سیاست کے جنگل میں منگل

بھارت کا سیاسی منظر نامہ پنچ تنتر کہانیوں کے پیرائے میں

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

این ڈی اے کے تیسرے دور میں نتیش کمار اور چندرا بابو کے ساتھ بی جے پی کی حکومت مودی- شاہ کےسابقہ دور سے قدرے مختلف ہے۔ دس سال تک بھارتی سیاست میں خوب کہرام مچانے کے بعدیہ ایک طرح سے تال میل والا زمانہ لگتا ہے جس میں کس کے تال کہاں تک میل کھاتے ہیں یہ دیکھنا دل چسپ ہوگا۔ یہ نیا سیاسی تناظر پنچ تنتر کہانیوں کی یاد دلاتاہے۔
ایک مرتبہ جنگل کے اندر بکرےنے سگبگاہٹ سنی تو چونک کر اِ دھر اُدھر دیکھا اور اسے اپنے دائیں جانب شیر کی آہٹ محسوس ہوئی ۔ وہ سمجھ گیا اس کہ اس کی ماں اب زیادہ دیر تک خیر نہیں مناسکتی ۔ اسی لمحہ مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔
بکرا جنگل میں اِ دھر اُدھر بھاگنے کی لاحاصل کوشش کرنے کے بجائے دل کڑا کرکے ازخود شیر کی جانب چل پڑا اور فرشی سلام کرنےکے بعد جنگل کے بادشاہ کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوگیا۔ شیر کے ساتھ یہ پہلی بار ہورہا تھا کہ کوئی بکرا اس جانب سینہ پھلائے مگر سر جھکائے آرہا تھا۔ بکرے کی اس جرأتمندی پر اسے حیرت تو ہوئی مگر رحم بھی آگیا ۔ اس نے سوچا جنگل میں شکار کی کون سی کمی ہے اس لیے کیوں نہ اس دلیر بکرے کی جان بخش دی جائے۔ بکرا منمنا کر بولا جان کی امان پاؤں تو ایک سوال پوچھوں ؟شیر نےمسکرا کرکہا ایک کیوں دو پوچھو ؟ اس میں کیا پریشانی کی کیا بات ہے ؟ میں اپنی رعایا کی داد رسی نہیں کروں گا تو کس کی کروں گا ؟ اس جواب کو سن کر بکرا خوش ہوگیا ۔ اس نے بصد احترام سوال کیا گستاخی معاف حضور کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ شہنشاہِ اعظم کہاں کا قصد فرما رہے ہیں؟ اور کیوں ؟
شیر کو پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ بکرے کی برادری اس قدر مہذب ہے ۔ وہ بولا بکرا بابو تمہاری زبان سے تو پھول جھڑتے ہیں ۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ بکروں کا طبقہ بھی اس قدر اعلیٰ تہذیب وثقافت کی حامل ہوتاہے ۔ خیر تمہارے دونوں سوالات کا ایک جواب یہ ہے کہ میں جنگل میں شکار کے لیے گھوم رہاہوں۔ بہت بھوک لگی ہے۔بکرےنے محسوس کیا کہ بات بن رہی ہے شیر ا لفاظ کے مایا جال میں پھنس رہا ہے تو حوصلہ کر تے ہوئےبولا سرکار اس سے قبل آپ نے ہمیں بولنے یعنی زبان کھولنے کا موقع ہی کب دیا ؟ خیر زہے نصیب شکریہ اگر اجازت ہو تو کیا میں بھی آپ کےنقشِ قدم پر پیچھے پیچھے چل سکتا ہوں ۔ شیر نے سوچا یہ سبزی خور میرے کس کام آئے گالیکن پھر بھی اس میں کوئی نقصان نہیں ہے اس لیے اجازت دیتے ہوئے بولا پیچھے کیوں ساتھ چلو ہم اپنی رعایا کے شانہ بشانہ چلتے ہیں ۔ اب جنگل کے اندر ایک سے بھلے دو کا قافلہ آگے بڑھ رہا تھا ۔
لومڑی نے جب شیر اور بکرےکو ایک ساتھ آتے دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا لیکن پھر سوچا اس ’ کَل یُگ‘میں ’’ مودی ہے تو ممکن ہے۔‘‘لومڑی کی تو شیر سے پہلے ہی دعا سلام تھی ۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ کہیں یہ نئی دوستی اس کے ترنوالہ بننے کا پیش خیمہ نہ بن جائے اس لیے اپنی چرب زبانی سے شیر کی بڑائی بیان کرنےلگی۔ شیر نے کہا لومڑ کمار آج کیا بات ہے ؟ بہت خوش نظر آرہے ہو؟ لومڑی نے جواب دیا آپ دونوں کو ساتھ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اگر آپ اجازت دیں تو مجھے بھی اپنی قافلہ میں شامل ہونے کا اعزاز بخشیں ۔ میں تمام عمر آپ لوگوں کی احسان مند رہوں گی۔ شیر نے چونک کر پوچھا ’لوگ‘ کون ہے؟ لومڑی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لوگ کوئی نہیں ہے سرکار ، آپ ہی آپ ہیں ۔ ہر طرف آپ کا جلوہ ہے۔ سارے جنگل میں آپ کا بول بالا اور سب کا منہ کالا ہے۔
شیر نے ہنس کر پوچھا کیا تم خود کو جنگل سے باہر سمجھتے ہو۔ لومڑی بولی سرکار ساری عمر الٹی پلڑی مارتے مارتے سب سے زیادہ تو میراہی منہ کالا ہوگیا ہے۔ میں تو آپ کے حوالے سے کہہ رہی تھی ورنہ میری بہ نسبت توسبھی گورے چٹے ہیں۔ شیر نے کہا آج تو تم نے میرا دل خوش کردیااب بولو کیا چاہتی ہو؟ لومڑکمار بولا میں تو پہلے ہی کہہ چکا کہ مجھے بھی اپنی جوتیاں ٹھیک کرنے کے لیے ساتھ رکھ لیں تو خود کو خوش نصیب سمجھوں گا ۔ اس طرح تین لوگوں کی ایک جماعت بن گئی جس کا امیر شیر تھا۔مودی کے ساتھ کمار اور بابو کو آتا دیکھ کر بھیڑیا ناتھ نے سوچا کہ اگر یہ تین ساتھ ہوجائیں تو میری ضرورت ہی ختم ہوجائےگی ۔ اس نے بندر سے اپنے سر پر اُسترا پھروایا اور میدانِ جنگ میں کود گیا۔ بکر ےکو آنکھیں دِ کھانے کے بعد لومڑی کو پنجوں کے اشارے سے دھمکایا لیکن جب دیکھا کہ ان دونوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے تو منافقانہ قہقہہ لگا کر بولا کیا رام سیتا اور لکشمن کے اس قافلہ میں ہنومان کی گنجائش ہے ؟
لومڑی نے موقع دیکھ کر چوکا مارتے ہوئے کہا رامائن میں ہنومان سے قبل راون آتا ہےاور اس کی جگہ خالی ہے ۔ بھیڑیا غصے کا گھونٹ پی کر بولا جب بڑے آپس میں بات کررہے ہوں تو درمیان میں دخل اندازی شہنشاہ ِ دشت کی توہین ہے۔ تم پر یو اے پی اے لگے گا ۔ بکرا بابو بولے زیادہ نارد منی (NARAD MUNI)نہ بنو کیا سمجھے ؟ ہمارے جنگل راج میں ہنوز ایسے ظالمانہ قوانین نافذ نہیں ہوئے ہیں۔ بھیڑئیے کو غصہ آگیا اور اس سے پہلے کہ وہ بکرے پر جھپٹا مارتا شیر بولا اوئے خونخوار بھیڑئیے کیا تو نہیں جانتا کہ وہ کس کی امان میں ہے؟ اپنی شامت کو دعوت نہ دے تجھے تو معلوم ہے کہ میری شریعت میں پہلی اور آخری سزا موت ہے۔ کیا سمجھے ؟ ویسے اگر چاہو تو میرے قافلے میں ان دونوں کے پیچھے چل سکتے ہو۔ بھیڑئیے کو اپنی توہین پر بہت غصہ آیا مگر بحالتِ مجبوری موقع کے انتظار میں شریکِ قافلہ ہوگیا۔
انتخابی مہم کے دوران شیر نے چار شکار کیے ۔ قومی سطح پر راہل جیسا بارہ سنگھا ، یوپی میں اکھلیش کی مانند ہاتھی ، بنگال میں نیل گائے اور مہاراشٹر کے اندر ادھو نامی خرگوش کا شکار کرتے کرتے خود شیر بھی زخمی ہوگیا اور اس کے 303 ناخن گھٹ کر 240 پر آگئے ۔ اس جنگ میں تھکے ہارے زخمی شیر نے سرکارتو بنالی مگر بھوک لگی تو بھیڑئیے سے بولا میرے نائب تو تم ہی ہو اس لیے اب یہ شکار تقسیم کرو۔ بھیڑیا خوش ہوکر بولا عزت افزائی کاشکریہ اور اس طرح تقسیم کی جناب یہ بارہ سنگھا بہت تندرست و توانا اور سب سے زیادہ خطرناک ہے اس لیے آپ خود اسے نوش فرمائیں۔ میں ہاتھی پر ہاتھ صاف کرتا ہوں۔ لومڑی کے لیے نیل گائے کافی ہے اور بکری خرگوش پر گزارہ کرلے گی۔ اس بندر بانٹ کے دوران بھیڑیا بھول گیا کہ بکری تو سبزی خور جانور ہے۔ شیر کو اس تقسیم میں اپنی توہین محسوس ہوئی تو اس نے گینڈے شاہ کو اشارہ کیا ۔اشارہ ملتے ہی اس نے بھیڑئیے ناتھ کو اپنی بھیانک سینگ پر اٹھالیا۔ بھیڑئیے کا انتظام کرنے کے بعد جنگل کا راجہ لومڑی سے مخاطب ہوکر بولا لومڑ کمار اب تم یہ شکار تقسیم کرو۔
بھیڑئیے کے انجام سے عبرت پکڑ کرلومڑی بولی جناب عالی یہ جنگل اور اس میں رہنے بسنے والے سارے جانور آپ کی مِلکیت ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ ناشتے میں نیل گائے سے لطف اندوز ہوں۔ دوپہر کے وقت ہاتھی سے پیٹ بھریں ۔ شام کی چائے کے ساتھ خرگوش اور رات کے کھانے میں بارہ سنگھا نوش فرمائیں ۔ اس غیر مساویانہ تقسیم پر شیر کا دل خوش ہوگیا۔ اس نے کہا لومڑ کمار میں تمہاری اس عالی ظرفی کی داد دیتا ہوں ۔ یہ بتاؤ کہ تمہیں کیا چاہیے ؟ لومڑکمار چاہتے تو تھے کہ بولے ہمارے کچھ لوگوں کو اہم وزارت دے دیں ۔ ہمارا اسپیکر بنوا دیں اور بہار کو خصوصی درجہ عنایت فرمائیں لیکن پھر خود کو قابو میں رکھ کر کہا سر مجھے کچھ نہیں چاہیے نہ وزارت ، نہ اسپیکر اور نہ کوئی خصوصی درجہ بس بجٹ میں ذرا خیال رکھیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔ شیر یہ سن کر باغ باغ ہوگیا اور بکرابابو سے مخاطب ہوکر بولا تم بولو تمہیں کیا چاہیے؟ بکرابابو نے کہا جناب میں کیا مانگوں۔ میرے من کی بات لومڑ کمار نے کہہ دی ہے یعنی بجٹ میں ہمیں یاد رکھنا جیسا کہ غالب نے کہا تھا:
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
شیر یہ سب سن کر خوشی سے جھوم اٹھا اور شاہانہ شان سے گویا ہوا لومڑ کمار اور بکری بابو سنو ، اب یہ چاروں شکار تمہارے ہیں۔میرے لیے تو بس بھیڑیا کافی ہے اور مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میرا گینڈا اسے لاکر میرے قدموں میں نچھاور کر دے گا ۔ لومڑکمار نے کہا ارے صاحب اس طرح کے کئی بھیڑیوں کا آپ شکار کرچکے ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ بیچارہ پنڈیا کہاں گیا ؟ آپ نے تو توگڑیا کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ اچھے اچھوں کو مارگ درشک منڈل میں ڈال دیا اور ایم پی کے ماما کو ان کی لاڈلی بہنوں سے دور کرکے سارے بھانجوں بھانجیوں کو اداس کردیا ۔ اس لیے یہ بھگوا دھاری بھیڑیا کس کھیت کی مولی ہے؟ بکرابابو نے لومڑ کمار کے سُر میں سُر ملا کر کہا عالی جی جناب ویسے آپ کا گینڈا بھی کم نہیں ہے۔ اس نے سہراب اورپرجاپتی تو دور لویا تک کو نہیں چھوڑا تو یہ یوگی کون سا تیس مار خان ہے۔ شیر خوش ہوکر بکرا بابو تم تو آج کل کھلے عام میری قدم بوسی سے بھی نہیں کتراتے کیا بات ہے؟ سرکار میں اگر کیجریوال یا سورین کا ہم عمر ہوتا جیل بھی چلا جاتا مگر اس عمرمیں ہمت نہیں ہے۔ شیر بولا وہ تو ٹھیک ہے مگر تمہاری سلیقہ مندی قابلِ تعریف ہے ۔ ویسے یہ تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تم جب بھی منہ کھولتےہو تمہاری زبان سے پھول جھڑتے ہیں ۔بکرابا بو نے کہا آپ کی ذرہ نوازی کا شکریہ جناب ویسے حضور والانے بگلا بھگت کا یہ شعر سنا ہی ہوگا :
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
شیر سو گیا تو بکرا بابو نے لومڑکمار سے پوچھا بھیا یہ تم نے کیا کردیا ؟ جب بادشاہ نے پوچھا کہ کیا چاہیے تو صرف بجٹ پر اکتفاء کرلیا ۔ یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ لومڑکماربولے دیکھو بھیا اب تم سے کیا چھپانا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں بھیڑئیے کے انجام سے ڈر گیا تھا کیونکہ اگر شیر نے اس سے قبل مجھ کو تقسیم کرنے کا حکم دیا ہوتا تو میں بھی وہی کرتا کیونکہ وہی تقسیم معقول اور مبنی بر انصاف تھی لیکن شہنشاہِ دشت کو ناگوار گزری تو میں نے جیسا دیس ویسا بھیس والا رویہ اختیار کرلیا۔ بکرا بابو بولے یار میں سمجھتا تھا کہ بہاری بابو بیوقوف ہوتے ہیں لیکن تم نے تو کمال چالاکی کا مظاہرہ کیا اور پینترا بدل کر شیر کا دل جیت لیا مگر میں اپنی شکایت پھر سے دوہرا دوں کہ کامیابی حاصل کرنے بعد جب اس سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تو اسے کیوں گنوادیا ؟ لومڑ کمار نے کہا اگر یہی سوال تمہارے سوا کوئی اور پوچھتا تو میں اس کے سامنے اپنے من کی بات کبھی نہیں کہتا مگر تم سے کیا چھپانا ؟ تم میرے دودھ شریک بھائی جوہو۔
لومڑ کمار کے آخری جملے نے بکرا بابو کو چونکا دیا ۔ اس نے سوال کیا یار میں آندھرا پردیش میں اور تم بہار کے اندر پیدا ہوئے۔ ہم لوگ بھلا دودھ شریک بھائی کیسے ہوسکتے ہیں ؟ لومڑ کمار نے قہقہہ لگاکر کہا یار تمہارا مسئلہ یہ ہےکہ تم تشبیہ اور حقیقت کا فرق نہیں جانتے ۔ ماں کا دودھ تو انسان صرف بچپن میں پیتا ہے مگر گائے کا دودھ تمام عمر نوش فرماتا ہے۔ دیکھو یہ دوسری بار ہم لوگ ایک ساتھ مرکز میں زعفرانی گائے کے اقتدار کا دودھ پی رہے ہیں اور صوبائی سطح پر تو یہ کئی بار ہوچکا ہے اس لیے ہم لوگ دودھ شریک بھائی ہوئے کہ نہیں ہوئے؟ لومڑ کمار کی اس منطق نے بکرا بابو کو چاروں خانے چت کردیا ۔ وہ بولا مان گئے استاد اب یہ بتاؤکہ اس کے پیچھے دوسری حکمت کیا ہے؟ لومڑ کمار بولے دیکھو یار بہت دنوں تک ان کے ساتھ ہمارا گزارہ نہیں ہوگا ۔ اس لیے جس گھر میں رہنا نہ ہو وہاں رنگ و روغن پر کیوں وقت اور توانائی صرف کی جائے؟ اپنے لوگوں کو بڑی بڑی وزارتوں پر بٹھانے کے بعد وقت ضرورت انہیں واپس بلانا مشکل ہوجاتاہے۔ اس لیے ان سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنا کام نکالنے میں بھلائی ہے۔
بکرا بابو نے کہا جی ہاں یہی سوچ کر میں نے اسپیکر کے عہدے پر اصرار نہیں کیا کیونکہ یہ لوگ اول تو اس کو بلیک میل کریں گے اور آگے چل کر کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ لومڑ کمار تائید کر کے بولے دیکھو جب سے مہا راجہ نے دوسروں کی حق تلفی کرکے بجٹ میں ہمیں نواز ہ ہے جنگل کے سارے جانور اس پر ٹوٹ پڑےہیں ۔ بکرا بابو بولے ارے بھیا انڈیا کے ہاتھی ، نیل گائے،خرگوش اور بارہ سنگھا وغیرہ تو پہلے ہی ان کے دشمن تھے اس کابجٹ سے کیا تعلق؟ جی ہاں مگر اب اپنے پرائے سب دشمن ہو گئےہیں لیکن بولنے سے ہچکچا رہے ہیں ۔ بکرابابونے پوچھا پرائے تو ٹھیک مگر اپنے کیوں؟ لومڑ کمار نے کہا بھیا موجودہ سیاست میں کوئی دھرم کرم کے لیے تو آتا نہیں ہے ۔ سارے لوگ روپیہ کمانے کے لیے آتے ہیں۔ سرکاری خزانے سے جب روپیہ ملتا ہے تو اسی سے سارے ٹھیکے اور کمیشن نکلتے ہیں۔ اب اگر وہی نہیں آئے گا تو ان کی جیب کٹ جائے گی اور جب پیٹ پر لات پڑتی ہے تو دماغ ٹھکانے آہی جاتا ہے۔ اس لیے آپ یہ سمجھ لو کہ
’سب کچھ بادشاہ سے مانگ لیا خزانہ مانگ کر
اب سب کے ہاتھ اٹھیں گےاس ایک صدا کے بعد‘
بکرا بابو بولا یار تم نے ایسی چال چلی کہ سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی ۔ لومڑ کمار بولے بھیا یہ تجربے کی بات ہے۔ بکرابابو نے تائید کرتے ہوئے کہا یار ایک تو لومڑیوں کی ذہانت اور تم جیسوں کا تجربہ سونے پہ سہاگہ ہے۰۰۰۰ قسم سے ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024