
ایس آئی آر پر سپریم کورٹ کی جرح ا لیکشن کمیشن لاجواب
جب ووٹ دینے کا وقت آیا تو شہریت کی چھان بین ہونے لگی۔سیمانچل کو نشانہ بنانے کی منظم کوشش!
دعوت نیوزبیورو ، کولکاتا
اور جج کے سوال میں جمہور کا درد سمٹ آیا۔۔’’آپ جو پوچھ رہے ہیں وہ کاغذات تو میرے پاس بھی نہیں ‘‘
بہار اور وہاں کی سیاست سے متعلق کوئی بھی قیاس آرائی ہمیشہ سے مشکل رہی ہے۔ اگرچہ بہار کی سیاست مذہبی نعروں اور ہندوتوا پولرائزیشن سے زیادہ ذات پات کی سیاست کے گرد گھومتی رہی ہے مگر ذات پات کی سیاست اور گروہی وفاداری کا کوئی متعین فارمولا نہیں ہے۔ وقت اور ضرورت کے لحاظ سے ذاتی گروہوں کی وفاداریاں اور ترجیحات تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ہر ایک دہائی کے بعد بہار میں نیا سماجی اتحاد کروٹ لیتا ہے۔
90 کی دہائی میں لالو پرساد یادو کی قیادت میں اعلیٰ ذات کے سیاسی اتحاد کے مقابلے میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں پر مشتمل سماجی اتحاد وجود میں آیا اور 2005 میں ایک زمانے تک لالو پرساد کے قریبی رہنے والے نتیش کمار نے اسی سماجی اتحاد میں نقب لگائی اور راشٹریہ جنتا دل کے سیاسی اتحاد کو یادو اور مسلم اتحاد تک محدود کر دیا۔ مگر اب لالو پرساد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو نئے سماجی اتحاد کی تعمیر میں مصروف ہیں۔
مگر اس دوران الیکشن کمیشن کے ذریعے اچانک بہار میں ووٹر لسٹ کا گہرائی سے جائزہ لینے (SIR) کے فیصلے نے ایک نئی سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ جب کہ چھ مہینے قبل ہی بہار میں ووٹر لسٹ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اب جب کہ انتخابات میں محض تین مہینے باقی ہیں تو کیا کمیشن بہار کے آٹھ کروڑ ووٹروں کا جائزہ لینے میں کامیاب ہوگا؟ کیا یہ فیصلہ کسی سیاسی دباؤ یا مرکز کی حکم راں جماعت کے اشارے پر کیا گیا ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے، تاہم ان امکانات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس ہفتے سپریم کورٹ میں SIR پر خوب بحث ہوئی۔ بلاشبہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کا سیکشن 21(3) الیکشن کمیشن کو SIR کا اختیار دیتا ہے۔ عدالت میں بھی فریقین نے اس اختیار کو تسلیم کیا ہے مگر سوال اختیارات کے استعمال کے وقت اور اس کے پیچھے کارفرما مقاصد کا ہے۔ سماعت کے دوران ایک ایسا موقع بھی آیا جب بنچ میں شامل سپریم کورٹ کے ایک جج کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ میں نام شامل کرانے کے لیے جو کاغذات مانگ رہا ہے اگر یہ کاغذات مجھ سے مانگے جائیں تو میرے پاس بھی نہیں ہوں گے۔
سوال یہ بھی تھا کہ کیا شہریت کا فیصلہ کرنے کا اختیار وزارت داخلہ کا ہے یا الیکشن کمیشن کا؟ سوال آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر آئی ڈی کارڈ کو تسلیم نہ کرنے کا بھی تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے مگر جس طرح کے سوالات ججوں نے اٹھائے ہیں اور جس انداز میں درخواست گزاروں کے وکلا—بالخصوص کپل سبل، سینئر ایڈووکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی اور ADR—نے کمیشن کے SIR کرانے کے فیصلے کو آئینی طور پر چیلنج کیا ہے، اس نے الیکشن کمیشن کے وقار کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
اے ڈی آر نے سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کا ای سی آر کرانے کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 14، 19، 21، 325 اور 326 کی خلاف ورزی ہے، اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 اور الیکٹورل رولز 1960 کے رجسٹریشن سے متعلق قاعدہ 21 اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اے ڈی آر کے وکیل نے دلیل دی کہ کمیشن نے نئے دستاویزات طلب کیے ہیں اور ثبوت کا بوجھ شہری پر ڈال دیا ہے۔ آدھار اور راشن کارڈوں کو جو شہریوں کے پاس وسیع پیمانے پر موجود ہیں، کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس سے غریب اور پسماندہ رائے دہندگان، خاص طور پر دیہی بہار کے باشندے، سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
اس کے علاوہ 2003 کی ووٹر لسٹ میں جن لوگوں کے نام نہیں ہیں، انہیں اپنی شہریت کا ثبوت دینا ہوگا اور 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کو اپنی شہریت کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی شہریت کا بھی ثبوت دینا ہوگا۔ اے ڈی آر نے عدالت کو بتایا کہ یہ بہار جیسی ریاست میں بہت مشکل ہے، جہاں پیدائش کے اندراج کی سطح تاریخی طور پر کم ہے اور بہت سے ووٹروں کو سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
بہار میں تین کروڑ سے زیادہ ووٹرز ان معیارات پر پورے نہیں اترتے اور اندیشہ ہے کہ ووٹر لسٹ میں انہیں جگہ نہیں ملے گی۔
اے ڈی آر نے عدالت سے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کا سیکشن 21(3) الیکشن کمیشن کو ای سی آر کا اختیار دیتا ہے مگر اس کے لیے معقول وجہ ہونی چاہیے، جب کہ اس وقت کمیشن نے ای سی آر کے لیے جو وجوہات پیش کی ہیں وہ معقول نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے اگرچہ فریقین کے دلائل پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے مگر آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر آئی ڈی کارڈ کو بطورِ ثبوت تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کمیشن کو تفصیلی جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 28 جولائی کو ہوگی۔
سپریم کورٹ کے حالیہ تبصرے پر لوک سبھا کے سابق سکریٹری بی ڈی اچاریہ کہتے ہیں:
’’سپریم کورٹ کی ہدایت خوش آئند ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آدھار اور راشن کارڈوں کو قبول کرنے کا مشورہ تقریباً الیکشن کمیشن کے لیے ایک حکم ہے۔ انہیں اسے قبول نہ کرنے کی وجوہات بتانی ہوں گی۔ لیکن یہ مسئلے کا صرف ایک حصہ ہے۔ میری نظر میں یہ ساری مشق ابتدا ہی سے غلط ہے۔ سب سے پہلے تو یہ نظرِ ثانی جنوری میں ہونی چاہیے تھی۔ ایک انتخابی فہرست جو اسی سال جائزہ لینے کے بعد مرتب کی گئی ہے، گزشتہ چھ مہینوں میں ایسا کیا ہوا کہ اس قسم کی نظرِ ثانی کی ضرورت پیش آ گئی ہے؟ کوئی زبردست آبادیاتی تبدیلیاں نہیں ہوئیں۔ الیکشن کمیشن نے جو وجوہات دی ہیں—بیچ کے 20 برسوں میں آبادیاتی تبدیلیاں—انتخابات سے چند ماہ قبل ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اسے ایک ماہ میں "انتہائی نظرِ ثانی” کہنا ایک تضاد ہے۔ گہری نظرِ ثانی وقت طلب عمل ہے۔‘‘
سپریم کورٹ اس پورے معاملے میں کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ سابق سکریٹری اچاریہ کہتے ہیں:
’’میں اپنی بنیادی دلیل پر قائم ہوں۔ یہ مشق غیر قانونی ہے اور اسے روکنا ضروری ہے۔ اگر یہ جاری رہتی ہے تو زیادہ ممکن ہے کہ عدالت اسے آئندہ انتخابات سے الگ کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بہار اسمبلی انتخابات موجودہ، حال ہی میں نظرثانی شدہ فہرست پر ہوں گے۔ انتخابات کے بعد وہ اپنی نظرثانی جاری رکھ سکتے ہیں۔ مجھے سپریم کورٹ سے یہی توقع ہے۔‘‘
تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ووٹر لسٹ، بالخصوص نوجوانوں کے لیے، اپنے نام شامل کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بہار میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی آبادی ہے۔ یہاں ووٹروں میں سے 47 فیصد کی عمریں 40 سال سے کم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سے اب توقع کی جائے گی کہ وہ نہ صرف اپنی پیدائش کا ثبوت دیں گے بلکہ اگر ان کی عمر 38 سال سے کم ہے تو اپنے والدین میں سے کسی ایک کا اور اگر عمر 21 سال سے کم ہے تو اپنے والدین دونوں کی شہریت کا ثبوت دینا ہوگا۔
2019–21 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) کے مطابق تقریباً 40 فیصد بہاری خواتین کبھی اسکول نہیں گئی ہیں۔ بوڑھی خواتین میں ناخواندگی کی سطح بہت ہی زیادہ ہے۔ 2011 کی مردم شماری میں 45 سال سے زیادہ عمر کی 75 فیصد خواتین ناخواندہ تھیں۔ 2022 کے ذات پات کے سروے کے مطابق 14 سے 45 سال کی عمر کے درمیان نوجوانوں میں 24 فیصد ناخواندہ مرد ہیں۔ اسی سروے کے مطابق بہار میں صرف 15 فیصد نوجوانوں نے میٹرک یا اس سے آگے کی تعلیم حاصل کی ہے۔
بہار میں غربت اور بیرونی نقل مکانی کی شرح بھی بہت بلند ہے۔ نصف سے زیادہ بہاری گھرانوں میں کم از کم ایک کمانے والا رکن ایسا ہے جو مہاجر ہے۔ اتنے مختصر وقت میں تارکینِ وطن مزدوروں کے لیے اپنے وطن جا کر کاغذات جمع کرنا مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ریاست نے کئی نسلوں سے تعلیم پر سرمایہ کاری ہی نہیں کی، وہاں لوگوں سے سرٹیفکیٹ اور کاغذات مانگنا مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے؟
سِول سرونٹس اور بوتھ لیول افسران گھر گھر جا کر نیم خواندہ ووٹروں میں فارم تقسیم کر رہے ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ فارم بھر کر جمع کریں۔ چوں کہ اس پورے عمل کو لے کر خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی، اس کے بعد کمیشن نے وضاحت دی ہے کہ دستاویزات کی کمی کی صورت میں "ای آر او” (Electoral Registration Officer) مقامی تحقیقات کی بنیاد پر فیصلہ لے سکتا ہے۔ لیکن اس سے بدعنوان اہلکاروں اور درمیانی ایجنٹوں کو رشوت لینے کی کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔
بہار کے دیہی، خاص طور پر سیلاب زدہ علاقوں میں نصف صدی پرانے کاغذات کو محفوظ رکھنے کی امید کس بنیاد پر کی جا سکتی ہے؟ یہاں تک کہ 2005–06 میں بہار میں صرف 8.5 فیصد پیدائشیں ہی رجسٹرڈ ہوئی تھیں۔ 2019–21 میں بہتری آئی اور 56 فیصد بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ جاری ہوئے۔ اب بھی صرف 76 فیصد ڈیلیوریز (اور 71 فیصد دلتوں میں) ہسپتالوں یا نرسنگ ہوموں میں ہوتی ہیں۔
بہار میں ذات پات کی تفریق عروج پر ہے۔ SIR کے لیے قابلِ قبول دستاویزات میں سے ایک زمین کا ریکارڈ بھی ہے، جب کہ 86 فیصد دلت گھرانوں کے پاس زمین ہی نہیں ہے۔ 2022 کے ذات پات کے سروے کے مطابق، بہار میں 43 فیصد دلت غریب ہیں—یعنی وہ لوگ جو سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں۔
بہار میں مسلمانوں کی کل آبادی 17 فیصد ہے۔ دلتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی معاشی حالت بھی بہتر نہیں۔ سب سے کم مسلم آبادی ہی سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ صرف 26 فیصد مسلم بچے آنگن واڑی مراکز میں جاتے ہیں، جب کہ دلت بچوں کی شرح 34 فیصد ہے۔ بہار میں مسلم بچوں کے ٹیکے لگوانے، اضافی غذائیت حاصل کرنے اور صحتِ عامہ کی سہولتوں تک رسائی کے امکانات بھی کم ہیں۔
یہ اعداد و شمار بہار میں خواندگی کی کمی، دولت کی غیر مساوی تقسیم اور مجموعی سماجی نا برابری کی نشان دہی کرتے ہیں۔ 2020 کے انتخابی نتائج کے تجزیے کے بعد یہ تصویر واضح ہوتی ہے کہ ناخواندگی، نقل مکانی اور غربت کی وجہ سے کن لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے خارج ہو سکتے ہیں۔
سوال صرف یہ نہیں ہے کہ ووٹر لسٹ سے کن لوگوں کے نام خارج ہوں گے، بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ بڑی تعداد میں ناموں کے اخراج کے بعد ریاست کا سیاسی توازن کس کروٹ بیٹھے گا؟ ووٹر فہرستوں کی یہ انتظامی "تطہیر” کیا انتخابی نتائج کو منظم طریقے سے تبدیل کر دے گی؟
سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ دیہی علاقوں میں سب سے زیادہ ووٹر لسٹ سے نام خارج ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے اس کا نقصان آر جے ڈی اتحاد کو برداشت کرنا پڑے گا۔ بہار کا سیمانچل، جو ارریہ، پورنیہ، کٹیہار اور کشن گنج پر مشتمل ہے، ان اضلاع میں شامل ہے جہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ اور تعلیمی محرومی نمایاں ہے۔ ان اضلاع میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 40 فیصد ہے۔ یہ علاقے بنگال، نیپال اور بنگلہ دیش کی سرحد سے بہت قریب واقع ہونے کی وجہ سے نہایت حساس شمار ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے نے ان علاقوں کو مزید حساس بنا دیا ہے۔
چنانچہ حال ہی میں مشہور نیوز چینل آج تک اور دیگر چینلوں پر ایک رپورٹ دکھائی گئی، جس میں کہا گیا کہ بہار کے ان چار اضلاع میں آبادی سے زیادہ آدھار کارڈ بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار کے نائب وزیرِ اعلیٰ سمراٹ چودھری نے دعویٰ کیا کہ کشن گنج میں سب سے زیادہ لوگ ڈومیسائل بنا رہے ہیں۔ گزشتہ سال پارلیمنٹ میں بی جے پی لیڈر نشی کانت دوبے نے دعویٰ کیا تھا کہ بہار کے سیمانچل میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی درانداز آباد ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بہار کے سیمانچل اور بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع—مالدہ، مرشد آباد اور شمالی دیناج پور—کو مرکز کے زیرِ کنٹرول علاقے میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اب اگر ان بیانات، رپورٹس اور ای ایس آر کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر ای ایس آر کا مقصد کیا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ سیمانچل کے ان اضلاع میں آبادی سے زیادہ آدھار کارڈوں کی حقیقت کیا ہے؟ بہار حکومت کے ذات پات پر مبنی سروے کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست میں آبادی کا اوسط آدھار کوریج تقریباً 94 فیصد ہے اور سیمانچل کے اضلاع میں یہ شرح نمایاں طور پر زیادہ ہے:
کشن گنج 105.16 فیصد، کٹیہار 101.92 فیصد اور پورنیہ 121 فیصد۔
ان اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان اضلاع میں تخمینہ شدہ آبادی سے زیادہ آدھار کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ مگر یہ صرف نصف سچائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف سیمانچل ہی نہیں، بلکہ ملک کے کئی علاقوں میں آبادی سے زیادہ آدھار کارڈز بنے ہیں۔ گجرات کے کئی اضلاع جہاں مسلمانوں کی آبادی 10 فیصد سے بھی کم ہے وہاں بھی آبادی سے کہیں زیادہ آدھار کارڈز جاری کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیمانچل کے اضلاع میں آبادی سے زیادہ آدھار کارڈز موجود ہیں اور اس کے لیے مسلمان ذمہ دار ٹھیرائے جا رہے ہیں تو گجرات میں کون ذمہ دار ہے؟
اگر ایس ای آر کا مقصد مہا گٹھ بندھن کے ووٹوں کو کمزور کرنا ہے تو انگریزی اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے بہار میں ایک اندرونی سروے کرواکے ووٹروں کے رجحانات جاننے کی کوشش کی۔ یہ سروے بالخصوص ان علاقوں میں کیا گیا جہاں بی جے پی کے روایتی ووٹر رہتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے روایتی ووٹروں میں سے 15 سے 20 فیصد افراد نے کھلے عام ای ایس آر کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح، جنتا دل یو کے روایتی ووٹروں میں بھی اتنی ہی تعداد نے ناراضگی ظاہر کی ہے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کو اس کا نقصان ووٹوں کی صورت میں اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
***
اگر ایس ای آر کا مقصد مہا گٹھ بندھن کے ووٹوں کو کمزور کرنا ہے تو انگریزی اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے بہار میں ایک اندرونی سروے کرواکے ووٹروں کے رجحانات جاننے کی کوشش کی۔ یہ سروے بالخصوص ان علاقوں میں کیا گیا جہاں بی جے پی کے روایتی ووٹر رہتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے روایتی ووٹروں میں سے 15سے 20 فیصد افراد نے کھلے عام ای ایس آر کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح، جنتا دل یو کے روایتی ووٹروں میں بھی اتنی ہی تعداد نے ناراضگی ظاہر کی ہے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کو اس کا نقصان ووٹوں کی صورت میں اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025