سیاحوں پر حملہ دراصل اسلام اور انسانیت کے خلاف ہے

پہلگام حملے کے خلاف دلی سے سری نگر تک مسلمانوں کا احتجاج

0

محمد ارشد ادیب 

کشمیری طلبہ پر حملوں سے ریاستی حکومت فکر مند، وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیل
پنجاب کے لوگ کشمیریوں کی حمایت میں آگے آئے۔ تحفظ کا وعدہ قابل تعریف
جے پور کی جامع مسجد میں گھس کر احتجاج کرنے والے بی جے پی ایم ایل اے کی ایف آئی آر کے بعد معافی، چہ معنی دارد؟
کشمیریوں کے ساتھ عام مسلمان بھی نشانے پر، کئی مقامات پر حملے
اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے پر سنبھل اور آنولہ میں مقدمات درج
شمالی بھارت میں ان دنوں گرم ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ لُو کے تھپیڑوں اور دھوپ کی شدت نے لوگوں کا باہر نکلنا مشکل کر دیا ہے۔ وادی کشمیر کے پہلگام میں سیاہوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے نے ہندو مسلم منافرت کا ایسا بیج بو دیا ہے کہ امن پسند شہریوں خاص طور پر مسلمانوں کا جینا محال ہو تا جا رہا ہے۔
پہلگام حملے کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج
اس بزدلانہ حملے کے خلاف کشمیر سے لے کر دلی تک ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق نے سری نگر کی شاہی جامع مسجد سے سیاحوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ جامع مسجد دلی کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بھی حملے کی پرزور مذمت کی ہے۔ شاہجہانی جامع مسجد کے باہر عام مسلمانوں نے اس سانحے میں مارے گئے افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ کئی مقامات پر تاجروں نے اپنے کاروبار بند رکھے۔ پورے ملک میں غم و غصہ کا ماحول ہے۔ دلی سے لے کر لکھنؤ، پٹنہ، بھوپال اور ممبئی تک احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، اس کے باوجود کچھ لوگ کشمیریوں کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جس کے منفی اثرات مختلف واقعات کی شکل میں رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کے انصاف پسند شہری بھی ان واقعات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
کشمیری طلبہ و تاجروں پر انتقامی حملے
پہلگام کے بزدلانہ حملے کے بعد شمالی ہند کے کئی مقامات پر کشمیری طلبہ اور تاجروں کو نفرت پر مبنی تشدد، ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن نے پنجاب، ہماچل پردیش، اتر اکھنڈ، ہریانہ راجستھان اور اتر پردیش کے الگ الگ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے جان بوجھ کر نفرت سے چلائی گئی مہم قرار دیا ہے‌۔ دہرادون کے سدھو والا میں بی ایف آئی ٹی کالج کے تقریباً 20 طلبہ ممکنہ حملے سے خوفزدہ ہو کر گھر واپسی کے لیے جولی گرانٹ ہوائی اڈہ پر پہنچ گئے۔ چنڈی گڑھ کے قریب ڈیرابسی میں واقع ایک نجی کالج کے ہاسٹل میں کشمیری طلبہ کو نشانہ بنانے کی اطلاع ہے۔ اس کے علاوہ ہماچل پردیش کے کانگڑا میں بھی کشمیری طلبہ کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے ہراساں کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کئی ریاستوں کے اپنے ہم منصب وزرائے اعلی سے بات کر کے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست کی ہے۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ سے مداخلت کی بھی اپیل کی ہے۔ عمر عبداللہ نے قومی میڈیا کے ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے ان ٹی وی چینلوں کو بے شرم قرار دیتے ہوئے نفرت پھیلانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ان چینلوں کے اینکروں اور رپورٹروں کو بزدل قرار دیا اور کہا کہ انہیں کشمیر کی اصل سچائی دکھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم سیاحوں پر ہونے والے حملے کی مذمت کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔
نشانے پر عام مسلمان کیوں ہیں؟
پہلگام حملے کے بعد پلوامہ واقعہ ہی کی طرح ملک کے مختلف حصوں میں عام مسلمانوں کو بھی نفرت اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ جے پور کے جوہری بازار میں واقع جامع مسجد میں گزشتہ جمعہ اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ مقامی باشندوں اور عینی شاہدین کے مطابق ہوا محل کے رکن اسمبلی بال مکند آچاریہ اپنے حامیوں کے ساتھ جامع مسجد میں جوتوں کے ساتھ گھس گئے۔ اس وقت عشاء کی نماز چل رہی تھی، اس دوران شر پسند عناصر نے پاکستان کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر متنازعہ پوسٹرز لگائے۔ مقامی باشندوں نے شہر کے معزز افراد کے ساتھ پولیس کمشنر سے اس کی شکایت کی جس کے بعد بال مکند آچاریہ اور ان کے حامیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ بعد میں بال مکند اچاریہ نے ایف آئی آر درج ہونے کے بعد معذرت خواہی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماحول خراب کرنے کے بعد صرف معذرت کافی ہوگی؟ واضح رہے کہ بال مکند آچاریہ بی جے پی کے رکن اسمبلی ہیں جو اس سے پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف کئی مرتبہ اشتعال انگیزی کر چکے ہیں۔ صحافی وسیم اکرم تیاگی نے ایکس پر اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے "ان کو نہ پاکستان کی مخالفت کرنا ہے نہ دہشت گردی کی، ان کی ساری مخالفت بھارتی مسلمانوں کے لیے ہی ہے۔ کے ایم آر نام کے ایک صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: وہ اگر سرحد پر جاتے یا پاکستان چلے جاتے اور وہاں پر نعرے بازی کرتے تو کچھ سمجھ آتا، اب مسجد میں دیواروں کو نعرے سنانے سے کیا فائدہ؟ پرمود کمار سنگھ نام کے صارف نے لکھا وہ سماج کو توڑ رہے ہیں بدقسمتی سے ان جیسے نیتاؤں کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی۔
جماعت اسلامی راجستھان کے امیر حلقہ جناب محمد نظام الدین نے جے پور کا ماحول خراب کرنے والے ایم ایل اے کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
آگرہ اور سہارن پور سے بھی اسی طرح کے واقعات کی اطلاعات ملی ہیں۔ سہارن پور کے ایک گاؤں میں مقامی باشندوں نے مبینہ طور پر ہتھیار لہراتے ہوئے مسلمانوں کو دارالعلوم دیو بند خالی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ تاہم، سہارنپور پولیس نے اس واقعے کی تردید کردی ہے اور وائرل شدہ ویڈیو کو پرانا اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔
آگرہ میں گلفام نام کے ایک شخص کو نام پوچھ کر گولی مارنے کی خبر وائرل ہوئی ہے۔ حالانکہ گئو رکشکوں کے گروپ نے اس کی ذمہ داری بھی لی ہے لیکن آگرہ پولیس نے اس واقعہ کی تردید کرتے ہوئے گئو رکشا دل نام کی کسی تنظیم کے وجود سے انکار کیا ہے۔ تاہم، گلفام اور اس کے  ساتھی کے ساتھ ہونے والی واردات کی رپورٹ درج کی گئی ہے۔ گلفام کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے حملہ آوروں کے خلاف چھان بین کی جا رہی ہے۔ اے پی سی آر کی فیروز آباد یونٹ کے ایک وفد نے آگرہ میں گلفام کے لواحقین سے ملاقات کے بعد بتایا کہ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے اور تفتیش کے بعد ایک کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ اے پی سی آر فیروز آباد کے کوآرڈینیٹر ایڈووکیٹ صغیر احمد نے اس کیس میں قانونی مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے۔ گلفام کے ساتھ اس کے ایک ساتھی کو بھی چوٹ لگی ہے۔ گلفام کے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ مقدمہ اس کے بھائی کی طرف سے درج کرایا گیا ہے۔
پنجاب سے ملی کشمیریوں کو حمایت
پہلگام سانحہ کے بعد ہراسانی کے شکار کشمیری طلبہ کے لیے پنجاب سے راحت بھری خبر ملی ہے۔ کاوش عزیز نے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں پنجاب کے باشندے کشمیری طلبہ کو دلاسا دے رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ پنجاب میں یہ سب نہیں چلے گا۔ اگر کسی نے بھی کشمیری بہن یا بھائی کو ہاتھ بھی لگایا تو اچھا نہیں ہوگا۔ بٹو شرما نام کے ایک صارف نے اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ہم اپنے پنجاب کو یو پی یا ایم پی نہیں بننے دیں گے، یہاں اندھ بھکتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
کشمیری سیاحت کو بچانے کے لیے بھی کئی نامور افراد سامنے آرہے ہیں۔ فلم اداکار سنیل شیٹی نے کہا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور ہمارا ملک دہشت گردی سے نہیں ڈرتا ہمیں ان لوگوں کے جال میں نہیں پھنسنا ہے جو ڈر اور نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ متحد رہنا چاہیے۔ انہوں نے عوام سے اگلی چھٹیاں کشمیر میں گزارنے کی اپیل کی ہے۔ بٹو شرما نے ایک غیر مسلم خاتون سیاح کا ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ جب تک کشمیری بھائیوں کے چہرے پر مسکان نہیں لوٹ آتی میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ انہوں نے کشمیر آنے والے سیاحوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ٹرپ منسوخ نہ کریں کشمیر گھومنے ضرور آئیں جنت ارضی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی
پریاگ راج کے بی جے پی کے رکن اسمبلی ہرش وردن واجپئی نے اپیل کی ہے کہ کشمیر کے لوگوں کو اور ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے مسلمانوں جیسا مت سمجھیے۔ کشمیریوں نے اس بار اسمبلی الیکشن میں جس طرح سے ہائی ووٹنگ کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود کو بھارت  کا حصہ مانتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلگام حملے میں پاکستان کے مسلمان مارنے والے تھے تو ہندوستان کے مسلمان بچانے والے تھے تو دونوں سے یکساں سلوک کیسے کیا جا سکتا ہے؟
پرینکا دیش مکھ نے بی جے پی لیڈر نشی کانت دوبے کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دیکھیے اس بدیسی ڈی این اے والے دوبے کو کہ وہ کیسے عیاشی کر رہا تھا۔ دی خیبر ہوٹل کے ایک کمرے کا کرایہ تقریباً 65 ہزار روپے یومیہ ہے اور اس نے تو پورا ہوٹل ہی کرائے پر لیا تھا۔ خود تو پارٹی کرنے کے لیے سب سے زبردست سیکیورٹی لے گا اور عام سیاحوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دے گا۔ واضح رہے کہ نشی کانت دوبے حملے سے صرف دس دن پہلے کشمیر کی وادی گلمرگ میں اپنی شادی کی 25ویں سالگرہ منانے گئے تھے جس پر سوشل میڈیا میں زبردست نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا سیکیورٹی انتظامات صرف وی آئی پیوں کے لیے ہیں اور عام سیاحوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے؟
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر دو افراد کی گرفتاری
بریلی کے قصبہ انولہ میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور پوسٹر لگانے پر کئی افراد کے خلاف ایف ائی ار درج ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایس ایس پی کی ہدایت پر دو افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ ہنمانشو پٹیل نام کے نوجوان نے ایکس پر پولیس سے اس کی شکایت کی تھی۔ پولیس نے پوسٹر چسپاں کرنے والے دو نوجوانوں محسن اور عاقب کو گرفتار کیا ہے دیگر کی پہچان کی جا رہی ہے۔ 11 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔
اسی طرح سنبھل کے قصبے نرولی میں بھی اسرائیلی بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے سات مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یو پی میں پر امن احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یو پی کی حکومت پر امن احتجاج کو بھی برداشت نہیں کر پا رہی ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025