شمال مشرقی دلی کی لوک سبھا سیٹ ہاٹ سیٹ کیوں بن گئی!!

جو علاقے کبھی فسادات کی زد میں تھے وہاں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ووٹ کا صحیح استعمال ہونا چاہیے!

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

کنہیا کمار اور منوج تیواری کے درمیان ہونے والا مقابلہ متعدد تصاویر صاف کر دے گا
دلی میں سات لوک سبھا سیٹوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔ جہاں 2014 میں بی جے پی کو گزشتہ 2009 کے مقابلے میں 11.17 فیصد اضافہ کے ساتھ 46.4 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے برخلاف اس کے کانگریس کو 42.01 فیصد نقصان کے ساتھ 15.10 فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوا تھا ۔وہیں عام آدمی پارٹی کو 32.90 فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں 2009 میں تمام سات لوک سبھا سیٹیں کانگریس کے پاس تھیں وہیں 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کی بڑی تقسیم کے بعد یہ سیٹیں بی جے پی کی جھولی میں آگئی تھیں۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے بی جے پی کے امیدوار پرویش صاحب سنگھ ورما کو 2,68,586 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سال 2019 کے انتخابات میں بھی بی جے پی کو تمام سات لوک سبھا سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔نیز دلی کی مقبول ترین کانگریس رہنما اور پندرہ سال تک چیف منسٹر رہنے والی شیلا دکشت کو بی جے پی کے امیدوار منوج تیواری نے 3,66,102 کے فرق کے ساتھ کل 7,87,799 ووٹ حاصل کرکے ہرا دیا تھا۔ منوج تیواری کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ وہ 2014 اور اس کے بعد 2019 دونوں مرتبہ بالترتیب 5 لاکھ 96 ہزار اور 7 لاکھ 97 ہزار کے بڑے فرق کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں صرف منوج تیواری ہی ایسے امیدوار ہیں جنہیں بی جے پی نے دلی سے تیسری مرتبہ کھڑا کیا ہے۔
شمال مشرقی دلی لوک سبھا سیٹ پہلی مرتبہ 2008 کے عام انتخابات میں پارلیمنٹری سیٹ کی حیثیت سے سامنے آئی تھی۔ دلی کے پارلیمانی حلقوں کی تشکیل نو کے بعد اسے تشکیل دیا گیا تھا، شمال مشرقی دلی ایک اہم انتخابی میدان کے طور پر ابھری جس میں دس اسمبلی حلقے براری، تیمار پور، سیما پوری، روہتاس نگر، سیلم پور، گھونڈا، بابرپوری، گوکل پوری، مصطفی آباد اور کراول نگر شامل ہیں۔ یہ حلقہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اپنی گھنی آبادی کے لیے قابل ذکر، صنعتی اور زرعی اقتصادی بنیادوں کے امتزاج کے ساتھ دلی کے متنوع سماجی و اقتصادی منظر نامے کا آئینہ دار ہے۔ 2009 میں الیکشن کمیشن کی طرف سے تفصیلی ووٹر ڈیموگرافک، انتخابی عمل میں مردوں و عورتوں دونوں کی شرکت اور نمائندگی کو واضح کرتا ہے۔اگر مذہب کی بنیاد پر آبادی کی بات کی جائے تو شمال مشرقی دلی ضلع کی سرکاری مردم شماری 2011 اور آبادی کے اعداد و شمار 2024 کے مطابق یہاں ہندو اکثریت میں ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق شمال مشرقی دلی کی کل آبادی 2,241,624 تھی جس میں 68.22 فیصد ہندو اور 29.34 فیصد فیصد مسلمان تھے۔یہ کل آبادی حلقہ کی آبادی کا 97.56 فیصد حصہ ہے۔دوسری جانب شمال مشرقی دلی کی دس اسمبلی حلقوں میں سات مقامات پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ ہے اور تین مقامات (روہتاس نگر، گھونڈا اور کراول نگر) میں بی جے پی کا قبضہ ہے۔ جبکہ سیما پوری اور گوکل پوری کو درج فہرست امیدواروں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے کیونکہ یہاں ایک بڑی تعداد درج فہرست افراد پر مشتمل ہے۔ جاریہ لوک سبھا الیکشن میں 23 لاکھ 81 ہزار ووٹرس اپنے ووٹ کے ذریعہ اس حلقہ میں پارٹی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
کانگریس پارٹی کے امیدوار کنہیا کمار 37 سالہ نوجوان ہیں جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کے طور پر مقبول رہے ہیں۔ وہ شمال مشرقی دلی سے اپنی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے مد مقابل موجودہ بی جے پی ایم پی منوج تیواری ہیں، جو ایک معروف بھوجپوری اداکار اور گلوکار ہیں۔ کنہیا کمار کا سیاسی سفر بہار کے ضلع بیگو سرائے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کی نمائندگی کرنے والی سیٹ سے 2019 میں انتخاب لڑنے سے شروع ہوا تھا جہاں پرجوش مہم کے باوجود انہیں بی جے پی کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے اور اب 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ دوسری جانب منوج تیواری شمال مشرقی دلی کی لوک سبھا سیٹ سے تیسری مرتبہ بھی جیت کے خواہاں ہیں۔ جیسے جیسے انتخابی معرکہ تیز ہوتا جا رہا ہے ان دونوں کے درمیان زبردست مقابلے کا میدان بھی تیار ہو چکا ہے ۔
کنہیا کمار نے اپنی مہم میں کلیدی مسائل کا خاکہ پیش کیا ہے۔ این ڈی اے حکومت کو جمہوری اداروں کو کمزور کرنے اور معاشی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، معاشی چیلنجوں اور بی جے پی کے ادھورے وعدوں کو قومی تشویش کے طور پر پیش کیا ہے۔ مقامی مسائل جیسے ٹریفک جام، امن و امان کے مسائل اور انفراسٹرکچر کی خستہ صورتحال کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ہی موجودہ رکن
پارلیمنٹ کی پارلیمانی مصروفیت کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں مؤثر نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا۔کنہیا کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU) سے ایم فل اور ڈی فل کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ کنہیا کمار کو تقریباً آٹھ سال قبل اس وقت قومی توجہ حاصل ہوئی تھی جب جے این یو، کچھ طلباء کی طرف سے اٹھائے گئے مبینہ ہندوستان مخالف نعروں پر تنازعات میں گِھر گیا تھا۔ اس وقت جے این یو طلباء یونین کے صدر کے طور پر کنہیا کمار اس بحث میں سب سے آگے تھے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہی لوک سبھا حلقہ ہے جہاں سنہ 2020 کی ابتدا میں بدترین فسادات کروائے گئے تھے۔ اور یہ اس وقت ہوئے تھے جبکہ ملک بھر میں احتجاج برائے شہریت ترمیم قانون ہو رہا تھا ۔اس وقت بر سراقتدار جماعت نے احتجاج کو روکنے، اسے کمزور کرنے اور اس کا رخ پھیرنے کی ہر ممکن کوششیں کی تھیں اور اسے کامیابی اس وقت ملی تھی جبکہ شمال مشرقی دلی میں فرقہ وارانہ فساد ات شروع ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہوئی اور 300 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ بے گھر اور ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ان فسادات میں بے شمار تکلیف دہ ویڈیوز، تصاویر اور واقعات سامنے آئے۔ محکمہ داخلہ نے بھی ایسے سات ویڈیو کلپس دلی پولیس کو سونپے جن میں دلی فسادات کے دوران دو پولیس اہلکار فسادیوں کے ساتھ مل کر اینٹ اور انڈے پھینک رہے تھے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایک ویڈیو میں کوئی پولیس اہلکار پانچ زخمی لوگوں کو زمین پر لٹا کر ان کو قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ اس ویڈیو پر دلی پولیس نے کہا کہ کرائم برانچ کی اسپیشل جانچ ٹیم کے ذریعے جانچ کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ویڈیو میں ہتھیاروں سے لیس کچھ پولیس اہلکار فسادیوں کے ساتھ اینٹ پھینکتے دیکھے گئے۔ ویڈیو میں فسادیوں اور پولیس اہلکاروں کے چہرے بھی صاف دیکھے گئے تھے۔ ویڈیو میں پولیس کا آؤٹ پوسٹ بھی دکھائی دے رہا تھا جس سے جائے وقوع کی تصدیق ہوتی تھی لیکن ان سب کے باوجود پولیس ان معاملات کی جانچ کرتی رہی، یہاں تک کہ جو نوجوان شہریت ترمیم قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے ان میں سے ایک بڑی تعداد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دی گئی۔ فسادات کچھ مدت بعد ختم ہوگئے لیکن متاثرین آج بھی ان واقعات کو یاد کر کے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
پولیس پر اٹھنے والے مختلف سوالوں کی تصدیق کرنے کے لیے دی وائر (نیوز ایجنسی) نے کئی آر ٹی آئی درخواستیں دائر کرکے فسادات کے دوران پولیس کے ذریعے لیے گئے فیصلے اور ان کی کارروائی کے بارے میں جانکاری طلب کی تھی لیکن پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ کی اطلاع دینے کی چھوٹ سے متعلق دفعات کا ’غیر قانونی‘ استعمال کرتے ہوئے اور اس سے لوگوں کی جان خطرے میں ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے فسادات سے متعلق کئی اہم اطلاعات کا انکشاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس کے علاوہ پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت متعین 30 دن اور زندگی اور موت کے معاملے میں 48 گھنٹے کے اندر جواب دینے کی مدت کی بھی خلاف ورزی کی اور تقریباً 60 دنوں بعد یہ غیر متعلق جواب بھیجا تھا۔آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوالات یہ تھے: i) چوبیس سے ستائیس فروری 2020 کے درمیان شمال مشرقی علاقوں میں ہونے والے تشدد میں دلی پولیس نے کل کتنی گولیاں چلائیں؟ فساد سے متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار جانکاری دی جائے۔ ii) پولیس نے کل کتنے آنسو گیس، ربر بلیٹس اور واٹر کینن کا استعمال کیا؟ فساد سے متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار جانکاری دی جائے۔ iii) ان علاقوں میں پولیس کے کل کتنے جوانوں کی تعیناتی کی گئی تھی؟ فساد سے متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار اور دنوں کے لحاظ سے جانکاری دی جائے۔ iv) اس دوران تشدد سے متعلق کل کتنے فون کالس شمال مشرقی دلی کے کن کن علاقوں سے آئے تھے؟ ان کالس پر دلی پولیس نے کیا کارروائی کی؟ v) فسادات کے سبھی ملزمین کے نام، آئی آر نمبر اور تھانے کے نام کے ساتھ درج کرنے کی تاریخ کی جانکاری دی جائے۔ اس کے علاوہ اس تشدد میں مارے جانے اور زخمی ہونے والے تمام افراد کے نام، پتے اور عمر کی تفصیلات دی جائے۔
دی وائر نے زخمی ہونے والے سبھی پولیس اہلکاروں کے نام، عہدہ اور زخم کی نوعیت سے متعلق جانکاری بھی مانگی تھی مگر دلی پولیس کی شمال مشرقی ضلع کے پبلک انفارمیشن آفیسر اور ایڈیشنل ڈپٹی پولیس کمشنر ایم اے رضوی نے آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1) (جی، جے اور ایچ) کا سہارا لیتے ہوئے ان سبھی نکات پر جانکاری دینے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے 30 مارچ کو بھیجے آر ٹی آئی کے جواب میں کہا کہ ‘سبھی ایس ایچ او/این ای ڈی کے ذریعے دی گئی رپورٹ کے مطابق مانگی گئی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کی دفعہ 8(1)(جی، جے اور ایچ) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔
ان فسادات نے نہ صرف شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کو رکوا دیا بلکہ بے شمار نوجوان جو ان میں سرگرم تھے اور ملک میں شہریت کے مسئلہ پر گفتگو کر رہے تھے ان کے خلاف بھی مقدمات کی ایک لمبی لائن لگا دی۔ یہاں تک کہ آج چار سال مکمل ہونے کو ہیں مگر اس کے باوجود ایسے بے شمار نوجوان ہیں جو آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان میں کئی نوجوان ایسے بھی ہیں جو کبھی راست یا بلا واسطہ کنہیا کمار کے ساتھ مختلف مظاہروں میں شامل تھے۔ آج کنہیا کمار اسی شمال مشرقی دلی کی پارلیمانی سیٹ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں جہاں حد درجہ تکلیف دہ فسادات ہوئے تھے۔ کنہیا کمار کے ساتھیوں میں ایک نمایاں نام عمر خالد کا بھی ہے جو آج بھی جیل میں بند ہیں۔ عدالت میں سماعت پر سماعت ہو رہی ہے اور دلائل اور قانونی بحث و مباحثہ کے باوجود وہ ضمانت پر باہر نہیں آ پا رہے ہیں۔ جبکہ ہنومان بھکت آج جیل سے نکلنے کے بعد دلی کے کناٹ پلیس ہنومان مندر سے اپنی سیاسی زمین کی تلاش میں نکل چکے ہیں۔ اور مسلمانوں کو کوئی مسئلہ بھی نہیں کہ کون کس کی پوجا یا عبادت کرتا ہے، یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن جس طرح دلی فسادات کے وقت ایک مسجد کے مینار پر ہنومان کا جھنڈا نصب کیا جا رہا تھا اور وہ خاموش تھے اس کے باوجود کہ دلی میں وہ بڑی اکثریت کے ساتھ ریاستی حکومت چلا رہے تھے۔ آج ایک بار پھر مسلمانوں کے سامنے ملک کی سیاسی بساط بچھ چکی ہے اور وہ متحد ہیں کہ برسر اقتدار جماعت جس نے ملک کے تمام شہریوں کو ہر سطح پر نقصان پہنچایا ہے اور جو’ زمین میں فساد پھیلانے‘ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے تو ملک اور اہل ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہیں حکومت میں آنے سے روکیں اور اپنے ووٹ کا استعمال ان سیاسی پارٹیوں اور ان کے نمائندوں کے لیے کریں جو موجودہ مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت دلی کی شمال مشرقی لوک سبھا سیٹ اس وقت ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔جہاں بظاہر کانگریس اور عام آدمی پارٹی کا اتحاد بھی مستحکم ہوتا نظر آرہا ہے۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو گزشتہ کی طرح اس مرتبہ بھی اگر وہی ووٹ شیئر حاصل ہوا جسے انڈیا الائنس کا ووٹ شیئر کہا جاسکتا ہے تب بھی کنہیا کمار کی کامیابی بظاہر نظر نہیں آتی۔ اگر کنہیا کمار کو اپنی جیت درج کروانی ہے تو عام آدمی پارٹی کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہونا چاہیے اور کانگریس کے ووٹ شیئر میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر انڈیا الائنس کو بی جے پی کے ووٹ شیئر کے مقابلے آگے نکلنا ہوگا۔ اس پس منظر میں یہ مقابلہ بہت دلچسپ اور اہم ہے۔ ایک جانب ملک کی صورتحال اچھی نہیں ہے تو دوسری جانب نوجوان اور عوام مہنگائی، بے روزگاری، سماجی انتشار، نفرت اور روزمرہ کے مسائل سے دوچار ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ شمال مشرقی دلی کے عوام اگر چاہتے ہیں کہ یہاں سے برسر اقتدار جماعت کا ایم پی برخاست ہو تو انہیں بڑے پیمانے پر ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024