
شمالی ہند میں وقت سے پہلے گرمی کی آمد۔ دلی کے بعد بہار میں سیاسی گھمسان کا آغاز
راہل گاندھی سماجی انصاف کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کے سوال پر ثابت قدم
محمد ارشد ادیب
ملکی پورضمنی انتخابات میں بی جے پی کی جیت اور حزب اختلاف کے الزامات بریلی کے فساد متاثرین کی چھ ماہ بعد گاؤں واپسی
چھتیس گڑھ کا پادری اورسپریم کورٹ؛ دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوئے یار میں
شمالی بھارت میں اس سال موسم سرما بہت جلد بیت گیا صرف چند دنوں ہی کڑاکے کی ٹھنڈ پڑی ،فروری کا نصف حصہ گزرتے ہی سردی میں گرمی کا احساس ہونے لگا ہے۔ مہا کمبھ میلے میں آنے والے عقیدت مند دو دو حادثوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں اشنان کر چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ سنگم کنارے کھل رہی تیز دھوپیں انہیں بھی خوب راس آ رہی ہیں جبکہ دوسری طرف کمبھ کے انتظامات پر اب غیر تو غیر اپنے بھی سوال اٹھانے لگے ہیں۔ جونا اکھاڑے کے مہا منڈلیشور یتی نر سنگھا نند نے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ پر کمبھ حادثے میں ہونے والی اموات کی تعداد چھپانے کا الزام عائد کیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے والے نرسنگھا نند نے سرکاری اعداد و شمار کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے یوگی پر جھوٹ بولنے کا بھی الزام لگایا ہے۔ واضح رہے کہ کمبھ میلے میں بھگدڑ سے ہزاروں افراد کے مارے جانے کے اندازے لگائے جا رہے ہیں لیکن سڑک سے سنسد تک ہنگامہ ہونے کے باوجود یوپی حکومت نے مہلوکین اور لاپتہ ہونے والے عقیدت مندوں کی حتمی تعداد ابھی تک جاری نہیں کی ہے۔ مہاکمبھ میں فائر سیکیورٹی کے پختہ انتظامات کے باوجود تین بار آتش زدگی کے واقعات پیش آچکے ہیں اس کے باوجود سرکار ابھی بھی کمبھ کے "بھویہ اور دویہ” ہونے کے دعوے کر رہی ہے۔
دلی اسمبلی انتخابات کے بعد بہار میں ہوگا سیاسی گھمسان
دلی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد بہار کا سیاسی پارہ چڑھنے لگا ہے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی بہار یاترا کے بعد لالو پرساد یادو بھی اپنے بیٹے کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ پچھلے ہفتے انہوں نے بہار شریف کی ایک ریلی میں عوام سے تیجسوی یادو کو وزیر اعلیٰ بنانے کی پر زور اپیل کی۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی بھی بہار پہنچ کر سماجی نا برابری کا سوال اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مجاہد آزادی جگ لال چوہدری کے یوم پیدائش کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کے بغیر سماجی انصاف ممکن نہیں ہے تاہم، انہوں نے بہار میں نتیش کمار کے ذریعے کرائی گئی مردم شماری کے بجائے کرناٹک اور تلنگانہ کے ماڈل کی وکالت کی۔ راہل گاندھی نے ملک کی نظام عدلیہ، تعلیم ،صحت ، کارپوریٹ اور میڈیا میں دلت پسماندہ اور قبایلیوں کی نمائندگی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے ذریعہ ہی اس ناانصافی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ بہار کے ضلع مدھوبنی میں محمد فیروز کے ساتھ پولیس کی مار پیٹ کا واقعہ سرخیوں میں چھایا رہا۔ اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کی محمد فیروز سے ملاقات کے بعد ریاستی حکومت نے پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا یے، ان پر گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران مولانا محمد فیروز سے بد سلوکی اور مارپیٹ کا الزام ہے۔ یہ واقعہ بینی پٹی تھانہ علاقے کے موضع کٹیا کے باشندے محمد فیروز کے ساتھ پیش آیا جو مسجد کے امام بھی ہیں۔ تیجسوی یادو نے محمد فیروز سے ملاقات کے بعد ریاستی گورنر محمد عارف خان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس معاملے میں حکومت کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے نا انصافی اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کر دیا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بہار اور جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کی متعدد وارداتیں پیش آ چکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے معاملے میں کھل کر سامنے نہیں آتی ہیں کہ کہیں ہندو ان سے ناراض نہ ہو جائیں۔ تیجسوی یادو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی طبقہ کے خلاف ظلم برداشت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ریاستی اسمبلی انتخابات کے مدنظر مسلمانوں کو کوئی بھی سیاسی پارٹی نظر انداز نہیں کر سکتی لہٰذا تیجسوی یادو نے کھل کر میدان میں اتر کر سیاسی سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ملکی پور کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے ماری بازی
اتر پردیش کے ملکی پور اسمبلی حلقے میں بی جے پی امیدوار چندربھان پاسوان نے بازی ماری ہے۔ انہوں نے سماج وادی پارٹی کے امیدوار اجیت پرساد کو شکست دی ہے۔ اجیت ایودھیا کے رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد کے بیٹے ہیں۔ اس سیٹ کے نتیجے پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں کیونکہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ نے اس سیٹ کو جتانے کی ذمہ داری خود لی تھی اور اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ ان کی کابینہ کے کئی وزرا بھی بی جے پی امیدوار کو جتانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ سماج وادی پارٹی نے الیکشن کے دوران سرکاری مشینری کے بے جا استعمال اور دھاندلی کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ سماجوادی لیڈر شیو پال یادو کی قیادت میں پارٹی کے ایک وفد نے یو پی کے چیف الیکشن افسر سے بھی ملاقات کی تھی لیکن نتیجہ بی جے پی کے حق میں ہی نکلا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ضمنی انتخابات میں برسر اقتدار جماعت کو برتری حاصل ہوتی ہے اسی لیے اسے اقتدار کا چناؤ بھی کہتے ہیں۔ مقامی رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد نے بیٹے کی ہار پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا بی جے پی نے بے ایمانی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہم نے کئی بار الیکشن کمیشن کے سامنے اپنی بات رکھی لیکن بے نتیجہ رہی۔
سنبھل کے معاملے میں سپریم کورٹ سے مایوسی
سنبھل کے باشندے محمد غیور نے سپریم کورٹ میں ان کی فیکٹری کا ایک حصہ منہدم کرنے والے افسروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی عرضی داخل کی تھی جسے سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ اس معاملے کو ہائی کورٹ زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا سکتا ہے۔ عرضی گزار کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ سنبھل کی مقامی انتظامیہ نے جنوری میں محمد غیور کی جائیداد کے ایک حصے کو پیشگی اطلاع دیے بغیر گرا دیا تھا۔ اس سے پہلے مشرقی یو پی کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے رویہ پر سختی کا مظاہرہ کیا تھا اور افسروں کو منہدم کی گئی جائیداد کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے غیر مجاز جائیداد کے انہدام سے پہلے پیشگی نوٹس جاری کرنے کی گائیڈ لائن جاری کی تھی۔ اس کی خلاف ورزی ہونے پر دائرہ اختیار رکھنے والی ہائی کورٹ شکایت کا ازالہ کر سکتی ہے۔
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوے یار میں
چھتیس گڑھ کے ضلع بستر کا ایک عجیب و غریب معاملہ سامنے آیا ہے جہاں ایک پادری کے بیٹے کو اپنے والد کی تدفین اور آخری رسومات ادا کرنے کے لیے ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک سے رجوع کرنا پڑا لیکن وہاں سے بھی اسے انصاف ملنے کے بجائے بٹا ہوا فیصلہ ملا ۔دراصل رمیش بگھیل کے والد نے اپنا آبائی مذہب ترک کر کے عیسائیت قبول کر لیا تھا۔ گزشتہ جنوری میں بیماری سے ان کی موت ہوئی تو بیٹے نے مقامی قبرستان میں انہیں دفن کرنا چاہا لیکن مقامی لوگوں نے یہ کہہ کر مخالفت کر دی کہ متوفی اپنا آبائی مذہب ترک کر چکا ہے اس لیے اسے اس قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا۔ پادری کے بیٹے نے مقامی انتظامیہ سے مداخلت کی درخواست کی تو انہوں نے میت کو کہیں اور دفن کرنے کا مشورہ دیا، تھک ہار کر بیٹے نے اپنے والد کی لاش کو میڈیکل کالج کی مارچری میں رکھوا دیا اور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ سے انصاف نہ ملنے پر معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے الگ الگ فیصلہ سنایا ہے۔ ایک جج نے کہا کہ پادری کو 20 کلومیٹر دور واقع عیسائی قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔ جبکہ دوسرے جج کی رائے ہے کہ پادری کو اس کی آبائی زمین میں دفن کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس ناگ رتنا نے اس معاملے کو مذہبی تعصب اور بھید بھاؤ کا واضح معاملہ قرار دیا ہے، جبکہ جسٹس شرما نے اسے محض ایک معاملہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ رمیش کے دادا کو 2007 میں گاؤں کے قبرستان میں ہی دفن کیا گیا اور اس کی چاچی کو بھی 2015 میں اسی قبرستان میں جگہ مل گئی تھی لیکن پادری ہونے کی وجہ سے اس کے والد کو قبر کے لیے دو گز زمین بھی نہ مل سکی۔ جبکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی زمین میں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کی خدمت اور بھلائی میں صرف کر دی۔ اس کیس نے بھارت میں حقیقی مذہبی آزادی سے متعلق کئی سوال اٹھا دیے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ دستور ہند نے بھارت کے ہر باشندے کو جب اپنی مرضی سے کوئی بھی مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیا ہے تو اس کے اس دستوری حق پر سماج کو سوال اٹھانے کا کیا مطلب ہے اور تنازعہ ہونے کی صورت میں عدالتیں اس کے حقوق کا تحفظ کیوں نہیں کرتی ہیں؟ کیا مرنے والا اپنے مذہب کے سبب مرنے کے بعد بھی رسوا کیا جائے گا؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025