
شمال مشرق سے لے کر جنوب تک متنازعہ وقف قانون کے خلاف مظاہرے
ملت کے اجتماعی شعور میں بیداری۔ اپنے تشخص اور دینی و تہذیبی ورثے کے تحفظ کا عزم
(دعوت نیوز بیورو)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملت کے اجتماعی شعور میں ایک تازہ بیداری نے جنم لیا ہے۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف جو احتجاجی تحریک ابھری ہے، وہ محض کسی متنازعہ قانون کی برائے نام مخالفت نہیں بلکہ اپنے تشخص، اپنی تہذیب اور اپنے دینی و تہذیبی ورثے کے تحفظ کا عہد ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ یہ بیداری محدود علاقوں یا جماعتوں تک نہیں رہی بلکہ ملک کے مختلف حصوں سے — شمال مشرق سے لے کر جنوب تک — با وقار، پر عزم اور متحد آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
حیدرآباد میں کانگریس کا احتجاج اور ملی قائدین کی مشاورت
وقف ترمیمی قانون کے خلاف حیدرآباد میں دو مختلف مگر یکساں فکر کی حامل سرگرمیاں منظر عام پر آئیں، جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ ملت کے اندر نہ صرف بیداری آ رہی ہے بلکہ اس بیداری کو منظم شکل دینے کی سنجیدہ کوششیں بھی جاری ہیں۔
ایک طرف نامپلی کے ریڈ روز فنکشن ہال میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی اپیل پر ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف ملی تنظیموں، شخصیات اور مذہبی قیادت نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داروں کی موجودگی نے اس مشاورت کو فکری گہرائی عطا کی اور یہ احساس پیدا کیا کہ ملت اب محض خطابات کی سطح پر نہیں بلکہ عملی میدان میں حکمت عملی کے ساتھ قدم رکھ رہی ہے۔
اجلاس میں طے پایا کہ احتجاجی تحریک کو جذباتی ردعمل کی بجائے فکری بنیادوں پر استوار کیا جائے، تاکہ یہ آواز دیر پا اور مؤثر بن سکے۔ شرکاء نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ وقف کی حفاظت صرف قانونی تقاضا نہیں بلکہ ایمانی فریضہ بھی ہے اور ملت کو ہر سطح پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ یہ پہلو خوش آئند ہے کہ احتجاج سے قبل تدبیر اور حکمت عملی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ جب قیادت محض جوش نہیں بلکہ شعور اور تدبر کے ساتھ سامنے آتی ہے تو تحریکیں وقتی ابال کا شکار ہونے کے بجائے منزل کی سمت بڑھتی ہیں۔ قبل ازیں مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمعہ کے بعد مختلف مساجد جیسے مسجد اجالے شاہ سعیدآباد، مسجد میر مومن، مسجد عزیزیہ ہمایوں نگر وغیرہ میں انسانی زنجیر بنا کر اور گروپ کی شکل میں مسلمانوں نے پر امن احتجاج کیا۔
دوسری جانب ٹینک بنڈ پر کانگریس پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پلے کارڈز اور نعرے بازی کے ذریعے اپنے غصے و ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہ پر امن دھرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اب سیاسی حلقوں میں بھی اس قانون کے مضمرات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کانگریس نے واضح کیا کہ یہ ترمیم اقلیتوں کے مذہبی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس احتجاج میں برادران وطن بھی شریک رہے۔ غیر مسلم سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس قانون پر تنقید اور احتجاج نہایت حوصلہ افزا ہے۔ یہ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ اقلیتوں کی خود مختاری اور تشخص کا مسئلہ ہے، اور جب اس مسئلے میں وہ لوگ بھی شریک ہو رہے ہیں جو ملت کا براہ راست حصہ نہیں ہیں، یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ معاملہ اخلاقی اور آئینی سطح پر بھی انتہائی سنگین ہے۔
تریپورہ کے علاقوں میں زبردست احتجاج
وقف ترمیمی قانون کے خلاف تریپورہ میں ہونے والے احتجاج نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب بغیر اجازت نکالی گئی ریلی کے دوران مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں میں جھڑپ ہو گئی۔ دھرم نگر، کیلاش نگر اور تِلا بازار جیسے علاقوں میں احتجاج کی قیادت کانگریس کے ضلعی صدر بدرالزمان کر رہے تھے۔ اس دوران کئی مقامات پر پتھراؤ اور بوتلیں پھینکنے کے واقعات پیش آئے، جس کے نتیجے میں ایس ڈی پی او جینتا کرم کر سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس اور ہلکی لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔ اس واقعے کے بعد کئی مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔ بدرالزمان نے الزام لگایا کہ پتھراؤ ریلی کے شرکاء نے نہیں بلکہ ارد گرد کے مکانات سے نامعلوم افراد نے کیا، اور یہ کہ احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ وقف جیسے اہم مسئلے پر مسلم قیادت نہ صرف متحرک ہے بلکہ اپنے مؤقف کی وضاحت اور وضعداری سے پیروی بھی کر رہی ہے۔ کانگریس جیسے سیکولر پلیٹ فارم سے آواز اٹھانا بھی ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف مذہبی نہیں بلکہ آئینی و انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔
منی پور میں احتجاج کی لہر
منی پور میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی لہر متواتر پانچویں دن بھی برقرار تھی ۔ مختلف اضلاع میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل کر "بی جے پی ڈاؤن ڈاؤن” اور "ہمارا وقف، ہمارا حق” جیسے نعرے لگائے۔ سب سے بڑی ریلی سنتھل (ضلع کاکچنگ) میں نکالی گئی، جب کہ امپھال ایسٹ کے کھیراو اور شیترگاؤ میں بھی بڑے پیمانے پر عوامی اجتماع دیکھنے میں آیا۔
احتجاجی مظاہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے پتلے نذر آتش کیے، جو اس بات کی علامت ہے کہ عوام کی ناراضی محض رسمی نہیں بلکہ گہری تشویش پر مبنی ہے۔
کھیراو میں منعقدہ ریلی میں ایم ایل اے شیخ نور الحسن نے فعال شرکت کرتے ہوئے قانون کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کرنے والے منی پور کے پہلے رکن اسمبلی ہیں، اور انہیں امید ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پر تاریخی فیصلہ دے گی۔
منی پور جیسے دور دراز علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں عوام کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملت بیدار ہو چکی ہے، اور اب حقوق کے تحفظ کی خاطر ہر ممکن اقدام کے لیے تیار ہے۔ یہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک پرامن تحریک ہے جسے بہرحال کامیاب بنانے کے لیے اگر کچھ قربانیاں بھی دینی پڑیں تو ملت کو تیار رہنا ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025