سوشل میڈیا کی غلط معلومات سے ہوشیار رہیں

نقل کرنے کے بجائے تحقیق کی جائے

حمیرا علیم

سوشل میڈیا پر اکثر ہمیں مختلف تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں حضرت محمد ﷺ کے کپڑے، برتن، جوتے اور حضرت خدیجہؓ یا حضرت عائشہؓ کی سلائی مشینیں وغیرہ کی تصاویر شامل ہوتی ہیں۔ ان پر کیپشن ہوتا ہے "سبحان اللہ” اور کمنٹس میں ہزاروں بار سبحان اللہ لکھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک پیج پر رمضان کے دوران قرآن اور اسلامی تاریخ پر کوئز شروع کیا گیا۔ اس میں بار بار کہا گیا کہ ویڈیوز دیکھ کر یا تحقیق کر کے جواب دیں مگر افسوس کہ ہماری عادت ہے کہ ہم محض پہلے جواب کو دیکھ کر نقل کر دیتے ہیں۔
ایک سوال تھا کہ اللہ کی نشانیوں کو کس چیز کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؟ قرآن و حدیث میں یہ بات بار بار ذکر کی گئی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز اس کی نشانی ہے اور عقل والوں کے لیے اس میں اسباق ہیں۔ لیکن کمنٹس میں زیادہ تر لوگ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے اور پہلے آنے والے کمنٹ کو کاپی کر لیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔
سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط معلومات سے ہوشیار رہنا انتہائی ضروری ہے۔ اکثر ہم بغیر تحقیق کے صرف نقل کرتے ہیں اور جو سب سے پہلے نظر آتا ہے اسے سچ سمجھ لیتے ہیں جو کہ ایک سنگین غلطی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا پر دی جانے والی تمام معلومات کو بغور دیکھیں، تحقیق کریں اور خود سے اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں۔ صرف نقل کرنے کی بجائے تحقیق اور سوچ پر زور دینا، خاص طور پر دینی مسائل میں، ہمارے علم میں اضافے کا باعث بنے گا اور جھوٹی یا گم راہ کن معلومات سے بچا سکے گا۔ علم تک رسائی تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی عقل و فہم کا استعمال کریں اور صرف موجودہ ذرائع تک محدود رہنے کی بجائے اپنے مطالعے کو وسعت دیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اسے پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ ہم دنیاوی تعلیم کے لیے بہترین اساتذہ تلاش کرتے ہیں لیکن جب بات دین کی آتی ہے تو ہم اتنے مسالک اور تفاسیر میں سے کسے پڑھیں کا شکوہ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں مختلف تفاسیر کو پڑھنا چاہیے اور جو قرآن و حدیث کے مطابق سب سے قریب ہو، اسے اختیار کرنا چاہیے۔
جیسے ہم اچھے کپڑے اور جوتے خریدنے کے لیے معتبر دکانوں کا انتخاب کرتے ہیں، اسی طرح ہی ہمیں قرآن و حدیث کے بہترین علماء تلاش کرنے چاہیے۔ سوشل میڈیا پر اگر کوئی پوسٹ دیکھیں تو جذباتی ہونے سے پہلے تھوڑی تحقیق کر لیں اور اگر گوگل پر معلومات نہیں ملتیں تو یہ نہ سمجھیں کہ وہ مستند نہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیے، قرآن و صحاح ستہ ایک ہی ہیں۔
دینی تعلیمات پر جرمنی اور انگلینڈ میں جس طرح کام ہو رہا ہے وہ شاید سعودی عرب میں بھی نہیں ہو رہا۔ جرمن ادارہ "انسٹیٹیوٹ آف عربک اینڈ اسلامک اسٹڈیز” نے 1748 میں کام شروع کیا تھا۔ ہمیں بھی قرآن اور حدیث کی اصل تعلیمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اب یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی نقل کی عادتوں سے باہر نکل کر خود سے تحقیق کریں، علم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ بڑے اداروں میں جا کر پڑھا جائے، علم تو کتابوں میں موجود ہے، بس انہیں کھولنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025