
سیاست کے اکھاڑے میں قانون کے ساتھ کھلواڑ اور دوہرا معیار
پروفیسرعلی خاں محمودآباد معاملہ میں سپریم کورٹ کا حوصلہ شکن فیصلہ زیر بحث
شہاب فضل، لکھنؤ
شہری و بنیادی حقوق کے تحفظ کے علم برداروں میں بے چینی کا ماحول
بھارتی عوام کا رجحان امن پسند اور انصاف کا خواہاں، ہر سطح پر بہتر تعلقات کئی مسائل کا حل
سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ کی دو رکنی بنچ نے پروفیسر علی خاں محمودآباد کے گزشتہ 8 مئی کو مبینہ ’قابل اعتراض‘ فیس بُک پوسٹ معاملہ میں ان کے لب سی دیے ہیں اور انہیں بھارت پاکستان ٹکراؤ اور اپنے خلاف پولیس کیس پر کچھ بھی لکھنے اور بولنے سے منع کر دیا ہے۔ انہیں عدالت نے عبوری ضمانت تو دے دی مگر ان کے خلاف کریمنل کارروائی کو ختم یا معطل نہیں کیا، بلکہ ان کے جملوں کے پس پردہ محرکات کو سمجھنے کے لیے تین رکنی ایس آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دے دیا۔
اس فیصلے نے ملک کی عدالتوں سے صادر ہونے والے فیصلوں میں پولیس اور ٹرائل کورٹ کی کارروائی، قوانین کے استعمال اور ایک جمہوری نظام میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے طور طریقوں کو زیر بحث لادیا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں ایام میں مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت کے ایک وزیر وجے شاہ نے بھارتی مسلح افواج کی افسر کرنل صوفیہ قریشی کے لیے توہین آمیز اور گندے جملے استعمال کیے جس پر خواتین کمیشن یا پولیس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے جب اس خود معاملے کا نوٹس لیا اور وجے شاہ کے خلاف ایف آئی درج کرنے کا حکم دیا تب جاکر پولیس حرکت میں آئی مگر وہ ہلکی دفعات میں کیس درج کرکے خانہ پُری کرکے رہ گئی۔ ہائی کورٹ کو جب یہ پتہ چلا کہ ہلکی دفعات میں مقدمہ درج کیا گیا ہے تو اس نے پولیس کو ڈانٹ پلائی اور موزوں ترین دفعات میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ اس درمیان مسٹر شاہ سپریم کورٹ پہنچ گئے جہاں سے انہیں گرفتاری سے راحت مل گئی مگر عدالت نے ان کے توہین آمیز بیان کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی قائم کردی ہے جسے 28 مئی تک اپنی رپورٹ جمع کرنی ہے۔
دونوں معاملات کا موازنہ کرتے ہوئے مختلف ماہرین نے پولیس، عدالت اور دیگر حکومتی ایجنسیوں کی کارروائی کے فرق کو اجاگر کیا ہے۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے سپریم کورٹ کو اظہار رائے کی آزادی کے سلسلہ میں اس کے ہی کچھ فیصلے یاد دلاتے ہوئے لکھا کہ پروفیسر علی خان کے معاملہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ حیران و پریشان کرنے والا ہے۔ ایس آئی ٹی کی تشکیل عام طور سے ان سنگین معاملات میں کی جاتی ہے جس میں کئی لوگوں کا نیٹ ورک شامل ہوتا ہے۔ یہاں تو دو آن لائن پوسٹ یعنی چند جملوں کے سمجھنے کا معاملہ تھا جسے سپریم کورٹ کے دونوں جج صاحبان بخوبی سمجھ سکتے تھے، ایس آئی ٹی کی ضرورت سمجھ سے بالاتر ہے۔ پروفیسر کے کیس کا موازنہ مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ سے کرتے ہوئے اخبار نے یہاں بھی ایس آئی ٹی کی تشکیل پر سوال اٹھائے ہیں، کیوں کہ وزیر کا بیان ویڈیو میں موجود ہے جو بہت واضح ہے۔ اخبار نے یاد دلایا ہے کہ ایک جمہوریت میں عدالتیں فرد کے بنیادی حقوق کی محافظ ہوتی ہیں اور ایسے فیصلے حوصلہ شکن ہیں۔
سینئر صحافی راج دیپ سردیسائی نے دونوں معاملات میں کارروائی کے فرق کو ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی جانب دارانہ کارروائیوں سے جوڑ کر دیکھا، جب کہ انگریزی اخبار دی ہندو نے اپنے اداریہ میں ’فکر پر بندش‘ کو اختلاف رائے کے خلاف قانون کے غلط استعمال سے تعبیر کیا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ پروفیسر خان نے اپنی پوسٹ میں یہی تو لکھا تھا کہ بھارت پاکستان ٹکراؤ کے وقت بھارت میں پریس بریفنگ کے دوران مسلم ملٹری آفیسر کی موجودگی ملک کی تکثیریت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے، حالانکہ یہ ملک میں موجود اس زمینی صورت حال کے برعکس ہے جس میں مسلمانوں کو آئے دن ملک کے مختلف حصوں میں مارپیٹ، لنچنگ اور بلڈوزر سے گھروں کے انہدام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اخبار نے سوال اٹھایا کہ یہ لکھنے میں غلط کیا ہے؟ اخبار کے مطابق پروفیسر علی خان کی پوسٹ میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے اور ملک کی سالمیت اور اتحاد کو مجروح کرنے اور کمیونٹیز کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور انہیں مشتعل کرنے کی دفعات میں ان کی گرفتاری ملک کے لیے ایک خطرناک سگنل ہے۔ اخبار نے خاص طور سے بی جے پی کی حکم رانی والی ریاستوں میں مختلف رائے ظاہر کرنے والے افراد کی ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتاری کو قانون کے غلط استعمال سے تعبیر کیا اور تعلیمی اداروں میں فکر اور اظہار خیال کی آزادی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کو علمی دنیا کے لیے بڑا دھکا قرار دیا۔ صحافی اجیت انجم نے پروفیسر علی خان محمودآباد پر کارروائی کو فیس بک پر ’سچ‘ لکھنے کی سزا قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ ان کے لکھے گئے جملوں کے جان بوجھ کر غلط معانی نکالے گئے ہیں۔
مشہور کالم نویس بھانو پرتاپ مہتا نے انڈین ایکسپریس کے لیے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ پروفیسر علی خان کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے شہری حقوق کے محافظ کے طور پر اپنے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ انہوں نے لکھا کہ جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ ایک ڈرانے والا فیصلہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اب ہم ایسے آئینی دور میں ہیں جس میں عدالت کی ضمانت دینے کی مہربانی بھی مزید تعذیبی کارروائیوں کی راہ ہموار کرتی ہے‘‘۔ پروفیسر خان جو ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ ماہر تعلیم ہیں انہیں اپنا پاسپورٹ جمع کرنے اور کچھ لکھنے سے رک جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی راحت کی بات ہے کہ وہ جیل میں نہیں ہیں۔ قانون میں طریقہ کار کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں طریقہ کار یا پروسیجر بسا اوقات اپنے آپ میں سزا بن جاتا ہے۔ عبوری ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے جو شرائط عائد کی ہیں وہ پروفیسر خان کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے والی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پروفیسر علی خان 2018میں سماجوادی پارٹی سے وابستہ ہوئے تھے اور 2019سے 2022تک وہ پارٹی کے قومی ترجمان بھی رہے۔ ان کے حالیہ معاملے میں جسسٹس سوریہ کانت کے زبانی تبصرے اوران کا فیصلہ اس لیے بھی معنیٰ خیز ہے کہ سینیارٹی کی بنیاد پر وہ اسی سال نومبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بن سکتے ہیں۔
سیاست کے اکھاڑے میں قانون کا غلط استعمال اور دوہرا معیار
بی بی سی نیوز ہندی پر اس موضوع پر ایک پینل گفتگو میں ایڈووکیٹ وِراگ گپتا نے اس بات پر زور دیا کہ فوج داری قوانین کا پولیس استعمال کیسے کرتی ہے یہ بہت اہم ہے۔ ان قوانین کا پولیس غلط استعمال نہ کرے اس سلسلہ میں رہنما ہدایات موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کے اکھاڑہ میں قانون شہید ہو رہا ہے۔ کئی بار ایک فریق کو راحت ملتی ہے اور کئی بار نہیں ملتی۔ اس میں قانون کی شکست ہورہی ہے ۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ضمانت کے معاملہ میں سپریم کورٹ میں آنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ سینئر ایڈووکیٹ ہی جب کسی کیس کو لڑتے ہیں تبھی سپریم کورٹ میں فوری سماعت کیوں ہوتی ہے؟۔ ‘‘ملک میں وی آئی پی جسٹس اور لگژری جسٹس کا کلچر بن گیا ہے۔ ہم قانونی عمل کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اسے اداروں نے منظوری دی ہوئی ہے، جو تشویشناک بات ہے۔ قانون جب ہارتا ہے تو ایک بیدار سماج اسے سیلبریٹ کیسے کرسکتا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر علی خان کے معاملہ میں پورے نظام کی اجتماعی قانونی ناکامی ظاہر ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ برطانوی نظام میں جو پولیس کا کردار اور چہرہ تھا کیا ہم اسے آج جاری رکھنا چاہتے ہیں؟
ایڈووکیٹ وِراگ گپتا نے مزید کہاکہ ’’بھارت میں 60 کروڑ لوگ سوشل میڈیا پر ہیں۔ کم سے کم بیس کروڑ لوگ روزانہ قابل اعتراض زبان کا استعمال کرتے ہیں، مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں، پورنوگرافی کرتے ہیں، خواتین کی توہین کرتے ہیں اور مذہبی ٹکراؤ کا ماحول پیدا کرتے ہیں، تو کیا ہم ان کے خلاف ملک سے بغاوت کے مقدمات درج کریں گے؟ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک آئینی جمہوریت کے طور پر ہم کہاں ناکام ہورہے ہیں اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ ’آپریشن سیندور‘کے بعد جب ایک طرف بھارتی سیاستدانوں کی ٹیمیں دنیا کے مختلف ملکوں میں جاکر بھارت کے موقف کو مضبوطی سے پیش کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف پورا بھارت مذہب اور خطہ کی تفریق کے بغیر متحد ہے، پروفیسر علی خاں اور وجے شاہ کے معاملات بیرون ملک میں بھی باعث توجہ بن گئے۔
انڈین امریکن مسلم کونسل اور ہندوز فار ہیومن رائٹس نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہند پروفیسر علی خان محمودآباد کے خلاف درج ایف آئی آر اور تمام الزامات واپس لے۔ دونوں تنظیموں نے پروفیسر کے خلاف سپریم کورٹ کے تبصروں کو بھی پولیس ہراسانی کی دعوت سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے ملک میں آٹھ ہزار سے زائد ایکس اکاؤنٹس کو معطل کیے جانے اور کچھ میڈیا پورٹلز کو جغرافیائی (جیو) طور سے بلاک کیے جانے کا بھی ذکر کیا ہے۔
حقوق انسانی کمیشن بھی میدان میں
ہریانہ خواتین کمیشن کی چیئرپرسن محترمہ رینو بھاٹیا اور بی جے پی کے ایک دیگر شخص کے ذریعہ پروفیسر علی خاں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے سے شروع ہونے والے اس معاملہ میں قومی حقوق انسانی کمیشن بھی کود پڑا ہے۔ کمیشن نے ہریانہ کے ڈی جی پی کو ایک نوٹس جاری کرکے پروفیسر علی خاں کی گرفتاری پر ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ طلب کی ہے۔ کمیشن نے 20مئی کی ایک اخباری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے نوٹس میں لکھا ’’رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر موصوف کی آزادی اور ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اس لیے گرفتاری کا از خود نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی جارہی ہے‘‘۔
بہر کیف اطمینان کی بات یہ ہے کہ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں میں پروفیسر علی خاں کی گرفتاری پر سخت رد عمل ظاہر ہوا ہے اور ان کی گرفتاری کو ملک کے سیاسی ماحول سے متاثرہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اسے بے شمار لوگوں نے غلط قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ شہریوں کا ضمیر زندہ ہے اور بھارتی سماج کا غالب رجحان انصاف پسندی اور امن پسندی کا ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت کا غلبہ نظر آتا ہے تو اس لیے کہ وہاں ٹرول آرمی پیشہ ورانہ انداز میں سرگرم ہے، لیکن یہ عوامی سطح پر غالب رجحان نہیں ہے، چنانچہ مایوسی اور ناامیدی سے بچنا چاہیے اور سماج کے ہر طبقہ میں روابط کو قائم اور مستحکم رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور نفرت کے سوداگروں کے منصوبے ناکام ہوں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جون تا 06 جون 2025