اسکل انڈیا: ایک خوبصورت خواب جو حقیقت نہ بن سکا

NSDCکی ناکامی؛دس سال بعد بھی بھارت کے نوجوان بے روزگار

0

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

2000تک نوجوانوں کی اکثریت ختم ہو نے کے امکانات ، وقت کم ہے، فوری درست فیصلے درکار
جب 2015 میں "اسکل انڈیا مشن” کا نعرہ بلند کیا گیا تھا تو اس کے پیچھے کیا نیت تھی یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اس نعرے کے ذریعے ملک کے نوجوانوں کو ایک بہترین خواب دکھایا گیا، اس کا مقصد ایک ایسا ہندوستان بنانا تھا جو ہنر مند نوجوانوں کے بل بوتے پر عالمی معیشت میں نمایاں مقام حاصل کر سکے۔ مگر آج دس برس بیت جانے کے بعد بھی یہ خواب نہ صرف ادھورا ہے بلکہ غلط رخ پر بھی چل پڑا ہے۔ نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (NSDC) جو اس مشن کا نگران ادارہ ہے اب وہ خود سوالات کے گھیرے میں ہے۔
ایک جانب حکومت نوجوانوں کو "نوکری لینے والے” کے بجائے "نوکری دینے والا” بنانے کے دعوے کرتی رہی تو دوسری جانب NSDC کے تربیتی پروگراموں کے بعد صرف 22 فیصد نوجوانوں کو ہی روزگار مل سکا ہے، باقی 78 فیصد نوجوان یا تو غیر رسمی شعبوں میں دھکیل دیے گئے یا دوبارہ بے روزگاری کے چکر میں آ گئے۔ یہ شرح صرف کارکردگی کی ناکامی ہی نہیں ہے بلکہ ایک وسیع تر منصوبہ جاتی فریب کا اظہار بھی کرتی ہے جس میں کروڑوں روپے جھونکنے کے باوجود نتائج حاصل نہیں ہو پائے۔
تو آئیے! جانتے ہیں کہ اس کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں؟
ملک میں نوجوانوں کے لیے مہارت حاصل کرنے کے لیے بنیادی طور پر پانچ ذرائع ہیں: صنعتی تربیتی ادارے (آئی ٹی آئیز) اسکول کی سطح پر محدود اختیاری پیشہ ورانہ تعلیم، پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا، دیگر وزارتوں کے چھوٹے پروگرام اور اپرینٹس شپ۔ مگر ان سب میں یا تو معیار کی کمی پائی جاتی ہے یا نظام کی کوتاہی میں مبتلا ہیں۔
سب سے زیادہ سرمایہ پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا PMKVY جیسے پروگراموں میں لگایا گیا ہے جو نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن NSDC کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ پروگرام بارہا تبدیل ہوتے رہے، PMKVY I سے لے کر IV تک، جس نے استحکام کے بجائے افراتفری کو جنم دیا۔
اس افراتفری کی وجوہات کیا رہیں؟ اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ NSDC میں پچھلے کئی سالوں سے قیادت کا شدید فقدان رہا ہے۔ کئی برسوں تک CEO اور چیئرمین کے عہدے خالی رہے۔ یہاں تک کہ ایک افسر نے بغیر تقرری کے CEO بن کر کام کیا اور بالآخر انہیں سبک دوش کیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکل انڈیا جیسے اہم ترین مشن کو کس قدر غیر سنجیدگی سے چلایا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس دوران دس ہزار کروڑ روپے سے زائد خرچ ہو چکے ہیں جس کی نگرانی اور احتساب کا کوئی مستند نظام نظر نہیں آتا۔
سال 2021 میں NSDC نے ایک نئی ذیلی کمپنی "NSDC International” قائم کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کمپنی NSDC کے فنڈز استعمال کر رہی ہے، لیکن اس کی تشکیل کے لیے کابینہ کی منظوری کا کوئی ریکارڈ عوامی سطح پر موجود نہیں ہے۔ اس کمپنی کے مالیاتی گوشوارے، سالانہ رپورٹ یا دیگر تفصیلات بھی عوام کے درمیان دستیاب نہیں یعنی پبلک ڈومین میں نہیں ہیں۔
اس تناظر میں یہ سوالات اہم ہو جاتے ہیں کہ کیا واقعی حکومت اس کمپنی کی نگرانی کرتی ہے؟ کیا اس کے مالیاتی نظام کی جانچ ہوتی ہے؟ کیا یہ ادارہ عوامی سرمایہ کاری کے معیار پر پورا اترتا ہے؟ یہ سب سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔ NSDC نے ASEEM، SMART اور دیگر پورٹلوں پر بھاری سرمایہ خرچ کیا ہے مگر ایک موثر Labour Market Information System (LMIS) آج بھی مفقود ہے۔ ملک میں ملازمت کے رجحانات، صنعتوں کی مانگ اور تربیتی ضروریات کی حقیقی تصویر کے بغیر مہارت سازی ایک اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ یہ ذمہ داری وزارتِ ہنر سازی کی تھی مگر اب وزارتِ محنت اپنے "نیشنل کیریئر سروس پورٹل” کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں میں آپسی تال میل مکمل طور پر غائب ہے۔ اسی وجہ سے NSDC کی مالی شفافیت پر بھی سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ 2015 کی CAG کی رپورٹ میں متعدد بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی گئی تھی مگر 2021 کے بعد سے یہ ادارہ مزید غیر شفاف ہو گیا ہے۔ قیادت کے دور میں اکاؤنٹنگ کے اصول تبدیل کیے گئے جس کا مقصد شاید کارکردگی کو بہتر دکھانا تھا۔ پی ایم مودی کا پرانا طریقہ رہا ہے کہ وہ بے قاعدگیوں کو درست کرنے کے بجائے اصولوں کو ہی تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ ایک ایسا ادارہ جس پر ٹیکس دہندگان کا کروڑوں روپیہ خرچ ہو رہا ہو، وہ بغیر عوامی احتساب کے کام کرے۔ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ جانے کہ اس کا پیسہ کہاں جا رہا ہے اور کیسے خرچ ہو رہا ہے۔
ریاستی شراکت داری میں دراڑیں NSDC کی ریاستی حکومتوں اور دیگر عوامی اداروں کے ساتھ شراکت داری کبھی خوش گوار نہیں رہی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمینی سطح پر اس پوری مہم پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا، اس کی عمل آوری میں بہت خطرناک رکاوٹیں پیدا ہو گئیں۔ نہ تو تربیتی ادارے مقامی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو پائے اور نہ ہی کورسوں کی نوعیت میں کوئی بہتری آئی۔
روزگار کا مستقبل
دنیا اس وقت ایک بڑے روزگار بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن نے کئی پرانی نوکریوں کو یکسر غائب کر دیا ہے اور یہ کیفیت مزید تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں ہمارے نوجوانوں کا صرف ہنر ہی سیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں جدید ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مگر NSDC جیسے ادارے اس سمت میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہمیں صرف "میک ان انڈیا” یا "اسکل انڈیا” جیسے نعروں پر اکتفا کرنا نہیں بلکہ ان نعروں سے باہر نکل کر زمینی حقائق پر مبنی پالیسی سازی کرنی ہوگی۔ ہندوستان کو جو آبادیاتی فائدہ حاصل ہے یعنی ہمارا ملک نوجوانوں کی اکثریت والا ملک ہے، لیکن نوجوانوں کی یہ اکثریت 2040 تک ختم ہونے والی ہے۔ اس کے بعد ہم ایک عمر رسیدہ معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے، جہاں کام کرنے والوں سے زیادہ بوڑھے لوگ ہوں گے۔ اگر ہم نے آج اپنی پالیسی اور اپنے عمل درآمد میں تبدیلی نہیں کرتے ہیں تو مستقبل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ہمیں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے ساتھ ساتھ جواب دہی پر مبنی نظام، شفاف ادارے اور صنعتوں کی ضرورتوں سے جُڑی ہوئی مہارت سازی دینی ہوگی، ورنہ یہ خواب صرف فائلوں اور اشتہارات تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا۔
***

 

***

 جب 2015 میں "اسکل انڈیا مشن” کا نعرہ بلند کیا گیا، تو ملک کے نوجوانوں کو ایک بہترین خواب دکھایا گیا تھا کہ وہ ہنر مند بن کر عالمی معیشت میں نمایاں مقام حاصل کریں گے۔ لیکن آج، دس سال بعد، حقیقت یہ ہے کہ صرف 22فیصد نوجوان تربیتی پروگراموں کے بعد روزگار پا سکے، جبکہ باقی 78 فیصد یا تو غیر رسمی شعبے میں چلے گئے یا دوبارہ بے روزگار ہو گئے۔ NSDC، جو اس مشن کا نگران ادارہ ہے، میں قیادت کی کمی، مالی شفافیت کا فقدان اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ شراکت داری کی ناکامی نے اس خواب کو ادھورا اور غیر موثر بنا دیا ہے۔ اسکل انڈیا کی کامیابی کے لیے نہ صرف نوجوانوں کو جدید ہنر سکھانا ضروری ہے بلکہ ایک شفاف، جوابدہ اور صنعت کی ضروریات سے جُڑا نظام بھی قائم کرنا ہوگا، ورنہ یہ مشن صرف نعروں تک محدود رہ جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025