سکم حکومت کی نئی پالیسی: آبادی بڑھاؤ انعام پاؤ

سرحدی صوبہ میں آبادی کی شرح 1.1 نہایت ہی تشویشناک

ڈاکٹر فرحت حسین

دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک اپنی آبادی کو بڑھانے کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں اور بچوں کی پیدائش پر انعامات اور مراعات کے اعلانات بھی کرتے رہتے ہیں، مگر جب آبادی بڑھانے پر انعام کے اعلان کی خبر ہمارے اپنے ملک کی ایک ریاستی حکومت کی طرف سے آئے تو تعجب ہونا فطری بات ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں بڑھتی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بھارت آبادی کے معاملہ میں چین سے بھی آگے نکل جائے گا۔ ملک میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی مختلف اسکیمیں نافذ ہیں۔ فیملی پلاننگ کا باقاعدہ شعبہ قائم ہے جس پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ ایمر جنسی کے دوران نس بندی پر بہت زور دیا گیا تھا یہاں تک کہ جبری نس بندی تک کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ملک کے معاشی مسائل بیروزگاری، مہنگائی وغیرہ کی وجہ بھی آبادی کو ہی گردانا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافہ کے مسئلہ پر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں، خاص کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ قانون بنا کر آبادی کو کنٹرول کرنے کے حق میں ہیں۔ اتر پردیش میں دو بچوں کی پالیسی کے تحت دو سے زائد بچوں کے والدین لوکل باڈیز کے الیکشن میں امیدوار نہیں ہو سکتے، انہیں حکومت کی کچھ دوسری سہولیات اور مراعات سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں ہندوستان کی ایک ریاست آبادی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اسے بڑھانے کی پالیسی اختیار کرے اور اس کے لیے مختلف اسکیمیں بھی عمل میں لائے تو یہ غور و فکر کا مقام ہے۔ یہ معاملہ شمال مشرقی ریاست سکم (Sikkim) کا ہے۔ ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح سکم میں بھی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے برسوں سے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ کوششیں اتنی بار آور ثابت ہوئیں کہ آبادی کے گھٹنے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ چنانچہ ریاست کے وزیراعلیٰ کو باقاعدہ آبادی کنٹرول کی پالیسی ترک کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ صوبہ کی آبادی میں کمی واقع ہو رہی ہے جو بہت ہی تشویشناک ہے۔ ریاست کے اصل آدی باسی لوگوں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے آبادی میں اضافہ کی کوششیں ہونی چاہئیں۔
کسی بھی مقام یا علاقہ میں آبادی کو اسی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے آبادی کی شرح یا شرح پیدائش 2.1 ہونا چاہیے۔ آسان پیرائے میں اس کا مطلب ہے کہ دس خاندان یعنی بیس افراد کے یہاں اکیس بچے ہوں اور ایک عورت اوسطاً دو بچوں کی ماں ہو۔بیس لوگوں کے یہاں اکیس بچوں کے ہونے سے آبادی اسی سطح پر رہے گی نہ کم ہوگی نہ بڑھے گی۔ اکیسں کی تعداد اس لیے کہ کچھ بچے بالغ ہونے سے قبل ہی فوت ہو سکتے ہیں۔ سکم میں یہ شرح صرف 1.1 یعنی بیس لوگوں کے یہاں گیارہ بچے ہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک فیملی میں صرف ایک ہی بچہ ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سکم کی آبادی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسی صورتحال پر سکم کے وزیر اعلیٰ پریم سنگھ تمانگ نے تشویش کا اظہار کیا اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کو انعام کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ مختلف مراعات اور سہولیات بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری ملازمت میں کام کرنے والی عورتوں کو ایک سال کی زچگی کی چھٹی (Maternity Leave) اور ان کے شوہروں کو ایک ماہ کی تعطیل دی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ نئی تجاویز میں دوسرے بچہ کی پیدائش پر تنخواہ میں خصوصی اضافہ ( special increament) تیسرے بچہ کی پیدائش پر مزید سہولیات شامل ہیں جو عورتیں سرکاری ملازم نہیں ہیں ان کو دوسرے اور تیسرے بچہ کی پیدائش پر خطیر مالی تعاون یا انعام سے بھی نوازے جانے کی اطلاعات ہیں۔ نیز مصنوعی طریقوں (IVF) سے بچے پیدا کرنے کی صورت میں حکومت کی جانب سے والدین کو مالی مدد اور حوصلہ افزائی کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے اور بچوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لیے حکومت کی جانب سے خصوصی انتظامات بھی کیے جانے کے وعدے ہیں۔ واضح رہے کہ سکم کی آبادی سات لاکھ سے بھی کم ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ اس میں عورتوں کی تعداد آدھی سے بھی کم ہے یعنی مردوں کے مقابلہ میں عورتیں کم ہیں۔ کچھ ایسا ہی منظر نامہ جاپان اور یورپی ممالک کا ہے جہاں آبادی کے اضافہ سے خوفزدہ ہو کر اسے اتنا کنٹرول کیا گیا کہ اب بچوں اور نوجوانوں کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہو گئی ہے اور انہیں بھی آبادی کو مناسب سطح پر برقرار رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین (China) کی مثال بہت سبق آموز ہے۔ 1980 میں چین نے ایک بچہ پالیسی (One Child Policy) کو اپنایا اور اس پر سختی سے عمل شروع کر دیا۔ 2015 کے آتے آتے اس پالیسی کے منفی نتائج سامنے آنے لگے آبادی میں بچوں کی تعداد تو کم ہوئی ہی، اس کے ساتھ بچیوں یا لڑکیوں کی تعداد اور آبادی میں ان کا تناسب بھی تشویش ناک حد تک کم ہو گیا۔ بچے کم ہوئے تو جوان کم ہوئے اور آبادی میں بوڑھوں کا تناسب بڑھ گیا۔
کام کرنے والے جوان ہاتھ کم ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2016 میں ایک بچہ پالیسی کو رد کر کے دو بچوں کی پالیسی (Two children policy) کو نافذ کیا گیا۔ یعنی ایک فیملی میں دو بچے ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا تو تین بچوں کی پالیسی کو اختیار کیا گیا اور مختلف نوعیت کی مراعات شروع کی گئیں مگر مسئلہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا کیونکہ انسانوں کی پیدائش کوئی اشیا کی فیکٹری کی طرز پر تو نہیں ہے کہ جب چاہو پلاننگ کر لو کہ کتنی تعداد میں کس قسم کا سامان تیار کرنا ہے۔ انسانی آبادی کی نفسیات یہ ہے کہ پروپیگنڈہ کے زیر اثر جب وہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے تو پھر اسے اس کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں جو لوگ آج بھی آبادی کو ہی ہر مسئلہ اور ہر بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہیں انہیں سکم کی صورتحال سے سبق لینا چاہیے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں سکم جیسی صورتحال نہیں ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں شرح پیدائش میں واضح گراوٹ آئی ہے۔ ہمارے ملک میں 1963 میں شرح پیدائش 5.3 تھی جو کم ہو کر 2019 میں 2.4 ہوگئی اور 2022 میں ایک اندازہ کے مطابق 2.159 ہوگئی ہے یعنی آبادی کو اسی سطح پر برقرار رکھنے والی شرح 2.1 کے قریب قریب پہنچ چکی ہے۔ خاص بات یہ ہے ملک میں شرح پیدائش میں یہ گراوٹ سبھی مذہبی گروہوں اور طبقات کے اعداد وشمار میں پائی گئی ہے اور اس میں بہت زیادہ فرق بھی نہیں دیکھا گیا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023