شمالی ہند میں شکست : راہل گاندھی کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت

عوام کو سیاسی مخالفین کی تضحیک نہیں ترقی کے نئے منصوبے چاہیے

ندیم خاں، برہمولہ کشمیر

بی جے پی کی جیت میں خواتین کا بڑا حصہ۔ کانگریس کو عوامی اعتماد جیتنے کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگا
گزشتہ ماہ بھارت کی پانچ ریاستوں میزورم، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ ان میں سے تین یعنی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی، حالانکہ کانگریسی حلقے اپنی پارٹی کی کامیابی کے بارے میں بہت پر امید تھے کیونکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں گزشتہ پانچ برسوں سے کانگریس کی حکومت تھی اور مدھیہ پردیش میں بھی 2020ء تک کانگریس کے کمل ناتھ بحیثیت وزیر اعلیٰ حکومت کر چکے ہیں۔ اگست تک کانگریس پُر اعتماد تھی کہ ان چاروں ریاستوں میں اس کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ ملک کے سیاسی پنڈت بھی ان ریاستوں میں کانگریس کی جیت کے حامی تھے لیکن جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو شمالی بھارت میں واقع تین ریاستوں راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے کانگریس کے مقابلے میں بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی جبکہ جنوبی بھارت میں واقع ریاست تلنگانہ میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔ ان ریاستی انتخابات کی روشنی میں زیر بحث پہلا سوال یہ ہے کہ جب ہر طرف سے کانگریس کی کامیابی کی پیشن گوئیاں کی جارہی تھیں تو وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بی جے پی نے ان ریاستوں میں ایک دفعہ پھر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان ریاستی انتخابات کا انعقاد اس وقت ہوا ہے جب پارلیمانی انتخابات (مئی 2024ء) میں صرف چھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، اس لیے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ان ریاستی انتخابات کے نتائج آنے والے پارلیمانی انتخابات پر کیا اثر ڈالیں گے؟ تیسرا سوال اپوزیشن کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ خصوصاً کانگریس، جس میں راہول گاندھی کی 4000 کلو میٹر ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعے نئی روح پھونکنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا بھارتی سیاست میں آئندہ کیا کردار ہو گا؟ تقریباً 28 اپوزیشن سیاسی پارٹیوں پر مشتمل کانگریس کی سربراہی میں انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس (INDIA) کے قیام سے نئی قیاس آرائیوں کی ہوا چل پڑی تھی کہ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کا یہ سیاسی اتحاد بی جے پی کو ٹکر دے گا۔ نومبر کے ریاستی انتخابات کو اس ضمن میں بطور لٹمس ٹیسٹ پیش کیا جا رہا تھا مگر چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ ہندی بیلٹ میں اس کا کوئی توڑ نہیں۔ اب تو اپوزیشن کے اس سیاسی اتحاد خصوصاً کانگریس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس وقت ملک کی 28 ریاستوں میں سے 12 میں بی جے پی کی حکومت ہے جبکہ کانگریس کی صرف تین ریاستوں میں، لیکن بی جے پی کی 12 ریاستوں میں سے ایک بھی جنوبی بھارت میں واقع نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شمالی بھارت خصوصاً ہندی بیلٹ میں مودی کی لہر چھائی ہوئی ہے لیکن جنوبی بھارت میں یہ غیر موثر ہے۔ حالانکہ گزشتہ دس برسوں کے دور اقتدار میں بی جے پی نے وزیر اعظم مودی کی سرکردگی میں جنوبی بھارت میں قدم جمانے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بی جے پی نے ریاستی اور یونین، دونوں سطحوں پر اپنے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح میں اضافہ کرنے میں ضرور کامیابی حاصل کی ہے اور بھارت کے اس حصے میں واقع بعض ریاستوں میں بر سراقتدار مخلوط حکومتوں میں بی جے پی شامل بھی ہے مگر ابھی تک ہندی بیلٹ کی طرح جنوبی بھارت میں مودی کا جادو نہیں چل سکا۔ اس کے مقابلے میں کانگریس گزشتہ مئی میں کرناٹک میں اور اب تلنگانہ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جنوبی بھارت کی ایک اور اہم ریاست آندھرا پردیش میں اپنے امکانات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو نومبر کے ریاستی انتخابات نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ شمالی بھارت یعنی ہندی بیلٹ کی پارٹی ہے اور جنوبی بھارت میں اسے وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جو بھارت کے شمال، شمال جنوب اور شمال مشرقی علاقوں میں حاصل ہوئی ہے۔ راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی کامیابی کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ کانگریس کے ووٹ بینک میں کمی نہیں ہوئی۔ 2018ء کے ریاستی انتخابات میں اسے جس تناسب سے ووٹ ملے تھے وہ تقریباً وہی رہے البتہ بی جے پی نے 2018ء کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں اور یہ ووٹ خواتین اور دیگر کیٹگریز، مثلاً قبائلی، نچلی ذات اور دوسری پارٹیوں سے ناراض ہونے والوں کے ہیں۔ بی جے پی نے ان پر فوکس کیا اور چونکہ وسائل اور تنظیم کے لحاظ سے بی جے پی بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں سے آگے ہے، اس لیے اسے ان لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، خاص طور پر جب کانگریس نے اس طرف توجہ ہی نہ دی ہو۔ بی جے پی نے ان گروپس کی حمایت حاصل کر کے اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا اور کانگریس کو شکست دی۔ بی جے پی نے اس دفعہ فلاحی کاموں، خصوصاً خواتین کے لیے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی کامیابی میں سب سے زیادہ حصہ خواتین کا بھی ہے۔
کانگریس نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی نچلے اور غریب طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی نمایاں کام نہیں کیا اور انتخابی مہم میں راہول گاندھی نے مودی پر ذاتی حملوں اور عوام سے وعدوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ مبصرین کی رائے میں ان انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ عوام سیاسی مخالفین کی تضحیک اور کیڑے نکالنے والے امیدواروں کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ووٹ مانگنے والے امیدوار اور سیاسی پارٹیاں موجودہ حالات میں در پیش عوامی مسائل کے حل کے لیے نئے منصوبے پیش کریں۔ کانگریس ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا تمام تر زور یا تو اپنے پرانے ادوار میں کیے گئے اقدامات پر تھا یا مودی کی ذات پر براہِ راست حملوں پر مگر، ان ریاستوں کے عوام نے ان الزامات کو رد کر کے اور بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈال کر ثابت کر دیا کہ نریندر مودی اب بھی ہندی بیلٹ میں سب سے زیادہ مقبول لیڈر۔
راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے پورے ملک میں پارٹی کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس میں نئی جان آگئی ہے۔ کرناٹک کو بی جے پی سے چھین لینے کے بعد اس کے ولولے بڑھ گئے تھے۔ راہل، پرینکا، کھرگے وغیرہ کی انتخابی مہم سے ایسا لگ رہا تھا کہ کم از کم راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی آندھی نہیں تو ہوا ضرور ہے۔ لیکن کیا وجہ رہی کہ وہ ہوا خود کانگریس کے خلاف ایک آندھی میں تبدیل ہو گئی اور اس کا سب کچھ اڑا لے گئی۔ اس کے پاس اگر کچھ بچا تو تلنگانہ بچا۔ دراصل بی جے پی کی فتح اور کانگریس کی شکست کے کئی اسباب ہیں۔ اس میں کئی عوامل کی کار فرمائی رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ بی جے پی اپنی خوبیوں سے نہیں جیتی بلکہ کانگریس اپنی خامیوں کی وجہ سے ہار گئی۔
بی جے پی محض سیاسی شعبوں میں ہی متحرک نہیں بلکہ وہ ہر میدان میں آئیڈیالوجیکل آرگنائزیشن رکھتی ہے جو کہ صرف شہروں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مواضعات میں بھی متحرک ہے جس کی وجہ سے عوامی سطح پہ ابھرنے والے نظریات کو مخاطب کرنے میں کامیاب ہے۔ بی جے پی مواقع پر گرفت مضبوط کرنا اچھی طرح سے جانتی ہے۔ وہ ضرورت پڑنے پر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنے سے ذرا بھی نہیں کتراتی۔ بی جے پی کئی بار ووٹرلسٹ کے ہر صفحے کے لیے ایک شخص کا تعین کرتی ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لسٹ میں درج ہر شخص سے رابطہ کرے اور اسے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے راضی کرے۔ وہ ہر الیکشن جیتنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ بی جے پی کے پاس ایک مضبوط آئی ٹی سیل ہے جس پے وہ کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے جو 365 دن متحرک رہتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنے خلاف موجود ہر خطرے کو قبل از وقت محسوس کر کے اس کا سد باب کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ بی جے پی اپنے واضح نظریاتی وژن، مضبوط قیادت، موثر تنظیم، ترقیاتی ایجنڈا اور موثر انتخابی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ اگرچہ بہت سے عوامل ہیں جنہوں نے بی جے پی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن پارٹی کی ترقی کے ایجنڈے پر توجہ اور اپنی حکمت عملیوں کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت اس کی مقبولیت کے اہم محرکات رہے ہیں۔ بے شک ہمیں اس کی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بی جے پی اس وقت ملک کی ایک کامیاب اور مضبوط سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے رضا کار ملک کے چپے چپے میں موجود ہیں۔ ایک طرف وہ مذہبی ہندوؤں کے ذہنوں پے اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے تو وہیں دوسری طرف نوجوانوں کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے۔ کانگریس کئی سال تک سیاست کی بساط پہ اہم کھلاڑی رہی ہے۔ وہ مرکز اور مختلف ریاستوں میں لمبے عرصے تک برسر اقتدار رہی ہے۔ کانگریس کو لمبے عرصے تک ملنے والا اقتدار آزادی کی جد جہد کے دوران گاندھی اور نہرو کی قائدانہ صلاحیتوں سے لوگوں میں پیدا ہونے والے اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اب وہ اعتماد بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کانگریس کو اب اس اعتماد کو پھر سے جیتنے کے لیے از سر نو حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اور ان کمیوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے اسے اس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ بی جے پی کو پے در پے ملنے والی یہ کامیابی محض وقتی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے نصف صدی سے زائد کی جدوجہد شامل ہے۔ ان کے نظریات سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کی اسٹرائٹیجی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرنی چاہیے۔
***

 

***

 راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے پورے ملک میں پارٹی کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس میں نئی جان آگئی ہے۔ کرناٹک کو بی جے پی سے چھین لینے کے بعد اس کے ولولے بڑھ گئے تھے۔ راہل، پرینکا، کھرگے وغیرہ کی انتخابی مہم سے ایسا لگ رہا تھا کہ کم از کم راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی آندھی نہیں تو ہوا ضرور ہے۔ لیکن کیا وجہ رہی کہ وہ ہوا خود کانگریس کے خلاف ایک آندھی میں تبدیل ہو گئی اور اس کا سب کچھ اڑا لے گئی۔ اس کے پاس اگر کچھ بچا تو تلنگانہ بچا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023