اسکل انڈیا’کا تماشا میرے آگے’

مسئلہ صرف نوکریوں کا نہیں ہنرمندیوں کی بھی قلّت ہے۔کیا بھارت چین کے ہنرمند ورکرس کا مقابلہ کر پائے گا؟

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ملک میں اصل مسئلہ نوکریوں کی کمی نہیں، بلکہ ہنرمندی (اسکلز) کی کمی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کی توقعات اس کے نوجوانوں کی معیاری تعلیم اور بہترین ہنر سے جڑی ہوتی ہیں۔ بھارت میں اعلیٰ معیار کی ایک چھوٹی سی پرت موجود ہے جو ملک اور بیرون ملک مٹھی بھر آئی آئی ٹی اور اعلیٰ جامعات سے سند یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ یہی پرت عالمی سطح پر مقابلہ کرتی نظر آتی ہے اور دنیا میں ان کی زبردست مانگ ہے، کیونکہ یہ افراد اپنی مہارت اور صلاحیتوں کی بنا پر نفع بخش ثابت ہوتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو فارچیون 500 کمپنیوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور چند تو ان کمپنیوں کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ گزشتہ دو دہائیوں سے اوسطاً سات فیصد کی سالانہ طویل مدتی جی ڈی پی گروتھ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر اس کے نیچے کی پرتوں میں ہنرمندی کی سطح افسوسناک حد تک نیچے گر جاتی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی کی رفتار کو بڑھانے کے لیے دوسری، تیسری اور چوتھی پرتیں تیار کی جائیں۔ ہم نے اب تک نچلی سطح کی ہنرمندی کو فروغ دینے کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ ناکافی ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں انجینئروں، نرسوں، ڈاکٹروں، مینیجروں اور دیگر شعبوں کے ماہرین کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ مہارت والی بہت سی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، مگر وہ ہنرمندی کی اس کمی کو پورا نہیں کر پا رہیں۔ ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں سے ہر سال تقریباً ایک کروڑ گریجویٹس نکلتے ہیں، مگر ان میں اکثریت کے پاس مطلوبہ مہارت کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کمپنیاں انہیں ملازمت فراہم کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
اگرچہ ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو بہتر ہے مگر لاکھوں نوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں ہیں کیونکہ ملازمت کے مواقع ہنرمندی کے متقاضی ہیں۔ ملک میں انجینئرنگ، مینجمنٹ اور نرسنگ کی ڈگری رکھنے والے لاکھوں نوجوان موجود ہیں، مگر ان کے پاس عملی ہنر کی کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ نوکریاں حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
صنعتکار بھی ہنرمند محنت کشوں کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ ہمارے انجینئرنگ کالجز ہر سال پندرہ لاکھ انجینئرز تیار کرتے ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان انجینئروں کے لیے معاشی ضروریات کی تکمیل اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مگر بدقسمتی سے نیشنل ایسوسی ایشن آف سافٹ ویئر اینڈ سروسز کمپنیز (NASSCOM) کی رپورٹ کے مطابق، ان میں سے محض دس فیصد گریجویٹس ملازمت کے قابل ہیں۔ NASSCOM کے مطابق آئندہ دو سالوں میں بھارتی معیشت کو مصنوعی ذہانت (AI) اور دیگر ترقی یافتہ انجینئرنگ شعبوں میں دس لاکھ سے زائد ہنرمندوں کی ضرورت ہوگی۔
اس لیے اب انجینئرنگ کالجز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نصاب میں تبدیلی لا کر خصوصی ہنر فراہم کریں ورنہ لاکھوں انجینئروں کو بے روزگاری کا سامنا رہے گا۔ نرسنگ اسکولوں کے گریجویٹس بھی ہسپتالوں کی دیکھ بھال کے فن سے ناواقف ہیں اور یہی حال دیگر شعبوں کا بھی ہے۔
ہمارے ملک نے 2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک بننے کا ہدف طے کیا ہے جو کہ ایک مشکل چیلنج ہے، کیونکہ عالمی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اگر عالمی معیشت میں کمزوری آتی ہے تو بھارت کے لیے تیز رفتار ترقی ممکن نہیں ہوگی۔
تاہم، گزشتہ تین دہائیوں میں بھارت کی شرح نمو کو دیکھتے ہوئے یہ ہدف ناقابلِ حصول بھی نہیں۔ ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے بھارتی معیشت کو آئندہ 25 سالوں تک تقریباً 10 فیصد سالانہ شرح نمو درکار ہوگی، جو ایک چمتکار ہی ہوگا۔
انسانی تاریخ میں یہ کارنامہ صرف ایک بار ہوا ہے، جب چینی معیشت نے 1990 سے 2000 کی دہائی میں دوہرے ہندسے میں سالانہ جی ڈی پی کی شرح نمو پیش کی۔ بعد میں 2010 کی دہائی میں یہ شرح 6 تا 7 فیصد تک کم ہوگئی۔
اگر ہمارا ملک 2060 تک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا ہے، جیسا کہ پالیسی سازوں کا خواب ہے تو اس کے لیے کم از کم 7 فیصد سالانہ جی ڈی پی کی شرح نمو برقرار رکھنا ضروری ہوگا، اور یہ ہدف ہرگز آسان نہیں ہے۔
دورِ جدید میں غیر فنی مزدور (unskilled labour) خاص طور سے مشینوں کے درمیان پرزے لگانے اور لے جانے کا کام کرتے ہیں اور کارخانوں کو صاف رکھتے ہیں، اور اب تو یہ کام بھی مشینوں کے ذریعے ہونے لگا ہے۔ اب تو کپڑے اور جوتے سلنے والے محنت کشوں کی لائن والی فیکٹریاں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ پہلے کے مقابلے میں کم ہی افراد کو کام پر لگانے کے قابل رہ گیا ہے۔
ماضی میں ترقی پذیر ممالک زیادہ نفع بخش مینوفیکچرنگ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے، جس سے لو اسکلڈ مینوفیکچرنگ ان غریب ممالک کے لیے رہ گئی جنہوں نے برآمدات کی راہ پر مینوفیکچرنگ کے ذریعے آنا ہی شروع کیا تھا۔ جیسے جیسے فرموں کو برآمدات سے نفع ہوا انہوں نے محنت کشوں کو زیادہ پیداوار کے قابل بنانے کے لیے بہتر مشینوں میں سرمایہ کاری کی۔
تنخواہیں بڑھیں تو محنت کش اپنے بچوں کے لیے بہتر تعلیم اور طبی سہولیات کا خرچ اٹھانے کے قابل ہوگئے۔ ان فرموں نے حکومت کو زیادہ ٹیکس بھی ادا کیا جس سے حکومت کو بہتر بنیادی ڈھانچے اور خدمات میں سرمایہ کاری کا موقع ملا۔ ان فرموں نے بھی ہائی ویلیو ایڈیڈ پیداوار بنا کر نئے اور بہتر مصنوعات بازار میں لائیں۔ یاد رہے کہ چین نے ایسا ہی کیا۔ محض چار دہائیوں میں اس نے مشین کے کل پرزوں کی اسمبلنگ سے شروع کرکے دنیا کی سب سے بہترین آئی وی (IV) بنانا شروع کردی۔
ساتھ ہی مدر بورڈ پر پرزے اسمبل کرنے کے لیے مائیکرو سرکیٹری (microcircuitry) سے یہ کام ہورہا ہے۔ اب انسانوں کی جگہ مشینوں کی قطاریں ہیں جہاں ہنر مند محنت کش کام کررہے ہیں۔ اب چین میں ہر طرح کی مینوفیکچرنگ کے لیے حسب ضرورت محنت کش موجود ہیں۔ کم ہنر مند ہندوستانی اور چینی مزدور کپڑے کی صنعت میں بنگلہ دیشیوں کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں، جبکہ دوسری طرف ہنر مند محنت کشوں کی ایک بڑی جماعت جرمنی سے مقابلہ کررہی ہے۔
ایسے رجحانات کو دیکھیں تو آٹومیشن میں چین جیسے ملکوں سے مقابلہ کرنا غریب ممالک کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔ یہ رجحان واران کی کموڈیٹی برآمدات کو نقصان پہنچائے گا۔ اگر اسی میں متبادل راستہ تلاش کیا جائے گا تو یہ ہائی اسکلڈ خدمات کی برآمدات سے ہی ممکن ہوگا۔ 2023 میں شعبہ خدمات میں تجارت میں پانچ فیصد اضافہ ہوا جبکہ تجارتی کاروبار میں 1.2 فیصد کی کمی ہوئی۔
کورونا وبا کے دوران ٹیکنالوجی میں اصلاحات نے ریموٹ ورک کو قابل عمل بنادیا۔ آج ملٹی نیشنل کمپنیاں کہیں سے بھی خریداروں کو خدمات فراہم کررہی ہیں۔ مثلاً جے پی مورگن اور کوالکم تک، عالمی صلاحیت مراکز (Global Capability Centers) کے ذہین گریجویٹس کو کام پر لگارہے ہیں جو دنیا میں فروخت ہونے والی اشیا اور خدمات میں مؤثر ہیں۔
آج کی دنیا میں سبھی ترقی پذیر ممالک میں چھوٹا ہی سہی مگر ہائی اسکلڈ کلاس ضرور موجود ہوتا ہے۔ ایسے روزگار کو اسکلڈ مینوفیکچرنگ کے مقابلے میں زیادہ ہی فائدہ مند مانا جاتا ہے اور بیرونِ ملک بھی ان کی اچھی مانگ ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ہنر مند سروس ورکرس کو روزگار ملے گا، وہ نہ صرف امیر لوگوں کی طلب کو پورا کریں گے بلکہ ایک دوسرے کی طلب کو بھی۔ اس لیے لیبر پول کی فنی صلاحیت میں اصلاح ضروری ہوجاتی ہے۔ ملک کے انجینئرنگ گریجویٹس کو اپنی فیلڈ کی صلاحیت تو ہوتی ہی ہے، انہیں ذرا سی تربیت اور اپ گریڈنگ سے MNCs کی ضرورت کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس لیے بھارت کو فنی تربیت (Skill Training) پر بھرپور سرمایہ کاری کرنا اور مؤثر طریقے سے نافذ کرنا بھی ضروری ہے۔
2015 میں بھارتی حکومت نے پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا (PMKVY) کا اعلان کیا جس کے تحت دو طرح کی یوجنا کی خاص ٹریننگ شروع کی گئی۔ ایک STT اور دوسرے کو RPL کا نام دیا گیا۔ شارٹ ٹرم ٹریننگ (STT) کے تحت چند دنوں یا مہینہ بھر کے کورسز کرائے گئے اور آر پی ایل (RPL) یعنی پہلے سے سیکھی ہوئی باتوں کو بہتر کیا جاتا ہے۔
حکومت کے دعویٰ کے مطابق 54 لاکھ نوجوانوں کو ایس ٹی ٹی اور آر پی ایل کے ذریعے سرٹیفکیٹ دیے گئے، جن میں سے 24 لاکھ کو معمولی نوکری ملی اور تین لاکھ نے خود روزگار شروع کیا۔ اس کے علاوہ نیشنل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے بہت سارے ٹریننگ کورسز چلائے جارہے ہیں جن میں آئی ٹی اور سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، مینوفیکچرنگ، الیکٹرانکس، ٹورزم، ہاسپٹلٹی، زراعت، ہیلتھ کیئر، آٹو موبائل، فیشن ڈیزائننگ وغیرہ شامل ہیں۔
مگر کوالٹی ٹریننگ کی کمی کی وجہ سے سند یافتہ لوگ کمپنیوں میں زیادہ دنوں تک ٹک نہیں پاتے اور کمپنیاں بہت جلد انہیں فارغ کردیتی ہیں۔ گزشتہ سال ہریانہ اور اترپردیش سے 5000 سے زائد محنت کش سند یافتہ تنخواہ کے لالچ میں جنگ زدہ اسرائیل گئے مگر کچھ واپس آگئے اور بقیہ وہاں معمولی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بعض تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
آج چین اپنے اسکلڈ ورک فورس کی وجہ سے گلوبل مینوفیکچرنگ میں اول ہے اور امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔ ہمارے ملک اور چین کی آبادی تقریباً برابر ہے، مگر ہم اسکلڈ ورکرز فورس کیوں نہیں تیار کرپائے؟ مودی حکومت کے دور میں اسکل انڈیا پر 10 ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ 90 فیصد کورسز شارٹ ٹرم ہونے کی وجہ سے مؤثر نہیں ہیں۔ ہم مینوفیکچرنگ میں بھی نچلی پائیدان پر پہنچ گئے ہیں۔

 

***

 بھارت میں بھی ہائی اسکلڈ طبقہ موجود ہے، مگر مناسب تربیت اور اپ گریڈنگ کی کمی کے باعث ملک کی افرادی قوت عالمی معیار پر پوری نہیں اترتی۔ 2015 میں پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا (PMKVY) کے تحت اسکل ٹریننگ پروگرام شروع ہوئے، مگر زیادہ تر شارٹ ٹرم کورسز ہونے کی وجہ سے ان کا اثر محدود رہا۔
کمپنیوں میں کوالیٹی ٹریننگ کی کمی کے باعث تربیت یافتہ افراد زیادہ دیر تک ملازمت برقرار نہیں رکھ پاتے۔ چین اپنے اسکلڈ ورک فورس کی بدولت گلوبل مینو فیکچرنگ میں اول ہے، جبکہ بھارت، جس کی آبادی چین کے برابر ہے، ابھی تک اس معاملے میں پیچھے ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025