شمال کا حال:بہار کے گیا میں موب لنچنگ
مسلم نوجوان کی ہلاکت پر موضع میں غم وغصہ۔دو نوجوانوں کی حالت نازک
پٹنہ: (دعوت نیوز نیٹ ورک)
بہار کے ضلع گیا میں تیئیس فروری کو ہجومی تشدد کا ایک اور دردناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک مسلم نوجوان کی موت ہو گئی جبکہ دیگر دو افراد شدید زخمی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ بہار کے ضلع گیا کے بارچھٹی بلاک کا ہے۔ اس حملے میں محمد بابر عمر اٹھائیس سال ہلاک ہو گئے، جبکہ دو دیگر نوجوان رکن الدین عالم بتیس سال اور محمد ساجد شدید زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق تین مسلم نوجوانوں کو ہجوم نے چوری کے الزام میں بے دردی سے پیٹا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں چور ہونے کے شبہ میں مارا پیٹا گیا۔ لیکن متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ کہیں سے واپس آرہے تھے اور مقامی جھگڑے کی وجہ سے انہیں مارا پیٹا گیا۔ دیگر ذرائع نے بتایا کہ تینوں نوجوان نیل گائے کا شکار کرنے کے لیے نکلے تھے۔
بتایا جا رہا ہے کہ گاؤں والوں نے نوجوانوں کو پکڑ لیا اور پھر کئی گھنٹوں تک بے رحمی سے مارا پیٹا۔ گاؤں والوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے تینوں نوجوانوں کو ہتھیاروں کے ساتھ پکڑا تھا۔ ایک مقامی صحافی نے کہا ’’کچھ لوگ جو اس وقت اپنے کھیتوں کو سیراب کر رہے تھے، انہیں دیکھا اور پکڑنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے ان کا پیچھا کیا اور میدان میں شور مچا دیا، جس سے ہجوم جمع ہو گیا، پھر بھیڑ نے انہیں مارا پیٹا اور یہ سمجھ کر باہر پھینک دیا کہ وہ مر گئے ہیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ واقعے کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کر دیا گیا جس کے بعد انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ جہاں شدید زخمی اٹھائیس سالہ محمد بابر دم توڑ گیا۔ اس واقعے میں زخمی ہونے والے دیگر دو نوجوانوں ساجد اور رکن الدین کی حالت نازک بنی ہوئی ہے، انہیں پہلے انوگرہ نارائن مگدھ میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن ان کی حالت تشویشناک ہونے پر انہیں پٹنہ اسپتال سے رجوع کیا گیا ہے۔گیا کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آشیش کمار بھارتی نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے موقع سے ایک اسکارپیو کار، تین کارتوس، ایک چاقو اور ایک بم برآمد کیا ہے۔ گیا پولیس کے مطابق زخمی نوجوانوں ساجد اور رکن الدین کے خلاف بیلہ پولیس اسٹیشن میں پہلے ہی سے مقدمات درج ہیں۔
بہار اقلیتی کمیشن کے سابق ایڈمنسٹریٹر اور اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سید شریم علی نے الزام عائد کیا کہ چوری کی وارداتوں کو پولیس قابو میں کر نہیں کرتی اور اصل مجرم پکڑے نہیں جاتے جب کہ ہجوم نے تین بے قصور نوجوانوں پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کے لیے پولیس کی بے عملی کو ذمہ دار ٹھیرایا۔ انہوں نے مشتبہ چوری سے متعلق پولیس کے بیانیے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی چور، چوری کرنے کے لیے اسکارپیو وین نہیں لے جاتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نفرت کا ماحول ایک وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ متاثرین مسلمان ہیں۔ ’’ہمیں شبہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی مسلم مخالف تنظیم ہو سکتی ہے‘‘۔ شریم نے ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سخت سزا کے بغیر ماب لنچنگ کے واقعات کو روکنا مشکل ہے۔
مقامی صحافی سرتاج عالم کا کہنا ہے کہ مقتول محمد بابر نے چوکیدار بلدیو کو مرنے سے قبل اپنے بیان میں سارا واقعہ کہہ سنایا۔ بلدیو کے مطابق بابر نے بتایا کہ وہ گاڑی چلانے کے لیے نکلے تھے اور ڈیہا گاؤں میں کھینی بنانے کے لیے اپنی گاڑی سے نیچے اترے تھے۔ بلدیو کے مطابق بابر نے کہا ’’لیکن اچانک کچھ لوگوں نے ’’چور چور‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا اور جلد ہی ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا جس نے ہم پر حملہ کر دیا۔
ایک مقامی لیڈر صبغت اللہ خاں نے کہا کہ پولیس مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ دے رہی ہے کہ متاثرین کی جرم کی تاریخ کیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جائے وقوع سے پولیس کو دستیاب اشیاء کی فہرست مشکوک ہے۔ پولیس کے مطابق متوفی محمد بابر کے خلاف کسی قسم کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔
مقتولین کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ نوجوان بے قصور ہیں اور ان پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔
ایس ایس پی بھارتی نے بتایا کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہوئے پولیس نے مجرموں کو پکڑنے کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے اور اے ایس پی نے جائے وقوعہ کا معائنہ بھی کیا ہے۔
سی پی آئی کے ضلع سکریٹری نرنجن کمار نے ضلع کمیٹی کے ممبر اور بیلا گنج کے لیڈر موندریکا رام اور اے آئی ایس اے لیڈر محمد شیر جہاں نے بھی ہجومی تشدد کے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری اور مرنے والوں کے لواحقین کو بیس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مسلم نوجوانوں پر حملے کے اس واقعہ سے علاقے کے لوگوں میں کافی غصہ ہے، لوگ حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے پس پردہ سیاسی محرکات بھی ہوسکتے ہیں تاکہ آئندہ سال عام انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہو اور نتیش کمار کی زیرقیادت حکومت سے مسلم اقلیت کو بدظن کیا جائے جنہوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد توڑ کر لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتادل کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023