
شمالی ہند میں مانسون کی آمد سے کاشت کاروں کے چہرے پر خوشی کے آثار
بہار اور یو پی میں سیاسی ہلچل تیز او بی سی اور دلت ووٹروں پر سب کی نگاہیں مرکوز
محمد ارشد ادیب
سنبھل تشدد پر پولیس کی چارج شیٹ داخل، ضیاء الرحمٰن برق کو بنایا گیا کلیدی ملزم
یو پی میں پرائمری اسکولوں پر خطروں کے بادل۔ 50 سے کم طلبہ والے اسکولوں کو ضم کرنے کی منصوبہ بندی!
اسرائیل میں پھنسے ہوئے یو پی اور ہریانہ کے مزدوروں کو واپس لانے کا مطالبہ۔ پٹرول پمپ پر پستول تاننے والی مسلم لڑکی کی سچائی
شمالی بھارت میں مانسون کا انتظار ختم ہوا، مانسونی بارشیں بہار کے راستے شمال کے میدانوں میں داخل ہو چکی ہیں۔ عوام کو گرم ہواؤں اور لُو سے راحت مل گئی ہے۔ بارش ہونے سے موسم بھی خوشگوار ہونے لگا ہے، خاص طور سے کاشت کار بہت خوش ہیں انہیں امسال اچھی فصل کی امید ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی بھی غیر ملکی دورے سے واپسی کے بعد بہار کا انتخابی دورہ کر چکے ہیں۔ بہار میں اس بار زبردست سیاسی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ سب کی نگاہیں او بی سی اور دلت ووٹروں پر ٹکی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم نے سیوان کی ریلی میں اس کا اشارہ دے بھی دیا ہے۔ انہوں نے بہار کی بربادی کے لیے آر جے ڈی اور کانگریس کو ذمہ دار بتاتے ہوئے عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے ہیں۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی صحت کی طرح ان کی پارٹی بھی کم زور ہوتی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کی جگہ پر ان کے بیٹے کو سیاست میں آگے کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بی جے پی چراغ پاسوان کو آگے کر کے سیاسی کھیل شروع کر چکی ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے انتخابات کے بعد نیا وزیر اعلیٰ چننے کا اشارہ دے دیا ہے۔ بہار کی اصل اپوزیشن پارٹی لالو یادو کی آر جے ڈی ہے لیکن اس میں بھی اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہے۔ تیج پرتاپ کو پارٹی اور خاندان سے نکالا جا چکا ہے۔ وہ اپنے ایکس ہینڈل پر بار بار کسی سازش کا ذکر کر رہے ہیں، وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ کہا نہیں جا سکتا، کُل ملا کر بہار کا سیاسی میدان سب کے لیے کھلا ہے جو جیتے گا وہی سکندر بنے گا ۔
یو پی میں سیاسی مورچہ بندی
بہار کے ساتھ یو پی میں بھی سیاسی مورچہ بندی شروع ہو گئی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ پچھلے دنوں پولیس بحالی کے سرٹیفکیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں لکھنو گئے تو وزیر اعلیٰ یوگی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کو بھی اپنا دوست بتایا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی کے لیے او بی سی ووٹ بہت اہم ہیں۔ کیشو پرساد موریہ اپنی پارٹی میں او بی سی کے سب سے بڑے لیڈر ہیں حالانکہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ انہیں پسند نہیں کرتے۔ کئی موقعوں پر دونوں کے سیاسی اختلافات بھی سامنے آ چکے ہیں لیکن دونوں کو ساتھ رکھنا مرکزی قیادت کے لیے ناگزیر ہے۔ واضح رہے کہ یو پی میں پنچایتی الیکشن کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ کابینہ نے ریزرویشن کے لیے پس ماندہ طبقات کمیشن کی تشکیل کو بھی منظوری دے دی ہے۔
پی ڈی اے میں مسلمانوں کی اہمیت
پارلیمنٹ کے پچھلے عام انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے پی ڈی اے فارمولا یعنی پچھلا دلت اور اقلیتوں کے سیاسی گٹھ جوڑ نے این ڈی اے کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ اکھلیش یادو ریاست کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں اسی فارمولے کو مزید مستحکم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی نے پچھلے دنوں پارٹی کے مسلم لیڈروں کے ساتھ لکھنو میں اہم مشاورت کی جس میں واضح کیا گیا کہ پارٹی 2027 کے اسمبلی انتخابات کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کے ساتھ لڑے گی۔ تاہم مغربی اتر پردیش میں کانگریس کے قد آور لیڈر عمران مسعود لگاتار سماج وادی پارٹی کے مقامی لیڈروں کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں جسے مستقبل کی سیاسی رسہ کشی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی بھی اپنا ووٹ بینک حاصل کرنے کے لیے مچل رہی ہیں۔ اس بار انہوں نے دوبارہ اپنے بھتیجے پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں پارٹی میں اہم ذمہ داری دی ہے۔
سنبھل میں تشدد کی چارج شیٹ داخل
یو پی کے ضلع سنبھل میں پچھلے سال نومبر میں جامع مسجد کے متنازعہ سروے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ مقامی مسلمانوں نے تشدد کے دوران پولیس پر زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اسے کئی نوجوانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار بتایا ہے۔ لیکن پولیس کی چارج شیٹ میں سماج وادی پارٹی کے مقامی رکن پارلیمنٹ ضیاءالرحمن برق اور جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈووکیٹ کلیدی ملزم بنائے گئے ہیں۔ 1200 صفحات پر مشتمل اس چارج شیٹ میں مسلمانوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سنبھل کے ایس پی کشن کمار بشنوئی کے مطابق اس معاملے میں کل 12 مقدمات قائم کیے گئے تھے جن میں سات پولیس کی جانب سے اور پانچ شہریوں کی طرف سے تھے۔ ان مقدمات کے 94 ملزموں کو گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ہے جب کہ باقی کی تلاش جاری ہے اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کا انتباہ دے دیا گیا ہے۔ رکن پارلیمنٹ ضیاءالرحمان برق پہلے ہی صفائی دے چکے ہیں کہ تشدد کی رات وہ شہر سے باہر تھے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری پر پیشگی روک بھی لگا رکھی ہے تاہم چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد ان کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ اے پی سی آر اس معاملے کے کیس نمبر 334 کے ملزم اظہر الدین کو الٰہ اباد ہائی کورٹ سے ضمانت دلا چکی ہے، مزید ملزموں کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
آزاد جنت نشاں اسکول کو ملی راحت
اے پی سی آر اتر پردیش مغرب کے کوآرڈینیٹر مشفق رضا نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی قانونی ٹیم سنبھل کے کئی معاملوں کی پیروی کر رہی ہے انہی میں سے ایک آزاد جنت نشاں اسکول کا مقدمہ بھی ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے عدالت کو یقین دلایا کہ فی الحال اسکول توڑنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، جو بھی کارروائی ہوگی قانون کے دائرے میں رہ کر ہوگی۔ آزاد جنت نشاں اسکول کے منیجر شاہ نواز عالم کے مطابق یہ ادارہ 1979 سے اسی مقام پر چل رہا ہے۔ ان کے والد نے تقریباً 45 سال پہلے نتھوا عرف گنگا پرساد سے یہ زمین خریدی تھی۔ جائیداد کے قانونی دستاویزات ان کے پاس ہیں اس کے باوجود فروختگان کے قانونی وارث نے اس جائیداد پر اپنا دعویٰ کر دیا۔ ضلع انتظامیہ نے اسکول انتظامیہ کو ہراساں کرتے ہوئے اسکول کے زمین خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سکول کے آگے راستے پر بھی قانونی وارثین کا قبضہ کرا دیا۔ مقامی ہندو تنظیمیں بھی ضلع انتظامیہ کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ اسکول انتظامیہ نے اے پی سی آر کی مدد سے الٰہ اباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کے مطابق مقامی انتظامیہ نے بِلا کسی قانونی جواز کے اسکول کا گیٹ اور کچھ کمرے توڑ دیے ہیں جس سے تقریبا 30 لاکھ روپے کا مالی نقصان ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اسکول اتر پردیش کے محکمہ تعلیم سے منظور شدہ ہے اور اس میں ہائی سکول تک کی تعلیم ہوتی ہے۔
اتر پردیش میں پرائمری اسکولوں پر خطروں کے بادل
اتر پردیش کا محکمہ بنیادی تعلیم پچاس طلبہ سے کم تعداد والے اسکولوں کو دوسرے اسکولوں میں ضم کرنے کی تجویز پر کام کر رہا ہے۔ کئی اضلاع میں اسکولوں کے سروے کارروائی پر اس کا انکشاف ہوا ہے۔ اساتذہ کی انجمنیں اور اپوزیشن جماعتیں سرکار کے اس اقدام کی پُر زور مخالفت کر رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق لکھنو کے قریب ایک اسکول کے انضمام پر مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تو لکھنو کے ضلعی تعلیمی افسر نے اسکول اسٹاف کو انتباہ دیتے ہوئے تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے اپنی پریس کانفرنس میں اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے سرکار کی نیت پر سوالات کھڑے کیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت دو لاکھ اساتذہ کی اسامیاں پُر کرنے کے بجائے ان کی تعداد کم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اسکولوں کو ضم کرنے سے بہت سے غریب بچے تعلیم سے محروم ہو جائیں گے اور اساتذہ کی تعداد بھی کم ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخاب سے قبل بھی 27 ہزار اسکول بند کرنے کی خبر وائرل ہو گئی تھی جس کے بعد ریاستی حکومت کو صفائی دینی پڑی لیکن اس بار اسکولی تعلیم کی ڈائریکٹر کنچن ورما نے بیان جاری کر کے کہا کہ جہاں والدین اور سرپرست رضامند ہوں گے وہیں اسکولوں کی پیئرنگ کی جائے گی۔ اساتذہ یونینوں کا ماننا ہے کہ پیئرنگ کے نام پر اسکول بند کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، کئی گاوؤں میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ مزید گرم ہو سکتا ہے۔
اسرائیل میں پھنسے ہوئے مزدوروں کو واپس لانے کا مطالبہ
ایران اسرائیل جنگ کے سبب بھارت کے بہت سے باشندے دونوں ملکوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایران پڑھنے گئے کچھ طلبہ کی وطن واپسی ہو چکی ہے ان میں اکثریت کشمیری طلبہ کی ہے لیکن اتر پردیش اور ہریانہ سے مزدوری کے لیے بھیجے گئے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بھارتی مزدوروں کو لانے کے لیے ایئر انڈیا کی فلائٹ سے خود جانا چاہیے۔ کانگریس لیڈر شاہ نواز عالم نے بھی مزدوروں کو جلد سے جلد وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں کسی بھی ترقی پذیر ملک نے اپنے شہریوں کو جنگ زدہ اسرائیل میں مزدوری کے لیے نہیں بھیجا ہے۔ صرف بھارت میں بی جی پی کے زیر اقتدار دو ریاستوں یو پی اور ہریانہ نے اپنے بے روزگار نوجوانوں کو اسرائیل بھیج کر ان کی جان کو خطرے میں ڈالا ہے۔ اب سرکار کی ذمہ داری ہے کہ انہیں وہاں سے بحفاظت واپس لانے کا انتظام کرے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق وزارت خارجہ اسرائیل سے ہندوستانی باشندوں کو بحفاظت نکالنے کا انتظام کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مزدوروں کو اسرائیل بھیجنے کے فیصلے کو اپنی حکومت کی بڑی حصول یابی بتایا تھا۔ انہوں نے اسمبلی ہاؤس میں اس اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے بے روزگار نوجوانوں کو سنہری خواب دکھائے تھے۔ اگر ان نوجوانوں کو اپنے وطن میں روزگار مل جاتا تو ایک ایسے ملک میں جا کر کیوں پھنستے جو ہمیشہ حالت جنگ میں رہتا ہے۔
پٹرول پمپ پر پستول نکالنے والی اریبا خان کی سچائی
ہردوئی کی ریوالور گرل اریبا خان نے وائرل ویڈیو کی سچائی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نیٹ کوالیفائی کر چکی ہے اور میڈیکل کی پڑھائی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے اس سے پہلے کبھی بھی پستول استعمال نہیں کیا لیکن اس دن پٹرول پمپ کے ملازمین نے اس کے والد احسان خان اور اس کی فیملی سے اتنی بد تمیزی کی کہ اسے اپنے دفاع میں پستول نکالنی پڑی۔ اریبہ خان کے مطابق پٹرول پمپ کا ملازم شراب کے نشے میں تھا اور اس نے پوری فیملی کو کار سمیت پھونکنے کی دھمکی دی تھی۔ واضح رہے کہ پٹرول پمپ پر سی این جی بھروانے کے دوران فریقین میں کہا سنی ہو گئی تھی جس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا جس کی ویڈیو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی۔ ان تصویروں میں اریبہ خان کو دبنگ گرل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ اریبہ خان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں یہ قدم اٹھایا تھا۔
تو صاحبو، یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025