتا منی پور، امریکہ جیسا ٹیکس بھر کر صومالیہ جیسی سہولت پانے والا عام بھارتی اور اس بھارتی پر ہنسنے والا خود پسند راجا، اس کے بے شرم وزراء، دو چار امیر دوست، بکاؤ میڈیا اور کروڑوں گالیاں دینے والے پرتشدد پیروکار نظر آتے ہیں۔
کبھی کرکٹ دیکھتا ہوں تو آسٹریلیا، انگلینڈ جیسے ممالک میں ہونے والا خالص ٹیسٹ کرکٹ، شاعری سنتا ہوں تو عاشقی والی نہیں کچھ وزن دار سماجی مسائل سے متعلق بات والی، لکھتا ہوں تو سماج پر، اپنے ملک پر اور لکھتے لکھتے رو دیتا ہوں!
جو ملک اپنے قریبی حریف چین سے سو سال اور پہلی دنیا کے ممالک سے دو سو سال پیچھے ہو، وہاں عام آدمی کی زندگی روک کر امبانی کی سرکس اور اس میں جوکری کرنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے، ہزاروں کروڑ روپے کمانے والا کرکٹ بورڈ (بغیر ٹیکس دیے) اور ہر سہولت سے لیس کروڑ پتی کرکٹر جو ایک دہائی میں ایک ٹی 20 ورلڈ کپ جیت پائے ہوں، ان کے لیے ہزاروں ٹن کچرا پیچھے چھوڑ کر جانے والی لاکھوں کی بھیڑ اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے کروڑوں کے انعامات اچھے نہیں لگتے۔
2014 سے پہلے بھی ملک میں پریشانیاں تھیں، امبانی تھا، کرکٹ تھی لیکن لوگوں میں اتنا زہر نہیں تھا، حکومت سے سوال پوچھنے پر آپ ملک دشمن نہیں کہلاتے تھے۔ میڈیا اگرچہ کچھ حد تک بکاؤ تھا لیکن اتنا بکاؤ نہیں تھا جتنا آج ہے! ملک کا وزیراعظم کم بولتا تھا، وہ صرف اپنے دل کی ہی نہیں، دوسروں کے دل کی بات بھی سنتا تھا۔
اب کیا حل ہے میری اس دن رات کی پریشانی کا؟ بس یہی حل ہے کہ میں ملک کی پریشانیوں پر لکھتا جاؤں، بولتا جاؤں جب موقع ملے، جتنا موقع ملے، جس سے موقع ملے، جب تک موقع ملے۔ اب نہیں بن سکتا میں وہ کرکٹ، سنیما اور محبت کی شاعری والا ہیمانشو! اس وقت تک تو بالکل نہیں جب تک سنگھی، حکومت سے باہر نہ ہو جائیں اور ہمیں ہمارا پرانا بھارت واپس نہ ملے جس میں پریشانیاں تو ہوں گی لیکن کھلی اور آزاد سانس بھی تو ہوگی!
از۔۔۔ ہیمانشو سنگھل
HimanshuSi54746@
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024