شمال کا حال:اترپردیش: قانون کی دھجیاں اڑاتی ہوئی پولیس

شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین پامالی کی ایک اور مثال

(دعوت نیوز ڈیسک)

جھوٹ اور فرضی بنیاد پر این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت سلیمان کو گرفتار کیا گیا تھا
پولیس کی ناقص کارگردگی سے غریب خاندان مصیبتوں کا شکار
اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بھارت میں پولیس کی شبیہ اچھی نہیں ہے اور خاص طور پر یو پی کی پولیس تو ظلم و ستم کے لیے دنیا بھر میں بدنام ہے۔ ہاتھرس عصمت ریزی و قتل معاملہ ہو یا پھر متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف چوراہوں پر نوٹس بورڈ لگوانے کا واقعہ ہو، ہر اعتبار سے یو پی پولیس نے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔
یو پی پولیس کی نا اہلی کا تازہ واقعہ مرزا پور میں اس وقت پیش آیا جب اس نے 29 جون 2021 کی رات ضلع مرزا پور کے امام باڑا کے رہائشی بیس سالہ سلیمان کو 79 گرام ‘الپرازولم پاؤڈر’ (نشہ آور دوا) کے ساتھ گرفتار کیا۔ این ڈی پی ایس (نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک مادہ ایکٹ، 1985) کے تحت کیس کٹرا کوتوالی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے عجلت میں ایسے جرائم کا بنڈل عدالت کے سامنے پیش کیا جس کا سلیمان سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود سلیمان تقریباً چھ ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہا۔ دوسری جانب سلیمان کی والدہ افسانہ سلیمان کو جیل سے چھڑانے کی کوشش میں لگی رہیں۔ سلیمان کی والدہ افسانہ، نے دی کوئنٹ ہندی کو بتایا کہ ’’سلیمان آٹو رکشا چلاتا تھا اور روزانہ دو سو روپے کماتا تھا، جب سے وہ جیل گیا ہے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو گیا ہے، چھ ماہ بعد پہلی بار جب وہ جیل سے باہر آیا تو ہم نے سوچا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ سلیمان دوبارہ کام کرنے لگا لیکن ایک رات دو پولیس والے آئے اور سلیمان سے کہا کہ صاحب نے بلایا ہے، وجہ پوچھنے پر کچھ بتانے سے انکار کر دیا‘‘۔
اس کے بعد اگلے روز سلیمان کا چالان ہوا اور وہ دوبارہ جیل چلا گیا۔ پریشان سلیمان کی والدہ نے اپنے وکیل سے رابطہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ دو بار پیش نہیں ہوا اس لیے وارنٹ جاری کر دیا گیا۔
اس بار پھر سلیمان نے تقریباً چار ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ 21 دسمبر کو سلیمان اس وقت جیل سے رہا ہو کر گھر آیا جب ایڈیشنل سیشن جج ایف ٹی سی آئی وایونندن مشرا نے فیصلہ سناتے ہوئے اسے رہا کیا۔
جج کا قابل ستائش فیصلہ:
سلیمان کے وکیل آکاش پرتاپ سنگھ نے کہا کہ پولیس نے عدالت کے سامنے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور نہ ہی این ڈی پی ایس ایکٹ کی دفعات پر عمل کیا۔ عدالت میں ایسے کیسز بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے فاسٹ ٹریک کورٹ کے پہلے جج وایونندن مشرا نے ایک بہت اچھے فیصلے کے ذریعہ ایک معصوم اور انتہائی غریب خاندان کو انصاف دلایا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سلیمان کے معاملے میں ایف ٹی سی کے پہلے جج وایونندن مشرا نے اس معاملے میں سب انسپکٹر ہریکیش رام آزاد، ہیڈ کانسٹیبل شوکت علی اور کانسٹیبل پنکج دوبے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ تادیبی اور نگران افسروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں ایک ماہ کے اندر عدالت کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے بھی کہا۔ جسٹس وایونندن مشرا نے یو پی حکومت کو کارروائی کے لیے خط بھیجا ہے۔
خط میں مرزا پور پولیس کی کارگردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اس وقت شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین پامالی کی جا رہی ہے۔ قانون کی حکم رانی کو پولیس کی حکم رانی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پولیس افسروں کو بار بار آگاہ کرنے کے باوجود اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سلیمان کی والدہ دوسرے کے گھروں میں کام کرتی ہیں
سلیمان کا خاندان یومیہ اجرت پر کام کرتا ہے۔ سلیمان آٹو رکشا ڈرائیور ہے، والدہ محلے کے لوگوں کے گھروں میں برتن صاف کرتی ہیں۔ ان کے بیٹے کے جیل جانے سے انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گھر میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ضمانت نہ ہو سکی۔
سلیمان کی والدہ نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی ضمانت کے لیے پچیس ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کمرے میں گھر کے تمام افراد زمین پر چار پائی ڈال کر سوتے ہیں۔ ان کا خاندان تاریکی میں زندگی گزار رہا ہے کیونکہ ان کے پاس بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، وہ گیس کنکشن اور راشن کارڈ کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔
این ڈی پی ایس کے تحت گرفتار شدگان کے اعداد وشمار:
نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک مادہ ایکٹ، 1985 اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ لوگ نشہ آور مادوں سے دور رہیں نہ اس لیے کہ فرضی اور جھوٹے کیس لگا کر بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں میں قید کر دیا جائے؟ رپورٹس کے مطابق بھارت کی جیلوں میں بند 2,58,883 قیدیوں میں سے دس فیصد سے زیادہ NDPS ایکٹ کے تحت کیس میں گرفتار ہیں۔ خصوصی اور مقامی قوانین کے تحت 71,513 زیر سماعت قیدیوں میں سے 41,985 یا 58.7 فیصد شراب اور نشہ آور ادویات سے متعلق قوانین کےتحت ہیں۔ اس تعداد میں NDPS ایکٹ 1985 کی دفعات کے تحت ملزمين بھی شامل ہیں۔ این ڈی پی ایس ایکٹ قتل کے بعد (65,184) عصمت دری (34,368) اور چوری (30,606) کے بعد کسی بھی جرم کے لیے زیر سماعت قیدیوں کی چوتھی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ان قیدیوں میں سے کتنے قصور وار ہیں اور کتنے بے قصور ہیں اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن یہ ضرور ہونا چاہیے کہ بے گناہ ثابت ہونے پر انہیں معاوضہ دیا جائے، کیوں کہ پولیس کی ناکامی اور نااہلی کا خمیازہ عوام کیوں بھگتے وہ بھی غریب عوام؟
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023